خلا ۔۔افضل حیدر

اس دن دوپہر کا کھانا اس نے معمول سے تھوڑا لیٹ کھایا۔کھانے کے بعد طبیعت میں بے چینی کو بھانپتے ہوئے اس نے کچھ دیر گھر سے باہر چہل قدمی کا فیصلہ کیا۔وہ اپنی گنجان اور پرانی آباد شدہ کالونی سے نکل کر قدرے مضافات میں آ گیا۔کھیتوں کے بیچ و بیچ تنگ پگڈنڈی پر چلتے ہوئے اس کے دماغ میں طرح طرح کے خیالات امڈ آئے تھے, انہی بے ربط سوچوں میں گم وہ بس یونہی چلا جا رہا تھا۔ فضا میں ہلکا دھوا اور سردی کا دھیما دھیما سا نشہ تھا۔وہ اپنے ماضی کے اوراق کو پلٹ کر وہاں سے حال میں کام آنے والے اسباق اکھٹے کرنے میں جتا ہوا تھا۔وہ پینتیس برس کا ایک صحت مند اور مرفاالحال نوجوان معظم علی خان تھا۔

زمین داری,نوکر چاکر, دو بڑی اور نئے ماڈل کی گاڑیاں,شہر اور گاؤں میں دوہرے مکان۔کیا کچھ نہیں تھا اس کے پاس۔گاؤں اور شہر کے سب جاننے والے اس کی دل سے عزت اور آؤ بھگت کرتے تھے۔ یہ عزت اور وقار کچھ اس کے ذاتی کردار اور زیادہ اس کے باپ کی متوازن اور صاف ستھری شخصیت کا اکتساب تھا۔ اس سب کے باوجود اس کی زندگی میں ایک خلا تھا جو اردگرد کی چکا چوند کے باوجود گھٹنے کے بجائے روز افزوں بڑھتا رہا۔ وہ برسوں سے جس چیز کی تلاش میں تھا وہ صرف اور صرف دل اور دماغ کا سکون تھا۔ وہ ہر ممکن کوشش کے باوجود کہیں سے اپنے لئے ایسا کچھ نا خرید سکا جو اس کے دل و دماغ پر چھائی ہر وقت کی بے سکونی کو راحت میں بدل دے۔ وہ خود کو مصروف اور خوش رکھنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے ترتیب دیتا۔گاؤں کی بھیڑ بھاڑ سے بھاگ کر شہر والے گھر آجاتا,جب یہاں دیواروں کی گھٹن بڑھنے لگتی تو پھر گاؤں کی طرف بھاگنے لگتا۔گاڑی نکال کر کسی سنسان سڑک پر میلوں دور نکل جاتا,اتنا دور کے جہاں سے جلد لوٹ آنے کی فکر نا ہو۔ وہ خود کے ساتھ جوڑ دیئے گئے چند رشتوں کو نبھانے کے تقاضوں سے بھاگتا پھرتا تھا۔ اسے بے گانگی میں اپنے لئے راحت کے کچھ لمحے تلاشنے کی ہر دم چاہ رہتی تھی۔رشتے ناطے,دوست یار نا جانے کیوں ان سب سے چڑھ ہو گئی  تھی, وہ ماضی میں بالکل بھی ایسا نا تھا زندگی کے ایک ایک پل سے لطف اندوز ہونے والا ایک زندہ دل اور رجائیت پسند نوجوان تھا۔آج زندگی اور قسمت کے بے رحم کھیل نے اسے عجیب دوراہے پر کھڑا کر دیا تھا وہ جس خواہش کی چاہ میں سرپٹ بھاگ رہا تھا اسی خواہش کے منہ زور گھوڑے نے کہیں رسوائیوں کی گہری کھائ میں جا گرایا تھا اُسے۔۔

اس دن وہ محرومیوں کی منحوس پرچھائی سے دامن بچاتا کسی انجانے سکون کی کھوج میں نکل پڑا تھا۔اس نے اس خاموش سڑک پر چلتے چلتے اپنے دماغ کو حال کی چیرہ دستیوں سے نکال کر ماضی کے گہرے پانیوں میں یادگار لمحوں کی قیمتی سپیاں چننے پر لگا دیا۔اسے ماضی کی چند یادوں سے بہت محبت تھی,جب کبھی اس کا دل حال کی چند زنگ آلود کثافتوں سے بھر جاتا۔ وہ ماضی کے گہرے پانیوں میں ڈبکی لگاتا اور کچھ دیر کے لئے اپنے تن من کو اجلا کر لیتا۔اس نے اپنے زمانہ طالب علمی کے بھولی بسری یادوں کو سمیٹ کر اکھٹا کیا اور پھر ان یادوں میں کہیں گم سا ہوگیا۔ بچپن میں خود سے سرزد ہونے والی چند مزے مزے کی شرارتوں کے اچانک ذہن میں وارد ہونے پر وہ کئی  بار مسکرایا اور کھلکھلا کر ہنسا۔اس نے اپنے سکول کے دور کی ایک شرارت کو یاد کیا جب ایک دن استاد کے سوال کا جواب دینے کے لیے کھڑے ہونے والے اس کے ہم جماعت نوید کی ایک معمولی سے جھٹکے کے ساتھ اس نے پینٹ اتار دی تھی۔استاد اور سب ہم جماعت بچوں کے سامنے بیچارہ نوید کتنا شرمندہ ہوا تھا۔ والد صاحب سے ماسٹر صاحب کی دعا سلام کی وجہ سے انہوں نے اس حرکت پر اسے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اسے ایک اور شرارت یاد آئ جب اس نے اپنے پڑوسی شریف حسین کو سگریٹ پینے کے لئے اپنی جیب سے ایک سگریٹ نکال کر دی تھی۔اس بیچارے نے سگریٹ کا ایک کش ہی لگایا تھا کہ شگریٹ میں موجود چھوٹا پٹاخہ اتنے زور سے پھٹا کہ شریف حسین کی مونچھوں کے کئی بال جل گئے اور اس نے اس کے والد سے اسے خوب ڈانٹ پلائی  تھی۔

وہ سکول سے کالج کے زمانے کی طرف لوٹ آیا۔اسے رہ رہ کر کالج میں گزارے ہوئے اپنے خوبصورت ایام اور جان چھڑکنے والے دوست یاد آنے لگے اسے اپنا ایک دوست دانش رہ رہ کر یاد آیا جو اس کو رگ جاں سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا۔دانش نے اس کے لئے کیا کچھ نا کیا۔ پروفیسر راشد کی ذاتی الماری سے داخلہ ٹیسٹ کا انگریزی کا پرچہ تک چوری کر لایا تھا اس کے لئے۔ کالج کی سیاست میں اسے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔طلبا یونین کا صدر ہونے کی وجہ سے سب لڑکے اس کے آگے پیچھے ہوتے تھے۔ ایک دن ایک دوسرے گروپ کے ساتھ لڑائی  میں دانش نے اس کی خاطر لڑکے شفقت کا سر پھاڑ ڈالا تھا۔اس رات دانش مقامی تھانے کی حوالات میں تھا اور وہ گھر کے نرم اور آرام دہ بستر پر۔۔اس پر ہر وقت نچھاور ہونے والا دانش اب کہاں اور کس حال میں تھا اسے کوئی  خبر نہ تھی۔
کالج کے ہنگاموں سے یونیورسٹی کی چکا چوند تک کا سفر اس نے کتنی تیزی سے طے کر لیا تھا,اب وہ خاصا بدل چکا تھا۔ ایک کھلنڈرے, بدتمیز شرارتی لڑکے سے ایک رکھ رکھاؤ والا مہذب نوجوان بن چکا تھا۔

اس کی کلاس کے سب لڑکے لڑکیاں اس سے بے حد متاثر تھے۔ایم اے پولیٹیکل سائنس اس کی افتاد طبع سے مطابقت نا رکھتا تھا,مگر اس میدان عمل کا انتخاب اس نے اپنے والد کی خواہش پر کیا تھا۔اپنی پسند کا مضمون نا ہونے کے باوجود وہ کچھ زیادہ بد دل نہیں تھا ڈیپارٹمنٹ میں خاصا دل لگ گیا تھا اس کا۔ دوسرے سمسٹر کے فائنل ایگزام کے دنوں میں کلاس کی سب سے خوبرو اور باوقار لڑکی ہما گوہر من ہی من اسے بھا گئی۔

ہما کا دل جیتنے کے لئے اس نے کون کون سے پاپڑ تھے جو نہ  بیلے ہوں۔ یونیورسٹی کے ایک پلے کمپیٹیشن میں انہیں ایک دوسرے کو قریب سے جاننے کا موقع ملا اور دونوں جلد ہی راہ و رسم سے آزاد ہوگئے۔جوڑی ایسی کہ جو دیکھے رشک کرے۔کلاس کی سب لڑکیاں اس کے ڈیل ڈول اور چہرے مہرے پر لٹو ہوتی تھیں مگر اس کے من کو بھائ تو صرف اور صرف ہما گوہر۔۔ موتیوں کی طرح نایاب اور قیمتی۔۔ دوسری طرف ہما کی باوقار سنجیدہ شخصیت پر ملکوتی حسن کا ایسا جادو جو ہر خاص و عام پر سر چڑھ کر بولے۔دوسرے سمسٹر کے اختتام میں پروان چڑھنے والا محبت کا یہ ننھا بیج چوتھے سمسٹر کے اختتام تک پک کر پوری طرح تیار ہو گیا۔ ہما اور اس کے خاندانی پس منظر میں کچھ خاص فرق نا تھا مگر ذات پات کی اونچی دیواریں دونوں کی محبت سے بھی کہیں اونچی نکلیں۔ ابتدائی  تحفظات اور رد و قدح کے بعد شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں رہنے والے ہما کے گھر والے مان گئے,مگر معظم کے خواب اونچے شملوں اور بڑی زمینوں کے بڑے تقاضوں کی زد میں آکر کہیں پامال ہوگئے۔ ماں مانی  نا باپ۔باپ کو اپنی بہن کی بیٹی اور ماں کو بھائ کی بیٹی کے سہانے مستقبل کی فکر اپنے ذاتی اور اکلوتے بیٹے کی ذات سے جڑی خوشی سے بلند تر نکلی۔اس کو ہما کے ساتھ ہونے والی وہ آخری ملاقات رہ رہ کر یاد آ رہی تھی جس میں اس نے بار بار اسے بزدل اور جھوٹا کہا تھا۔ وہ رو رہی تھی اور مسلسل رونے سے اس کی آواز بیٹھی جا رہی تھی۔اس دن ایسا لگ رہا تھا جیسے مر جائے گی۔ وہ اس سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔”مجھے برباد کرکے تجھے کیا ملا” یہ وہ جملہ تھا جس کی تڑپ وہ آج تک محسوس کرتا تھا۔ وہ بڑے خاندان کی چھوٹی روایات سے بغاوت کرکے اپنی محبت سے وفا کرنا چاہتا تھا مگر بوڑھے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا آخر کتنی بغاوت کر لیتا۔ وہ ایک محبت کو زندہ رکھ کر اکیلا آخر کتنے جنازے اٹھا سکتا تھا۔ہما کو اس سے کسی اور نے نہیں اس نے خود چھینا۔وہ بڑی زمینوں کا بڑا مالک اس وقت اپنے لئے بڑا فیصلہ نا کر سکا۔

دن کا پچھلا پہر چل رہا تھا شام زمین کی دہلیز پر دستک دینے کو بیتاب کھڑی تھی۔سوچوں کے تلاطم میں غرق وہ اپنے گھر سے خاصا دور نکل گیا۔چلتے چلتے خیال ہی نا رہا کہ انہی قدموں کے ساتھ اس نے واپس بھی جانا ہے۔ اس نے اپنی دائیں آستین سے ماضی کی سیاہ گرد سے لبریز آنسوؤں سے تر اپنے رخساروں کو صاف کیا,اور ڈگمگاتے قدموں اور مضمحل ہوتی سانسوں کی بحالی کے لئے ایک شیشم کے درخت کی ٹہنی کا سہارا لے کر سرسوں کے کھیت کے بیچ و بیچ گزرنے والے صاف پانی کے چھوٹے کھالے کی پگڈنڈی پر بیٹھ گیا۔کچھ دیر لمبی لمبی سانسیں لینے کے بعد اس نے داہنے ہاتھ کی مدد سے کھال سے کچھ پانی لیکر اپنا منہ دھویا اور جوتے اتار کر پاؤں پانی میں لٹکا لئے۔ ایک بار پھر اس کا دماغ اسے وہاں لے گیا جہاں وہ جانے سے کترا رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ جن رشتوں کا بھرم رکھنے کی خاطر اس نے اپنی محبت اور کسی کے جذبات قربان کئے آج وہ رشتے کہاں ہیں؟اس کی محبت کی طرح خاک میں خاک ہو گئے۔

ابا نے بڑی بہن سے کیا ہوا عہد نبھانے کے لئے اس نصیب پر ایسی کاری ضرب لگائی  جس سے اٹھنے والی درد کی کسک ابھی تک اسے بے چین رکھتی تھی۔ بے جوڑ اور احساسات سے خالی رشتوں کا بوجھ آخر کس حد تک اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہم کب تک خود کو روک سکتے ہیں۔گلے میں زبردستی پہنایا جانے والا طوق نا اتارا جائے تو گردن کاٹ کر اتارنا پڑتا ہے۔ اسے یہ خیال بھی کھائے جا رہا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا جس کے بڑے ہونے کی چاہ میں انہوں نے خوشی خوشی زندگی کاٹ لی تھی۔ آج اس کے پاس کیا تھا۔ایک بڑی عمر کی ناخواندہ بیوی,حسد کی آگ سے جلتے رشتوں اور چند بے جان زمینوں کے علاوہ کیا تھا اس کے پاس۔۔ پچھتاوے اور نارسائ کا بوجھ جو کہ وہ گذشتہ دس برسوں سے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس سے اٹھ ہی نہیں رہا تھا۔

انہی لا یعنی سے خیالات میں غرق اس نے اس تنگ پگڈنڈی سے اٹھنے کی کوشش کی مگر اٹھ نہیں پایا۔ اسے ایک جھرجھری سی آئی,اور جسم پر کپکپی سی طاری ہو گئی۔ ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے اُمڈ آئے۔ اس نے پتھر سا بھاری اپنا بایاں ہاتھ بڑی دقت کے بعد سینے پر رکھا اور کھیت کی گیلی زمین پر لیٹ گیا۔ اس کا دل رکا جا رہا تھا اور سانس لینے میں شدید دشواری تھی۔ اس نے کسی کو مدد کے لئے پکارنے کی کوشش کی مگر زور لگانے کے باوجود منہ سے آواز نہیں نکل پائی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قریب ہی کسی گاؤں کی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے مغرب کی اذان کی آواز گونج رہی تھی۔ فضا کہر آلود اور سخت سرد تھی۔ وہ زمین پر بے حس و حرکت پڑا تھا البتہ اس کے دائیں پاؤں کا جوتا صاف پانی کے بہا میں بہہ کر کافی آگے نکل گیا تھا۔

Facebook Comments

محمد افضل حیدر
محمد افضل حیدر شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں.عرصہ دراز سے کالم , اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں..معاشرے کی نا ہمواریوں اور ریشہ دوانیوں پر دل گرفتہ ہوتے ہیں.. جب گھٹن کا احساس بڑھ جائے تو پھر لکھتے ہیں..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply