موت مجھ کو مگر نہیں آتی۔۔سعید چیمہ

میرا نام خدا بخش چدھڑ ہے، میرے بزرگوں نے یہی بتایا تھا کہ میں 1925ء میں ساون بھادوں کے مہینے میں پیدا ہوا، میری تاریخ پیدائش تو ٹھیک طور سے کسی کو یاد نہیں تھی مگر یہ بزرگوں کا خیال تھا کہ میری پیدائش کا سال 1925ء تھا، ہاں البتہ مہینہ ساون بھادوں کا ہی تھا وہ اس لیے بزرگوں کو یاد رہ گیا کیوں کہ ان مہینوں میں  اکثر سیلاب آتا ہے اور میں جس سال پیدا ہوا تھا اس سال بھی بڑا زبردست سیلاب آیا تھا، میرا تعلق ضلع گ ب کی تحصیل ل م کے گاؤں ب پ سے ہے،ہمارے گاؤں میں کوئی بھی پڑھا لکھا شخص نہ تھا ،سوائے گاؤں کے امام مسجد کے، امام مسجد بھی قرآن پڑھنا جانتا تھا اور کسی کو  موصول ہوا خط بھی اٹک اٹک کر پڑھ لیتا تھا، اگر کسی نے خط لکھ کر کسی عزیز و اقارب کو بھیجنا ہوتا تو قاری صاحب کی خدمات خاصل کی جاتیں اور قاری صاحب آٹھ پہر میں خط لکھ دیتے تھے، اپنے پُرکھوں کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے میں نے بھی پڑھنا لکھنا نہ سیکھا، آس پاس کے گاؤں میں بھی خط لکھنے اور پڑھنے  والے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھا جاتا تھا۔

بچپن میں تو میں نے پرھنا لکھنا  نہ سیکھا، البتہ اپنے شباب کے اوائل میں نہ جانے کیا ہلچل ہوئی کہ میں نے پڑھنے لکھنے کا تہیہ کر لیا، امام مسجد کی خدمت میں برابر تین ماہ تک شام و سحر حاضر ہوتا رہا،  اور آخر کار شجر کو ثمر لگا اور میں نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا،  پڑھنا لکھنا سیکھ کر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی صف میں کھڑا ہو گیا، زندگی کٹتی رہی اور میں نے پندرہ بہاریں دیکھ لیں، شہر سے آنے والے  ایک عزیز نے سارے گاؤں کو مژدہ سنایا کہ مسلمانوں کا محمد علی جناح نامی لیڈر ایک الگ وطن کے حصول کے لیے کوشاں ہے، جب کہ کانگرس کے ہندو رہنما گاندھی اور نہرو چاہتے ہیں کہ ملک کا بٹوارہ نہ ہو۔۔

یہ خبر تو ہمارے گاؤں کے باسیوں کے چمن پر برق بن کر کوندی، اگر ہم اس بٹوارے کے بارے میں بے خبر تھے تو آس پاس کے گاؤں والے بھی بے خبر تھے، ہر کوئی فکر مند رہنے لگا کہ تقسیم کے بعد کیا ہو گا، ہمارے اور آس پاس کے گاؤں کی آبادی زیادہ تر سکھ اور مسلمانوں پر مشتمل تھی، لیکن مجموعی برتری مسلمانوں کو حاصل تھی، سکھ البتہ مسلمانوں کو مال و زر میں   پاس بھی نہ پھٹکنے دیتے تھے، سکھ پریشان تھے کہ  اگر یہ علاقہ مسلمانوں کے ملک میں چلا گیا تو ہماری دولت اور عزت و آبرو کا کیا ہو گا، مسلمانوں کی پریشانی بھی اس سے مختلف نہیں تھی، اب آنکھیں ہر وقت شہر سے آنے والے مسافروں کی راہ تکتی رہتیں کہ آنے والا کیا خبر لے کر آیا ہے۔

1940ء سے لے کر 47ء تک برابر خبریں آتی رہیں کہ آج لاں جگہ مسلمانوں اور سکھوں کی لڑائی ہو گئی اور آج فلاں شہر میں ہندو  و مسلم گتھم گتھا ہو گئے، ان ساری خبروں کے ذرائع  صرف اور صرف شہر سے آنے والے مسافر ہوتے تھے،  گاؤں میں اس وقت لوگ ریڈیو سے واقفیت نہیں رکھتے تھے اور نہ کسی کے پاس یہ سمعی آلہ تھا،  آخر کار اگست 1947ء آن پہنچا جب میری عمر سترہ سال ہو چکی تھی، ایک دن شہر سے آنے والے مسافر نے اطلاع دی کہ اگر سکھ مسلمان علاقوں سے اپنے کنبے و سامان سمیت ہجرت کرتے ہیں تو مسلمان ان کو لوٹ لیتے ہیں اور یہی سلوک ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے،۔

ہمارے گاؤں میں جو سکھوں کے آٹھ دس گھر تھے انہوں نے رات کی تاریکی میں ہجرت کرنے کی کوشش کی، گاؤں کے مُسلوں کو اس ہجرت کی سُن گُن پہلے ہی ہو چکی تھی، عین اسی وقت گاؤں کے مسلمانوں نے سکھوں کے قافلے پر دھاوا بول دیا، حملہ کرنے والے ان مسلمانوں میں مَیں بھی شامل تھا، اپنی عزت و ناموس کو خطرے میں دیکھ کر سکھ لڑائی پر آمادہ ہو گئے اگرچہ وہ ہم سے تعداد میں بہت کم تھے، نتیجہ اس کے سوا کیا نکلتا کہ سب سکھوں کو بھالوں اور تلواروں سے لہو لہان کر دیا گیا، بچوں کو بھی  نہیں بخشا گیا، بچ جانے  والی سِکھ  عورتوں کو دیکھ کر  ہر کسی کے اندر چھپا ہوا درندہ جاگ اٹھا،  ان عورتوں پر ظلم و ستم کے ہمالہ توڑے گئے، جنسی تسکین کے بعد عورتوں کو بھی تہِ تیغ کیا گیا، ان عورتوں کی ناموس کے قلعے پر میں بھی حملہ کرنے والوں شامل تھا،  ایک بیوہ جو اپنی ناموس کو بچانے کے لیے بتہیری دہائی دیتی رہی مگر میرے اند کا درندہ اب بے قابو ہو چکا تھا، شرم و حیا کے سارے لباس میں نے اتار پھینکے، اس قتلِ عام سے حاصل ہونے والے مال کو مالِ غنیمت سمجھ کر آپس میں تقسیم کر لیا گیا۔

اگلی رات سب گاؤں والوں نے پروگرام بنایا کہ ساتھ والوں میں سکھ بہت مال دار ہیں لہذا ان پر چھاپہ مارا جائے، دوسرے گاؤں کے مسلمان بھی ہمارے جتھے میں شامل ہو ئے اور ہم نے سکھوں کے گھرں پر دھاوا بول دیا، یہاں بھی کشت و خون کا بازار سرگرم کیا گیا، فضا عورتوں کی چیخوں سے بوجھل ہو گئی،  سکھ لٹتے رہے اور ان کا مال مسلمان مالِ غنیمت سمجھ کر آپس میں تقسیم کرتے رہے، مشرقی پنجاب سے آنے والے مسلمانوں کی حالت بھی ان سکھوں سے زیادہ مختلف نہیں تھی جو مغربی پنجاب سے ہجرت کر رہے تھے،پاکستان اور ہندوستان اس لیے ترقی نہیں کر سکے کیوں کہ  دونوں ممالک کو ان مظلوموں کی سسکیاں اور بد دعائیں کھا گئیں جو آزادی کے ان مظلوموں کی زبانوں سے نکلی تھیں۔

آج میری عمر پچانوے سال ہو چکی ہے اور میرے پوتے پوتیاں جوان ہو چکے ہیں،  اب ہمارے گاؤں میں بجلی بھی آ چکی ہے اور گھر گھر ٹیلی ویژن بھی ہیں، خبروں کے لیے شہر سے آنے والے مسافر کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، آج تقسیم کے وقت ہونے والے مظالم کے بارے میں سوچتا ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی، ایک دن میں ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ ایک صاحب کہنے لگے کہ پاکستان ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا،  اور میں شرم سے پانی پانی ہو گیا کہ میاں کون سی قربانیاں، اب قلم کو مزید حرکت دینے کی ہمت نہیں رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب یہی امید لگائے بیٹھا ہوں کہ موت آ جائے، مگر موت نہیں آتی، شاید موت بھی میرے گناہوں کا بوجھ اٹھانے سے گریزاں ہے، اعمال بھی ایسے نہیں کہ رب سے ملاقات کی خواہش کر سکوں، یہ سوچ کر دل دہل جاتا ہے کہ اگر خدا نے پوچھ لیا کہ تو نے اس مسلح گروہ کے ساتھ مل کر میرے بندوں (اگرچہ وہ سِکھ ہی تھے) پر  جو ظلم کیا اس کے بعد تجھے معافی کیوں کر ملے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”موت مجھ کو مگر نہیں آتی۔۔سعید چیمہ

  1. زبردست پوسٹ! سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت کے بارے میں اس پوسٹ کو شیئر کرنے کا شکریہ۔ اس حیرت انگیز پوسٹ نے مجھے اپنے کام میں بہت متاثر کیا اور مجھے اس پوسٹ سے کچھ مفید آئیڈیا بھی ملے۔
    ایک بار پھر آپ کا بہت شکریہ
    Urdu Mark

Leave a Reply