عقل و مذہب مکالمہ(2،آخری حصّہ )۔۔عمار خان ناصر

تاہم، یہاں ہمارے لیے قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ مغربی معاشروں کے تناظر میں انسان کی اس حیوانی تفہیم کا موقف اور مذہبی اقدار کو انسانی زندگی کی تشکیل کے دائرے سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کوئی ایسا اضطراب، خلفشار یا انتشار پیدا نہیں کرتا جس سے ان کا تہذیبی سفر رک جائے۔ مغرب میں اجتماعی شعور اپنی تاریخ سے، اس میں فکری تبدیلیوں کے مختلف مدارج سے اور ان سے وجود میں آنے والے فکری امکانات اور پوزیشنز سے پوری طرح واقف ہے۔ اس کے مقابلے میں ، مسلمان معاشروں کا تعارف ، دور جدید کی تمام تہذیبی بحثوں کی طرح، عقل ومذہب کی اس بحث سے بھی ایک سوال کی صورت میں نہیں ہوا جس پر ہمیں اپنے تہذیبی سیاق میں غور وفکر کرنا ہے، بلکہ عقل کے ایک نوتشکیل شدہ تصور اور اس کی بنیاد پر مذہبی اعتقاد پر لگائے گئے ایک حکم کی صورت میں ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارے اجتماعی شعور کے سامنے یہ سوال بطور سوال نہیں آیا، بلکہ ایک طے شدہ جواب ساتھ لے کر اور اس مطالبے کے ساتھ آیا ہے کہ اس جواب کو اور اس کے تمام مفروضات کو یہ تسلیم کرتے ہوئے قبول کرو کہ تمھارے اپنے تہذیبی شعور میں اس سوال کا جو جواب موجود ہے، وہ اب علم وعقل کی نظر کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ یوں مسلمان معاشروں میں جب یہ موقف پیش کیا جاتا ہے تو ہماری فکری تاریخ میں وہ سیاق موجود نہ ہونے کی وجہ سے جس میں مذہبی عقیدے کی وجودی حیثیت اور انسانی معاشرے کے لیے مذہبی اقدار کی معنویت سے متعلق عقل جدید کی پوزیشن اپنے پورے پس منظر کے ساتھ معلوم ہو، اس کا نتیجہ ایک گہرے وجودی اضطراب اور اجتماعی شعور کی سطح پر شدید قسم کی مخاصمانہ تقسیم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سیاسی مفہوم میں سیکولرزم کی آئیڈیلائز یشن کے مرحلے میں یہ تقسیم کسی حد تک باہمی گفتگو کی گنجائش رہنے دیتی ہے، لیکن اس سے اگلا مرحلہ اعتقادی سیکولرزم کا ہوتا ہے جو فی نفسہ مذہب اور انسانی تاریخ میں اس کے کردار کی demonization سے کم تر کسی پوزیشن پر اکتفا نہیں کر سکتا۔
اس صورت حال میں انسانی سطح پر سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مشترک شناخت، تاریخ اور تہذیبی پس منظر رکھنے کے باوجود خط تقسیم کے دونوں جانب موجود فریق اشتراک، اجتماعیت اور باہمی ہمدردی کے جذبات اور مشترک انسانی سعی وجہد کے داعیات سے عاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔ روایتی تہذیبی شعور کے حاملین کے لیے نئی تہذیبی شناخت اختیار کرنے والوں پر ’’مرعوبیت “ اور ’’غداری “ کا نفسیاتی و اخلاقی حکم لگائے بغیر انھیں دیکھنا ممکن نہیں رہتا، اور عقل جدید کے متوسلین خود کو اس پر مجبور پاتے ہیں کہ جس تہذیبی شعور سے انھوں نے علیحدگی اختیار کی ہے، اس کو اور اس کے تمام تاریخی وتہذیبی مظاہر کو تحقیر اور استہزا کی نظر سے خود بھی دیکھیں اور دوسروں کو بھی دکھانے کی کوشش کریں تاکہ اپنے متعلق تہذیبی ’’غداری “ کے تاثر یا الزام کو counterbalance کر سکیں۔ نتیجہ یہ کہ تہذیبی سفر میں کسی بھی سمت میں مثبت پیش رفت ، فریقین کے نقطہ نظر سے، اس سے مشروط قرار پاتی ہے کہ میدان عمل، مخالف تہذیبی موقف اور اس کے حاملین سے بالکل پاک ہو جائے اور اس تطہیر کو باقاعدہ ایک سیاسی انداز کی مہم کا ہدف بنایا جائے۔ یہ زاویہ نظر ایک شکاری ذہنیت (predatory mindset) کو جنم دیتا ہے جس میں ہر فریق، مخالف کو dehumanize کرنے اور اس کے مواقع پیدا کرتے رہنے کو اپنی حکمت عملی کا بنیادی پتھر تصور کرتا ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عقل ومذہب کی بحث کو اس کے درست تاریخی اور تہذیبی سیاق میں موضوع بنانے کی ضرورت ہے تو ہماری مراد اس سے بنیادی طور پر یہی دو پہلو ہوتے ہیں۔ ہمیں ایک طرف گہرائی کے ساتھ مغربی معاشروں کی تاریخ فکر کو اور ان تاریخی اسباب کو جاننے کی ضرورت ہے جس میں انسان، عقل اور وجود کے نئے تصورات تشکیل دیے گئے اور انھیں انسانی شعور کے لیے واحد ممکن انتخاب بنانے کا تمام تر فکری لوازمہ مہیا کیا گیا۔ دوسری طرف اس تاریخی جبر کا حقیقت پسندانہ اور ہمدردانہ ادراک، ہماری اجتماعی ضرورت ہے جس نے ہمارے معاشروں میں شعور اور تہذیبی شناخت کی سطح پر ایک گہری تقسیم پیدا کر دی ہے اور جس کو resolve کرنے کی کوئی تعمیری صورت نکالنا ہر دو جانب کے اہل دانش کی مشترکہ تہذیبی ذمہ داری بنتی ہے۔
اب تک کی معروضات میں یہ بنیادی نکتہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عقل اور مذہب پر گفتگو کے سلسلے کو تاریخی سیاق میں اور تہذیبی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر اور مختلف مسائل کے حوالے سے تاثرات اور ججمنٹس کے اظہار کا سلسلہ پہلے سے موجود ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا، لیکن دو تہذیبی مواقف کے مابین مکالمے کی نوعیت، شرائط اور تقاضے کافی مختلف ہوتے ہیں اور دراصل اسی سطح پر ہمارے معاشرتی تناظر میں اس بحث کی علمی تفہیم کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں اہل دانش کا کردار اور ذمہ داری بہت بنیادی ہے۔
اس ضمن میں گفتگو کا بنیادی محور، ہماری طالب علمانہ رائے میں، درج ذیل تین سوالات کو ہونا چاہیے:
۱۔ انکارخدا کے موقف کا عقلی امکان اور جزوی سطح پر اس کا وقوع انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کی فکری روایت کے لیے دہریت اور عقلی بنیادوں پر انکار نبوت وغیرہ کے مواقف نامانوس نہیں ہیں اور ان موضوعات پر تفصیلی بحثیں اسلامی روایت میں موجود ہیں۔ جدید دور کی غالب تہذیب نے انسانی فکر واحساس کے لیے اس کی قبولیت کے ذرائع ووسائل پیدا کرنے میں غیر معمولی محنت کی ہے اور یوں اس کو اسی طرح ایک تہذیبی طاقت حاصل ہو گئی ہے جیسے اس سے پہلے مختلف مشرکانہ مذاہب کو اور توحید پر مبنی ابراہیمی روایت کو حاصل رہی ہے۔ اس پہلو سے دنیا کے دیگر معاشروں میں بھی الحاد کی مختلف سطحوں اور صورتوں کے لیے فکر واحساس میں قبولیت کا پیدا ہونا نہ تو کوئی اچنبھے کی بات ہے اور نہ تاریخی عمل کے لحاظ سے کوئی بہت خلاف معمول یا غیر متوقع معاملہ ہے۔ تاہم بحث طلب سوال یہ ہے کہ دنیا کی موجودہ غالب تہذیب نے اپنے خاص تاریخی سیاق میں جس تصور وجود کو اپنے لیے اختیار کیا ہے اور اب اسے تاریخی تحدیدات سے ماورا قرار دیتے ہوئے ایک آفاقی سچائی رکھنے والے تصور وجود کا درجہ دینے کا فطری داعیہ رکھتی ہے، کیا اس سے مختلف تصور وجود رکھنے والی تہذیبوں اور بالخصوص مسلم معاشروں سے اس بات کی توقع یا مطالبہ کسی بھی اصول کے لحاظ سے روا ہے کہ وہ اس موقف کو من وعن قبول کر لیں اور اپنی تاریخ اور اپنی تہذیبی روایت سے متعلق اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں کہ وہ ایک نابالغ ، ناپختہ اور مبتدی انسانی شعور کے مظاہر ہیں؟
۲۔ عقل اور مذہب کے باہمی تعلق کے حوالے سے مغربی روایت اپنے تاریخی تجربے کی روشنی میں جس موقف تک پہنچی ہے، وہ تاریخی تجربہ غیر مغربی معاشروں کا نہیں ہے۔ تاہم ایک خاص تہذیب کا تاریخی تجربہ ہونے کے باوجود جدید مغربی فکر میں ایک یونیورسل اپیل بھی پائی جاتی ہے۔ یہاں غور وفکر اور بحث کا طلب گار نکتہ یہ ہے کہ اگر تہذیبی سطح پر یہ پوزیشن ہمارے لیے قابل قبول نہیں تو کیا ہمیں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت نہیں کہ غالب تہذیب کے موقف کی تاریخی تشکیل کیسے ہوئی ہے اور وہ اپنے اندر ایک یونیورسل اپیل پیدا کرنے میں کیونکر کامیاب ہے؟ کیا ان سوالات کا ایک گہرا تہذیبی فہم ہمارے لیے کوئی معنویت رکھتا ہے یا نہیں کہ عالم غیب سے بے اعتنائی اور پھر اس کی نفی کا موقف اختیار کرنے والی عقل نے کائنات، حیات وشعور اور انسان کی تفہیم کی کیا متبادل فکری اساسات مہیا کی ہیں؟ عالم غیب کے اثبات پر مبنی تفہیم کائنات کو قبول کرنے میں جدید عقل کے کیا تحفظات ہیں اور مذہبی تفہیم پر اس کی مختلف الجہات تنقید کیا ہے؟ عقل جدید نے انسانی معاشرت کی تشکیل کے لیے درکار اہم اخلاقی وفلسفیانہ تصورات کو، جن کی تشکیل انسانی تاریخ میں مذہبی اعتقاد اور عقلی تصور سازی کے اشتراک سے ہوئی تھی، کیسے غیر مذہبی اساسات پر استوار کر کے اپنے لیے کارآمد بنا لیا ہے؟ جدید سائنس، حیات وکائنات اور انسان کی اس نئی تفہیم کو کیسے اور کن پہلووں سے براہ راست یا بالواسطہ تقویت فراہم کرتی ہے؟ اور کائنات کی تفہیم کے غیر مذہبی سانچے میں رہتے ہوئے جدید عقل انسانی معاشروں کی تنظیم اور اجتماعی سرگرمی کے نظام قائم کرنے میں کیسے بالفعل کامیاب ہے؟
بحالت موجودہ یہ سب سوالات مذہبی فکر کے سنجیدہ غور وفکر کا موضوع نہیں ہیں اور وہ عقل جدید کی فکری، عملی اور تاریخی طاقت کا کماحقہ اندازہ کیے یا جائزہ لیے بغیر جزوی حوالوں سے اس کے نقائص، کمزوریوں یا داخلی تضادات کا حوالہ دینے پر عموما اکتفا کیے ہوئے ہے۔ بالفاظ دیگر، ہمارے ہاں ابھی تک جدید تصور وجود اور اس سے متفرع ہونے والے تصور عقل کو ، جس کی قوت اور نتیجہ خیزی تاریخ میں مشہود ومحسوس ہے، فکری سطح پر اہم سمجھنے اور اس کی قوت وتاثیر کے منابع کا علمی وعقلی فہم حاصل کرنے کی ضرورت کا احساس پیدا نہیں ہو سکا اور ہم ا س کے غیر فطری ہونے کی ججمنٹ کے ساتھ اس اطمینان کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں کہ یہ تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کر لے گی، کیونکہ جو آشیانہ شاخ نازک پر بنایا جاتا ہے، وہ ناپائدار ہوتا ہے۔
۳۔ قرون وسطی کے یورپی معاشروں کو چھوڑ کر، جہاں مسیحی تہذیب نے کلی مذہبی یک رنگی کی صورت پیدا کر دی تھی، تمام تاریخی معاشروں اور تہذیبوں میں مذہبی یا غیر مذہبی مواقف کا تنوع اور مختلف اعتقادی مواقف رکھنے والے افراد اور گروہوں کا وجود قبول کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ توسع اپنی تہذیبی شناخت سے دستبردار ہو کر یا اس کی قیمت پر اختیار نہیں کیا جاتا۔ ہر تہذیب اپنی نظریاتی اور سیاسی حاکمیت کو قائم رکھتے ہوئے ہی یہ توسع پیدا کرتی ہے اور اسی شرط پر اس توسع کو برقرار بھی رکھ سکتی ہے۔ اگر توسع، اس کی شناخت اور حاکمیت کے لیے خطرہ بن رہا ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کا جواز باقی نہیں رہتا، بلکہ عملا بھی اسے برقرار رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ بنیادی بات سمجھنے کے لیے موجودہ غالب تہذیب کو ہی دیکھ لینا کافی ہے۔ عقل اور مذہب کی تقسیم اور مذہب کی ایک خاص دائرے میں تحدید اس تہذیب کی بنیادی شناخت ہے اور اس کی ساری رواداری، توسع، غیر جانب داری اور اپنے شہریوں کے ساتھ مساوی برتاو وغیرہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ تہذیبی شناخت کو چیلنج نہیں کیا جائے گا، یعنی اس کو تبدیل کرنے کے لیے سماجی یا سیاسی طاقت کو منظم نہیں کیا جائے گا۔ مسلمانوں کے ،مغربی معاشروں میں دن بدن نمایاں ہوتے ہوئے وجود کو اسی پہلو سے ایک مسئلے کے طو رپر دیکھا جاتا ہے کہ وہ ان معاشروں کی غالب مذہبی شناخت اور سیکولر تہذیبی شناخت، دونوں کے لیے امکانی مشکلات پیدا کرتے ہوئے دکھاتی دے رہے ہیں۔
ہمارے تناظر میں اس حوالے سے قابل بحث سوال یہ بنتا ہے کہ کیا مسلمان معاشرے اپنی تہذیبی شناخت کو قائم رکھنے اور اپنی سیاسی حاکمیت کو تہذیبی شناخت کے ساتھ وابستہ کرنے کا حق نہیں رکھتے؟ اگر نہیں رکھتے تو کیوں؟ اور اگر رکھتے ہیں تو یہاں سیکولرزم کی بحث کا کیا مطلب ہے؟ کیا ہمارے ہاں یہ بحث محض ایک نظری تحلیل وتجزیہ کا عنوان ہے یا اس کی نوعیت موجودہ تہذیبی شناخت پر حکم لگانے اور اس شناخت کو عملا ختم یا کمزور کرنے کی ایک باقاعدہ سیاسی جدوجہد ہے؟ اگر یہ بحث دوسری نوعیت کی ہے تو اس میں اور یورپ میں خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد منظم کرنے میں کیا بنیادی فرق ہے؟
ہمارے نزدیک یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کو تہذیبی تناظر اور تاریخی سیاق میں موضوع بنانا ازبس ضروری ہے اور مسلم معاشروں کی تعمیر واستحکام کی خواہش رکھنے والے تمام اہل دانش کو، چاہے ان کے فکری وتہذیبی رجحانات کچھ بھی ہوں، ان سوالات پر ایک مسلسل اور سنجیدہ علمی مکالمے کا حصہ بننا چاہیے۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply