• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مقننہ کے دو رکھوالوں میں سے ایک چیئرمین سینیٹ کو اعظم معراج کا خط

مقننہ کے دو رکھوالوں میں سے ایک چیئرمین سینیٹ کو اعظم معراج کا خط

12اپریل2024کراچی
یوسف رضا گیلانی
چیئرمین سینیٹ
اسلام آباد پاکستان
محترم چیئرمین سینٹ صاحب
اسلام و علیکم میرا نام اعظم معراج ہے ۔۔میں دنیا بھر کی اقلیتوں کو” پیغام انضمام بذریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء” دیتی فکری تحریک ، تحریک شناخت کا رضاکار ہوں۔تحریک کا تعارف اور اغراض و مقاصد میں اس خط کے ساتھ علیحدہ بھیج رہا ہوں ۔

آپ کو ریاست کے سب سے اہم آئینی ستون مقننہ کے ایوان بالا کے رکھوالے کی ذمہ داری سنبھالنے پر مبارکباد ۔ میری تحقیق کے مطابق آپ شاید پہلے پاکستانی ہیں۔۔ جن کے پاس یہ اعزاز ہے، کہ آپ نے ریاست کے تین آئینی ستونوں میں سے اسکے چار میں تین اداروں کی سربراہی کی ہے ۔۔ بطورِ اسپیکر قومی اسمبلی مقننہ کے ایوان زیریں بطورِ وزیراعظم پاکستان انطامیہ کے سربراہ اور اب بطور چیئرمین سینیٹ مقننہ کے دوسرے ادارے سینٹ ایوان بالا کے رکھوالے کے طور پر یہ ذمہ داری آپ کہ حصّے آئی ہے ۔۔یقیناً یہ ایک اعزاز کی بات ہے ۔ میں اس خط کے ذریعے آپکی توجہ اس ملک کے ایک ایسے مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں جسے حل کرکے آپ ریاست کو مظبوط کرنے کے کام میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔۔یہ تقریباً  ایک کروڑ غیر مسلم شہریوں کا مسئلہ ہے۔

اس ملک کی مذہبی اقلیتوں پر قیام پاکستان سے لے آج تک 16انتحابات میں 5 بار 3 انتخابی نظام آزمائے گئے ۔ یہ پاکستان کی سیاسی ،ریاستی،حکومتی،اور دانشور اشرفیہ کی اور اقلیتوں کے ہر دور کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ، ہر نظام کے چند بینفشریز کو چھوڑ کر مذہبی اقلیتیں کبھی بھی ان سے مطمئن اور خوش نہیں ہوئیں  ۔ پہلی 2اسمبلیوں میں جداگانہ طریقہ انتخاب تھا ۔اس وقت الیکٹرول کالج محدود ہونے کے باوجود جوگندرا ناتھ منڈل کے استعفی میں اس نظام میں تبدیلی پر سوچ بچار کا پیغام اس وقت کی ریاستی و سیاسی اشرفیہ کو دیا گیا تھا۔ شائد اسی وجہ سےاگلی 3 اسمبلیوں کے انتخابات مخلوط طریقہ انتخاب سے ہوئے ۔جس میں مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بہت مشکل ہے ۔ یہ نظام 3 بار آزمایا گیا ۔ تینوں بار میں صرف ایک ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوسکا۔جس پر مسیحیوں نے احتجاج کیا ۔شہادتیں ہوئی طے ہو گیا،کہ اقلیتوں کو مذہبی شناخت پر نمائندگی دی جائے گی ۔ ثبوت اس کا یہ ہے ۔۔کہ اکیس نومبر 1975کو چوتھی آئینی ترمیم ہوئی۔جس میں موجودہ نظام متعارف کرایا گیا ۔1977کے الیکشن اسی نظام کے تحت ہونے ۔ مارشل لاء لگ گیا۔ مذہبی اقلیتوں نے احتجاج کیا  کہ ہمارے نمائندے سیاسی اشرفیہ کیوں چنے ۔؟؟۔ضیاء الحق نے جداگانہ طریقہ انتحاب دے دیا۔جس میں اقلیتوں کی لیڈر شپ ضرور ابھری ہر مذہبی اقلیت کو حصہ بقدر جثہ ملا ۔لیکِن اس نظام کا دوسرا پہلو بڑا غیر جمہوری، غیر انسانی تھا ۔اس میں اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ جسکے نتیجے میں ایک کروڑ دھرتی کے بچے سیاسی ناپاک شودر اور معاشرتی اچھوت بنا دیئے گئے ۔یہ نظام پہلی 2 اسمبلیوں اور 1985سے 1997تک 5 بار مجموعی طور پر 7 بار آزمایا گیا ۔۔ اقلیتیں خصوصاً مسیحی احتجاج کرتے رہے ۔ جس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے پھر وہ ہی چوتھی آئینی ترمیم والا نظام بحال کر دیا ۔ اس میں اقلیتوں کا قومی ووٹ بحال ہوا جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کا حق بحال ہوا۔ لیکن اقلیتوں کے 38نمانیدے چُننے کا اخیتار چند لوگوں کے پاس چلا گیا موجودہ قومی اسمبلی میں صرف 3 شخصیات کی مرضی و منشاء سے ایک کروڑ اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر 9 نمائندے تشریف فرما ہیں،دسویں کو کوئی ایک اور شخصیت چن لے گی۔ یہ انتہائی غیر جمہوری اور جمہوریت کی روح کے منافی طریقہ سلیکشن ہے۔ وہ ہی سلیکشن جس کا دھبہ  کسی قومی لیڈر پر لگ جائے تو وہ جمہوری کلنک بن جاتا ہے ۔

تحریک شناخت نے برصغیر کی اقلیتوں 1909سے حالیہ انتحابات تک کے اقلیتوں پر آزمائے گئے ان نظاموں کے بغور مطالعےاور انکی خوبیوں خامیوں کے جائزے سے دس سال کی مسلسل عرق ریزی وتحقیق سے اقلیتوں کی امنگوں ،پاکستان کے تاریخی معاشرتی ومذہبی پس منظر موجودہ معروضی حالات بنیادی جمہوری و انسانی حقوق کے مطابق اقلیتوں کے لئے ایک انتخابی نظام کا مکمل لالحہ عمل دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آئین کی روشنی میں حلقہ بندیوں کے ساتھ تیار کیا ہے،، جو انتہائی بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے۔۔۔ جس کا نچوڑ یہ ہے کہ ،

“اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتحابی نظام میں مذہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مذہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو۔۔۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے.. ” اقلیتوں کی موجودہ دوہری نمائندگی والے انتخابی نظام جس میں مذہبی شناخت والی نمائندگی بذریعہ سلیکشن کی جاتی ہے۔۔ کو دوہرے ووٹ سے مشروط کیا جائے ۔”

اس مطالبے کی بنیاد اس نقطے پر ہے، کہ جب ریاست و حکومت نے آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے زریعے یہ فیصلہ کرہی لیا تھا۔کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے ۔اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی مذہبی شناخت کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ضروری ہے۔ تو پھر تین یا چار سیاسی اشرفیہ کے لوگ ایک کروڑ لوگوں کی مذہبی شناخت پر نمائندے چننے کا حق کیسے لے سکتے ہیں ہر مذہبی گروہ کے اندر کی مذہب سے جڑی باریکیوں کو اس مذہبی گروہ کی اجتماعی دانش ہی سمجھ سکتی ہے ۔۔اس لئے مذہبی نمائندگی کا حق اسی کمیونٹی کو ہی اجتماعی طور پر ہونا چاہیے ۔ جس کی شناخت پر وہ نمائندہ چنا جائے ۔

یہ مکمل لالحہ عمل و تین نکاتی مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی اور انگریزی میں بھی چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں متاثرین و ذمہ دارین کو آگاہی تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضا کار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز،خطوط ودیگر ذرائع سے تقریباً دہائی سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہےہیں ۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے۔

کہ رائے عامہ ہموار ہونے کے باوجود اس مسئلے کو آپ یا آپ جیسے چند قائدین نے ہی حل کرنا ہے۔۔۔ 98 فیصد اقلیتی شہری موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام سے غیر مطمئن و بے چین ہیں۔ اس لئے جو سیاسی جماعت اس مسلئے کو حل کرنے میں پہل کرے گی وہ تقریباً کروڑ مذہبی اقلیتوں جن کے ووٹوں کی تعداد آنے والے انتخابات میں 50لاکھ ہوگی کی ہمدردیاں حاصل کرکے سندھ ،پنجاب کی 20 قومی اور 50صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر یقینی کامیابی بھی حاصل کرسکتی ہے ۔۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے،کہ آپکے اقلیتی رفقاء آپکو کبھی اس سیاسی فائدے کا نہیں بتائیں گے ۔۔ جو اس آئینی ترمیم کے لئے پہل کرنے والی جماعت کو ہوسکتاہے۔میں یہ مکمل کتابچہ آپکو بھیج رہا ہوں، جس کی مدد سے آسانی سے آئینی ترمیم تیار کی جاسکتی ہے ۔ میرے خیال میں اس ملک کے سیاسی راہنماہ اس بے ضرر آئینی ترمیم سے اقلیتوں کا یہ 78سالہ پرانا مسئلہ حل کرکے ،وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے 80 فیصد معاشرتی،سماجی و سیاسی مسائل کے حل کا خود کار نظام ترتیب دے سکتے ہیں۔۔ گو کے آئینی ترمیم کے پہل کسی سیاسی جماعت نے کرنی ہے۔

لیکن آپ ہمارے موجودہ پارلیمانی نظام کا حصّہ 1182 منتخب ، اور چنے ہوئے چند ،بلکہ صرفِ چار ، چیف جسٹس ، وزیراعظم ، چیر مین سینٹ ،اسپیکر قومی اسمبلی میں سے ایک خؤش نصیب ہیں۔ جن پر 24کروڑ کی ریاست کے ڈھانچے کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ۔ ۔ اس حیثیت کے ساتھ آپ ایک سیاسی جماعت کے ورکر بھی ہیں۔لہذا ملک وقوم ،اقلیتوں کے مفاد سے زیادہ اس مسلئے کے حل میں کردار ادا کرکے آپ اپنی سیاسی جماعت کے لئے بھی 20قومی اور 50صوبائی کی نشستوں پر یقینی کامیابی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں ۔۔۔کیونکہ یہ ایک کروڑ دھرتی واسی پاکستان بھر کے 859 حلقوں میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن ان 50لاکھ ووٹروں کی ایک بڑی اکثریت پنجاب اور سندھ میں آباد ہے جہاں یہ کے الذکر 20 قومی جمع 50 صوبائی حلقوں میں ہار جیت کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ ۔ جو سیاسی جماعت اس مسئلے کے حل میں سنجیدہ کوشش کرے گی وہ یہ فائدہ اٹھائے گی ۔۔ کیونکہ یہ بھی قوم کا حصہ ہیں،اور صرفِ مذہبی راہنماوں اور اپنے دیہاڑی دار زعماء کے کہنے پر ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ اپنے اجتماعی مفادات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ ۔۔

اس مسئلے کے حل سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلاً بچے ،عورتیں اور اقلیتں کتنی خوش اور مطمئن ہیں ۔

آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے ان محب وطن دھرتی واسی شہریوں کے بنیادی جمہوری ،انسانی، شہری حقوق کے خلاف ہیں۔لیکن یہ امن پسند محب وطن شہری پاکستان کے معروضی سماجی معاشرتی و مذہبی حالات اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے جانتے بوجھتے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں ۔ ایسی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے ایسی آئینی تفریق کا کچھ مداوا ہوسکتاہے ۔۔لہذا میں امید کرتا ہوں ،کہ اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے آپ ضرور اپنا حصّہ ڈالیں گے۔یقینا یہ کام ملک وقوم کے استحکام ونیک نامی کا باعث بنے گا۔ اور آپکے نام کے ساتھ یہ تاریخ بھی رقم ہو جائے گی کہ آپ نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے 78سالہ اس مسلئے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔۔پاکستان کے چوبیس کروڑ انسانوں میں سے بہت کم لوگوں کو ایسے منصب نصیب ہوتے ہیں  ، کہ وہ تاریخ رقم کر سکیں   اور یہ بھی حقیقت ہے کے بہت ہی کم لوگ ان موقعوں سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں ۔۔،امید ہے آپ اس موقع سے ضرور فائدہ اُٹھائیں گی ۔۔اس ضمن میں اعانت و معاونت کے لئے تحریک شناخت کے رضا کار ہر وقت دستیاب ہیں ۔

واسلام
رائے اور جواب کا منتظر
اعظم معراج
رضا کار تحریک شناخت
منسلک
1.کتابچہ” تحریک شناخت کے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے تین نکاتی مطالبے کا جائزہ.یہ کیوں ضروری ہے ۔؟ اور کیسے ممکن ہے ؟۔

2.تعارف تحریک شناخت

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply