PANDEMIC POEMS. یہ نطمیں پہلے انگریزی میں لکھی گئیں۔ نسل کا آخری نمائندہ وہ جو ہر روز اپنی کھڑکی سے جھانکتا ہے کہ دور سے کوئی راہرو آئے اور وہ اس کو گھر میں مدعو کرے، محبت سے بیٹھ کر← مزید پڑھیے
جانِ من، تمہاری دید کے بغیر بہار، خزاں میں ڈھل گئی تھی، اور تمہارے بوسے کے بِنا، نرم گرم موسم کی جگہ شدید سردی نے لے لی ہے۔ اور ہم، ہم کہ محرومِ تماشا، ہم سرد مِہری کے ستائے ہوئے،← مزید پڑھیے
میں بھی ٹورسٹ گائیڈ ہوں میں آپ کو اے صاحبو یہ گنبد و مینار یہ اونچی فصیلیں لال قلعے سنگ مرمر کے جھروکے بیگموں کے حوض خاص و عام کے دیوان تخت و تاج کلغی جبہّ و دستار بڑھتے لشکر← مزید پڑھیے
امریکہ کے اِس بڑے اور صنعتی شہر شکاگو کے لوگوں نے مقامی اخبارات میں چھپی چوتھے درجے کی اِس سرخی پر سرسری سی نظر ڈالی ہوگی اور پھر دوسری خبروں کی طرف متوجہ ہوگئے ہوں گے کہ طیاروں کا کریش← مزید پڑھیے
ہزاروں، لاکھوں ہی سیڑھیاں ہیں نشیب میں سب سے نچلی سیڑھی پہ میں کھڑا ہوں تھکا ہوا، بے امان، درماندہ، بے سہارا مگر ارادے میں سر بکف، ولولے میں پا مرد، دھُن کا پکا یہ عزم بالجزم ہے، جنوں ہے،← مزید پڑھیے
اک خوف مجھے شام وسحر لگتا ہے جان آفت میں ہے خطرے میں شہر لگتا ہے ضحی کو کل شام کی کیفیات کے بعد سے بےسکونی سی محسوس ہوتی رہی۔آسمان نے رات کی اوڑھی ہوئی چادر کو اتارا اور مکمل← مزید پڑھیے
اس دن دوپہر کا کھانا اس نے معمول سے تھوڑا لیٹ کھایا۔کھانے کے بعد طبیعت میں بے چینی کو بھانپتے ہوئے اس نے کچھ دیر گھر سے باہر چہل قدمی کا فیصلہ کیا۔وہ اپنی گنجان اور پرانی آباد شدہ کالونی← مزید پڑھیے
مضامین اور افسانے، یعنی ایک تیر سے دو شکار؟ نہیں، سستی اور کاہلی؟ نہیں۔خانہ پُری؟اس کی ضرورت نہیں۔ نہ مہ جبین قیصر صاحبہ نے مجھ سے کسی تحریر کا تقاضا کیا ہے، نہ حکم دیا ہے۔ بلکہ وہ تو ان← مزید پڑھیے
ROGUE POEMS یعنی ـ’’شریر نظموں‘‘کی ایک شعری وبا سی انگلینڈ میں 1972-74کے برسوں میں پھیلی ،جب میں وہاں مقیم تھا۔ ؎ انگریزی میں یہ نظمیں اس قدر مقبول ہوئیں کہ ’’دی گارڈین‘‘ سمیت کئی روزنامو ں نے باقاعدگی سے اپنے← مزید پڑھیے
خط۔ نمبر١١ کشتی’ سمندر’ جزیرہ ڈئیررضوانہ ! تمہارا خط پڑھ کر میں بہت اداس اور افسردہ ہو گیا۔ اگر یہ سب باتیں مجھے کوئی اور بتاتا تو میں بالکل یقین نہ کرتا۔ تم نے نوجوانی میں ہی کتنے دکھ سہے← مزید پڑھیے
دعا بارگاہ حقیقی میں ہے یہ مری شاعری پڑھنے والوں کی آنکھیں سلامت رہیں تا کہ پڑھتے رہیں و ہ ! سبھی پڑھنے والوں کے شوق وتجسس کی خاطر مری طبع ِ تخلیق اُن کے لیےموتیوں کی یہ لڑیاں پروتی← مزید پڑھیے
میرا نام خدا بخش چدھڑ ہے، میرے بزرگوں نے یہی بتایا تھا کہ میں 1925ء میں ساون بھادوں کے مہینے میں پیدا ہوا، میری تاریخ پیدائش تو ٹھیک طور سے کسی کو یاد نہیں تھی مگر یہ بزرگوں کا خیال← مزید پڑھیے
عین مزنگ چونگی پر واقع راجا چیمبرز کی چار منزلہ عمارت سے نیچے اتر کر المشہور چھہتر ماڈل مکھی نما ستر سی سی ہنڈا موٹر سائیکل جب اپنی جگہ پر نہ ملی تو ہمیں یقین نہیں آیا۔ اس لیے بھی← مزید پڑھیے
سن2004ء میں گورنمنٹ گورڈن کالج راولپنڈی کے سامنے قدیمی ادبی رسالے ماہنامہ”نیرنگ خیال“کے دفتر میں سلطان رشک کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک نوجوان دفتر میں وارد ہوا،تعارف ہونے پر معلوم پڑا کہ نام فیصل عرفان ہے،آبائی تعلق← مزید پڑھیے
1:اظہار اور ابلاغ کی جتنی بھی صورتیں ہیں ان میں شاعری کو کیا امتیاز حاصل ہے؟واجبی تعلیم رکھنے والے لوگ یا کم پڑھے لکھے شاعری کو نہیں سمجھ سکتے،اس تناظر میں اظہار کا یہ ذریعہ کیوں کر دیگر ذرائع سے← مزید پڑھیے
”کِس سے ملنا ہے آپ کو؟“ کہنا پُوچھنا تو یہی تھا۔پر دروازے کے پٹ کو ہاتھوں میں پکڑے اور اُسے دیکھتے اُس کی زبان جیسے کچھ بولنے سے انکاری ہوگئی تھی۔ہاں البتہ آنکھوں نے کُھل کُھلا کر اس کا اظہار← مزید پڑھیے
یہ زلزلے شہر روشنی کے ،بدل گئے نالہ وفغاں میں نوائے غم ہے ہر اک صدا میں مہکتی شاموں کے پھول چہرے،دھویں کے بادل میں اَٹ گئے ہیں محبتوں کی امین دھرتی میں جامِ نفرت چھلک رہا ہے سہاگ کتنے← مزید پڑھیے
وہ آج پھر روٹی کی کھوج میں نکا تھا۔ مملکتِ خداداد کا یہ باسی گزشتہ کئی ماہ سے پے در پے آنے والی آفتوں سے زندہ لاش کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ کورونا وبا کے دوران لگائے جانے والے لاک← مزید پڑھیے
ڈئیررضوانہ ! آپ اور برقعہ۔ مجھے پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا۔ میں یہ کیسے یقین کروں کہ آپ جیسی فنکارہ ۔۔۔۔آزاد خیال۔۔۔ایک برقعے میں پابند۔ پہلے میں دکھی ہوا ،پھر میری رگِ ظرافت پھڑکی اور جی← مزید پڑھیے
سنگ تراشی اس کا خاندانی پیشہ تھا۔ وہ اس فن کو عبادت سمجھتے تھے۔ اس کا والد کہتا تھا ہرٹیڑھے میڑھے پتھرمیں ایک مورتی چھپی ہوتی ہے جسے فنکار ایک نیا جنم دیتا ہے۔ نسل در نسل وہ گندھارا← مزید پڑھیے