• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پانی کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر /پانی ہی زندگی ہے۔۔راجہ عرفان صادق

پانی کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر /پانی ہی زندگی ہے۔۔راجہ عرفان صادق

پانی زندگی ہے۔ پانی اور انسانی زندگی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تاریخ پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی آبادکاری ہمیشہ اسی جگہ پر ممکن ہوئی ہے جہاں پر پانی کے وسیع ذخائر موجود ہوئے ہیں۔ پانی کی صفائی کا خیال قدیم شہری تہذیبوں کے شعور کا ہمیشہ سے ہی حصّہ رہا ہے۔ اگر چار ہزار سال قبل مسیح کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو اس میں بھی پانی کی صفائی کے طریقوں کا پتہ چلتا ہے۔

یونانی اور سنسکرت کی قدیم تحریروں میں پانی کو نتھارنے کے تذکرے موجود ہیں۔ تقریباً  پندرہ سو قبل مسیح میں قدیم مصری قوم Alumنامی ایک کیمیکل سے پانی کو صاف کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ 1800ء میں یورپ میں پانی کو صاف کرنے کے لیے اسے ریت سے گزارنے کا عمل کیا جاتا تھا۔ 1880ء میں جب لوئی پاسچر نامی سائنسدان نے اپنے تجربات سے یہ ثابت کیا کہ پانی میں ایسے جراثیم موجود ہوتے ہیں جو بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں تو اس وقت پانی کو صاف کرکے پینے کی اہمیت میں اور اضافہ ہوگیا۔

پانی کو کلورین کے ذریعے صاف کرنے کا سب سے پہلا عمل بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہوا۔ امریکہ کی پبلک ہیلتھ سروس نے 1914ء میں صاف پانی کے کچھ Standardsکو تحریری شکل دی۔ آج دنیا میں ادارے، تنظیمیں اور حکومتیں   صا ف پانی کی فراہمی پر بہت زیادہ کام کررہی ہیں ،کیونکہ یہ بات اب سب پر  واضح  ہو چکی ہے کہ وبائی امراض کے پھیلنے کاسب سے بڑا سبب نامناسب پینے کا پانی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر سال 22مارچ کو دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام  متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2005ء سے 2015ء تک کے دس سالوں کو بین الاقوامی دہائی برائے Water for Lifeکے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا اور اس حوالے سے دنیا بھر میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے بیش بہا اقدام بھی اٹھائے گئے۔ پانی میں ڈیڑھ سو کے قریب ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس وقت چالیس کے قریب ایسی بیماریاں ہیں جو نامناسب پانی کے پینے کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ صاف پانی وہ پانی ہوتا ہے جس میں بیماریوں کا باعث بننے والے اجزاء موجود نہ ہوں اور اس میں ضروری نمکیات موجود ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بیماریوں اور مختلف وائرسوں کے پھیلاؤ بننے والے اجزاء سے بھی پاک ہونا چاہیے۔

پاکستان میں پانی کے حوالے سے تذکرہ کیا جائے تو اس میں ایک طرف تو پانی کی دستیابی کا مسئلہ اور دوسری طرف جہاں پانی دستیاب ہے وہاں پر اس میں آلودگی کی وجہ سے صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں آلودہ پانی کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کو بھی کثیر تعداد میں دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں پانی کی آلودگی کی بڑی وجوہات میں آرسینک آلودگی، مائیکرو بائیولوجیکل، نائٹریٹ اور فلورائیڈ آلودگی ہے۔

فلورئیڈ اور آرسینک کی وجہ سے انسان کے جسمانی اعضا میں ٹیڑھا پن آنا  شروع ہوجاتا ہے۔ ماضی میں پنجا ب کے مختلف مقامات میں اس بیماری کے بیش بہا کیسز سامنے آچکے ہیں۔ صنعتی فضلہ بھی پانی کی آلودگی کی ایک بڑ ی وجہ ہے۔ پاکستان میں صنعتی علاقوں میں صنعتی فضلہ کو بغیر ٹریٹمنٹ اور مناسب حفاظتی اقدام کے چھوڑ دیا جاتا ہے جس کے مقامی آبادی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں غیر معیاری سینی ٹیشن سسٹم بھی پانی کی آلودگی کی بڑی وجوہات میں شامل  ہے۔ ہزاروں ٹن انسانی فضلہ اور کچرا روزانہ پانی میں شامل ہوجاتا ہے۔  زرعی ادویات کا پانی میں شامل ہوجانا بھی پانی کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔

آلودہ پانی کے استعمال سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ مائکرو بائیولوجیکل آلودگی سے ہیضہ، ڈائریا، خونی پیچش، پیپاٹائٹس، آرسینک سے جلد مثانہ، گردہ، جگر، ناک، پھیپھڑوں کا سرطان،امراض قلب، بلڈ پریشر وغیرہ جنم لے سکتے ہیں َ نائٹریٹ کی آلودگی کی وجہ سے بچوں میں خون کی کمی، بلڈ کینسر، گلہڑاور شوگر جیسے امراض جنم لے سکتے ہیں۔ آلودہ پانی سے جنم لینے والی commonبیماریاں اور ان کے نقصانات درج ذیل ہیں۔

ڈائریا: یونیسف کی تحقیقات کے مطابق پاکستان میں روزانہ ڈائریا سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ ڈائریا کا بیکٹریا پانی کے ذریعے پھیلتا ہے۔ آلودہ پانی کے استعمال سے یہ بیکٹریا معدے کے اندر چلا جاتا ہے جس سے ڈائیریا شروع ہوجاتا ہے۔ ڈائریا کی مقدار میں اضافہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

ٹائیفائیڈ: ٹائیفائیڈ کی بھی بڑی وجہ آلودہ پانی ہی ہے۔ اس سے مریض تیز بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ٹائیفائیڈ سے مریض کی چھوٹی آنت میں السر پیدا ہوجاتا ہے جوآہستہ آہستہ آنت میں سوراخ پیدا کردیتا ہے جس سے مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ٹائیفائڈ کا وائرس کافی عرصہ تک جسم کے اندر موجودہ رہ سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ہیپاٹائٹس: اس کا وائرس انسان کے جگر پر اثر انداز ہوکر اس کو کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ ہیپاٹائٹس کی بڑی وجہ سینیٹیشن کا ناقص انتظام ہوتا ہے۔ پیپاٹائٹس کے نقصان دہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے حوالے سے بہت زیادہ کام ہورہا ہے اور اس کے بچاؤ کے لے سالانہ اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔

ہیضہ: ہیضے کی بڑی وجہ بھی آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ ہیضہ کے باعث مریض میں دستوں کی بیماریاں جنم لے لیتی ہیں جس سے جسم میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس اس کا اگر مناسب وقت پر تدارک نہ کیا جائے تو یہ مریض کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

معاشرہ پر اثرات:
معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اور معاشرے  کا اچھا یا برا ہونابراہ راست انسان کے مرہون منت ہے۔ صحت مند معاشرے  کے لیے ضروری ہے کہ اس معاشرے  میں رہنے والے لوگ بھی صحت مند ہوں۔ جب عوام صحت مند نہیں ہوں گے  تو اس معاشرے  پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے۔ پانی کی آلودگی یا پھر کسی اور بیماری کی وجہ سے جب عوام بیمار ہوں گے  تو اسکے معاشرے  پر درج ذیل اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔

معاشی مسائل:
جب کسی معاشرے  کے شہری مختلف وبائی یا دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو انہیں ہزاروں روپے اپنے علاج معالجہ پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جس سے ان کے      خرچ  اورآمدن میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ جس سے غربت کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے اور خدانخواستہ اگر سربراہ ِ خاندان ہی بیمار ہوجائے تو یہ غربت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ نوبت فاقوں تک آجاتی ہے۔ غربت کی وجہ سے کئی دیگر معاشرتی برائیاں بھی جنم لے لیتی ہیں۔

معاشرتی مسائل:
مسلسل بیماری اور اس کے علاج معالجہ کے باعث جب انسان کی غربت کی شرح میں اضافہ ہوجاتاہے تو وہ اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کے لیے بہت سے غلط راستے اختیار کرلیتا ہے۔ جس سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔

عدم برداشت کا رویہ:
معاشی اور معاشرتی مسائل کے جنم لینے سے لوگوں کے رویوں میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ لوگ عدم برداشت اور چڑچڑے پن جیسے مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں جس سے معاشرہ کا امن و سکون برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔

باہمی روابط اور میل جو ل میں کمی:
بیماری اور غربت کے باعث لوگ ایک دوسرے سے ملنے اور شادی و غمی جیسے مواقع پر بھی ایک دوسرے سے ملنے سے اجتناب کرتے ہیں اپنے گھروں کے اندر ہی محصور ہوکررہ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے مسائل سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں۔

سماجی رابطوں میں کمی:
شادی غمی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سماجی میل ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے جس کے معاشرہ پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سوشل سرگرمیوں میں تعطل سے معاشرہ کی اجتماعی ترقی کا عمل رک جاتاہے۔

ملکی ترقی پر اثرات:
بیمار معاشرہ کے نہ صرف مقامی سطح پرسماجی مسائل کو جنم دیتی ہیں وہیں پر ملکی ترقی پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک طرف جہاں لوگ ملکی ترقی میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں وہیں پر ملک پر مسلط حکمران طبقہ کو اپنے من مانی کرنے کے لیے کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کو لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات غیر ملکی قرضے بھی لینے پڑتے ہیں اور ملک دن بدن قرضوں کے بوجھ تلے دبتا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی حالت بھی سنگین صورتحال اختیار کرلیتی ہے اور ملکی معیشت کا پہیہ جام ہو کررہ جاتا ہے۔

تعلیم پر اثرات:
غربت و افلاس کی وجہ سے لوگوں کی زیادہ توجہ صحت کو ٹھیک کرنے  کی طرف لگ جاتی ہے اور تعلیم سے ان کی توجہ بالکل ہٹ جاتی ہے۔ جس سے شرح خواندگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے بھی بہت سی معاشرتی ناہمواریاں جنم لیتی۔ حکومتیں بھی اپنی توجہ تعلیم سے ہٹا کر لوگوں کی صحت کی طرف مبذول کرلیتی ہے اور تعلیمی بجٹ کو کم کر مجبورا صحت کے بجٹ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میڈیا کا کردار:
صاف پانی کے استعمال کا شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے جہاں پر مختلف اداروں نے چشم پوشی کا مظاہرہ کیا ہے وہیں پر ہمارا میڈیا بھی اس حوالے سے اپنا خاطر خواہ کردار ادا نہیں کررہا ہے۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اس وقت بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کے چکروں میں پڑا ہوا ہے۔ معاشی و معاشرتی برائیوں اور ان برائیوں کو جنم دینے والی وجوہات کو میڈیا پر بالکل پر بھی اجاگر نہیں کیا جاتا۔ 22مارچ کو صاف پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن ہمارے میڈیا پر اس حوالے سے چند ایک پیغامات کے علاوہ کچھ نہیں دکھایا جاتا۔ حکومت کو چاہیے کہ سیمینارز اور پروگرامز کاانعقاد کرے،اور  کم از کم سرکاری میڈیا پر ضرور نشر کرے تاکہ دور دراز   بسنے والے لوگ بھی اس کی اہمیت سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ وقتا فوقتا پمفلٹس، بینرز اور پوسٹرز کو عوام میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ پبلک مقامات، اڈوں، ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنز پر صاف پانی کی اہمیت کے حوالے سے پیغامات لکھے ہوئے ہونے چاہئیں ۔ صاف پانی کے استعمال کے حوالے سے وقتا ًفوقتاً  واک اور ریلیز کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے کیونکہ پانی ہی زندگی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply