• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط2)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط2)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

اک خوف مجھے شام وسحر لگتا ہے
جان آفت میں ہے خطرے میں شہر لگتا ہے
ضحی کو کل شام کی کیفیات کے بعد سے بےسکونی سی محسوس ہوتی رہی۔آسمان نے رات کی اوڑھی ہوئی چادر کو اتارا اور مکمل آب و تاب کے ساتھ دنیا پر چمکنے لگا،
مگر اسکی غزالی جھیل جیسی آنکھوں میں منفی سوچوں سے پیدا ہوتی خوف کی پرچھائیاں واضح نظر آتی دِکھائی دے رہی تھیں ۔کچی نیند کی وجہ سےمسلسل سوچوں کی یلغار ہوتی رہی ۔ مستقبل کی بھیانک منظر کشی اس کی رت جاگی آنکھوں سے اپنی حقیقت بیان کرتی تھی ۔
اس کا خمیازہ اِسے دن چڑھے سونے کی وجہ سے بوجھل طبیعت کے ساتھ دن کے آغاز سے گھر والوں کے چھبتے روایتی جملوں کی صورت بھگتنا بھی پڑا۔جو حساس ہوتی طبیعت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔
ظہر کے لیے دوپٹہ کا حجاب بناتے ہوئے اس کے کان میں ماں جی کی آوازیں کسی جیل وارڈن کی طرح گونج رہیں تھیں، جو دوسرے کمرے میں غالباً کوئی کام کر رہیں تھیں۔
“ارے میں کہتی ہوں دن چڑھے سونے میں کیا برکتیں ہیں۔آجکل کی لڑکیاں ماتھے پہ ٹھنڈے پسینے آئے نہیں اور بستر پکڑ لیا۔ اور بہانے یہ کرتیں ہیں جوان جہاں دل گھبراتا ہے، ارے یہ کیسا دل گھبراتا ہے ۔جو ویسے تو تندرست ہوتا ہے جونہی کسی کام کو کرنے کا کہہ دو ڈوبنے لگتا ہے ۔پوچھ لو تو منہ میں زبان گم کر لیتی ہے ۔کام نا کرنے کے سو بہانے ہیں ۔ آج کل کی اولاد کے پاس ۔”
ضحی بیچاری دکھ سے ان الفاظ کو سنتی گئی جو اُس کی ذہنی اذیت میں مزید تناؤ کا باعث بن رہے تھی ۔

کسی دور میں اسکی چہکتی زندگی سے بھر پور آنکھوں کے کناروں سے خاموش صاف آنسو اُسے ایسے بہتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے جیسے اب خوشیاں اور زندگی کی رعنائیاں نہیں رہی ہیں، اور ایک اندرونی و بیرونی طویل آزمائش اس کی منتظر ہے ۔اس نے خوف سے جھرجھری لی اور نماز کی طرف راغب ہوئی کیونکہ اسے یاد آیا کہ اللّٰہ فرماتے ہیں “صبر اور نماز سے مدد مانگو”۔

ضحیٰ نے رکوع میں جاتے ہوئے نظر کو سجدے میں جمانے کی کوشش کی ایک دم دل ڈوبتا محسوس ہوا ۔خوف کی لہر رگ و جاں میں دوڑنے لگی۔ آنکھوں کے آگے اندھیرے اور کانپتی ٹانگوں کے ساتھ اب حواس قائم کرنے مشکل ہو رہے تھے ۔ اسے لگا کچھ ہونے والا ہے ۔ جیسے ابھی سب ختم ہو جائے گا دل کی دھڑکن یک دم تیز ہوئی اور اسکی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔
اس نے سوچا پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا ۔نماز میں سکون سے ادا کرتی تھی ۔جسے تیسے نماز ختم کی تو ریشمہ جو تھی تو چھوٹی بہن مگر گرج کر بولی۔ “اگر آپ نے نماز میں دوچار ڈینگیں مار لیں ہیں تو آکر روٹیاں ڈالیں صبح سے ہلکان ہوگئی ہوں اور یہ محترمہ دن چڑھے تک سوتی رہتی ہیں پتا نہیں کونسا ہل چلا کر آتی ہیں کھیتوں میں “۔

اس کے الفاظ اسے مزید دکھ کی دلدل میں دھکیل گئے، سوچنے لگی یہ وہی بہن ہے جس کے اچھے مستقبل کے لیے اس نے زندگی کے بہترین دن حالات کی بھٹی میں جلا دیے۔
مجھے کیا ہو رہا ہے ۔ انہیں میری اس تکلیف کا احساس نہیں، جو مجھ پر کچھ لمحے پہلے نماز کے دوران گزر چکی ۔ بے بسی کے ساتھ ساتھ منفیت اور یاسیت کے دورے اس پر پڑنے لگے ۔اس لمحے اسے اپنی بہن سے نفرت بھی محسوس ہوئی ۔

بددلی کے ساتھ بوجھل قدموں آنسوؤں کو پیتے بجھے چہرے کے ساتھ ضحی نے بمشکل ہمت کرکے کچن کی طرف قدم بڑھائے تاکہ کچھ معمول کے کاموں میں حصہ لے۔اس نے کن انکھیوں سے اپنی بہن کو دیکھا اور سوچا کاش میں بھی ریشمہ جیسی ہوتی بے خوف،بے فکر اور من موجی ۔ اور کسی حد تک خود غرض، بے حس مزاج لیکن ایک دم پھر اسے نماز کے دوران کی کیفیت یاد آئی فوراً ایک خیال اس کے ذہن میں دوڑا کہیں میرے دل کو کچھ تو نہیں ہوا ہے اس وقت کہیں مجھ ہارٹ اٹیک تو نہیں ہو رہا تھا ۔ یہ سوچتے ہی اسے ایک بار پھرسینے پر دباؤ محسوس ہونے لگا ساتھ ساتھ گھٹن، سانس لینے میں دشواری اسے لگا کہ اب کچھ ہونے والا ہے ۔شاید میری زندگی ختم ہو جائے اور اسے دن میں ہی دھندلا منظر اردگرد محسوس ہونے لگا خوف سے اس کی آواز بھی بند ہو گئی مجھے کیا ہوگیا ہے۔ اسے لگا میں تو کھڑی نہیں ہو پا رہی ہوں۔میری دھڑکن اف خدایا! اس نے اذیت سے سوچا بے بسی کچھ کھو جانے کا احساس، آنکھوں سے بہتے قطرے، والدہ کی جلی کٹی باتیں اور بہن کے طنز اس کیفیت میں بڑھکتے آلاؤ کی طرح لگ رہے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ضحیٰ  نے فوراً گلے کی نس اور نبض محسوس کرنا چاہی، مگر بد حواسی میں کچھ محسوس نہیں ہوا، بلکہ اسے سانس رکتا ہوا دل کی دھڑکن مدہم لگنے لگی ۔ضحیٰ ابھی اس بات سے انجان تھی کہ جب انسان اپنی دھڑکن کو محسوس کرتا ہے تو غیر ارادی طور پر سانس روک لیتا ہے۔ بے قابو ہوتے اعصاب کی بدولت ضحیٰ  روتے روتے حواس کھو بیٹھی اور بے ہوش ہو گئی اور آخری آوازیں جو اس نے سنیں وی ٹی وی پر لگے قرآن کی تھیں۔
“اور ہم جانتے ہیں کہ ان باتوں سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے
تو تم اپنے پروردگار کی تسبیح کہتے اور (اس کی) خوبیاں بیان کرتے رہو اور سجدہ کرنے والوں میں داخل ہوجاؤ”
ماں جی کمرے میں آئیں تو ریشمہ کو آوازیں دینے لگیں جلدی سے ناشتہ لاؤ اب اتنی بھوکی رہے تو بے ہوش ہی ہونا ہے اور پھر بہانے تیار ہو گئے پہلے ہی ھڈ حرام ہوتی جا رہی تھی کچھ دنوں سے اب یہ ڈرامے شروع ۔
ضحیٰ  ان کی باتوں سے بے پروا اپنے شعور سے بیگانہ بستر پر آڑھی ترچھی پڑی تھی
جاری ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply