اللہ تعالی کن فیکون پر قادر ہے۔ اس “کن” پر کوئی حد بندی نہیں۔ وہ لامتناہی قابلیت کا مالک ہے۔ پھر کہیں کا روڑہ کہیں اٹکانے، کوئی سی دو متضاد باتوں کا جوڑ بنانے اور ناقابل دفاع حقائق کا پورے دل و جان سے دفاع کرنے کی صلاحیت عطا فرمانا، قادر مطلق کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ خاکوانی صاحب کو میں منفی شخص تو نہیں کہہ سکتا لیکن کسی بھی بڑے صحافی یا لکھاری کو جائز اختلاف اور تنقید سے بالاتر سمجھنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں۔ تعظیم و عزت کے باوجود خاکوانی صاحب کی کل شائع کی گئی ایک تحریر پر اختلاف پیش خدمت ہے۔
خاکوانی صاحب تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں، کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ یہ بات قابل فہم ہے۔ جس بات پر تعجب ہے وہ یہ کہ فی الوقت خاکوانی صاحب “حسین علیہ السلام کو یزید رضی اللہ تعالی عنہ نے شہید کیا” والا کام کر رہے ہیں۔ خان صاحب اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ اس حیثیت میں وہ ریاست میں حکومت کا حق رکھتے ہیں اور اسی حیثیت میں ریاست پاکستان کی عوام کے جان و مال کی حفاظت ان پر فرض ہے۔ کسی بھی حالت میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو جواب دینے والوں کے لیے خان صاحب ڈی فیکٹو فریق بن جاتے ہیں۔
خاکوانی صاحب نے کل ایک تحریر میں تحریک انصاف کے حامیوں کو چارد عدد تضاد سے بھرپور مشوروں سے نوازا۔ پہلے یہ چار مشورے قارئین کی آسانی کے لیے پیش خدمت ہیں تاکہ آگے چل کر اختلاف آسانی سے سمجھا جاسکے۔
۱۔ آسیہ بی بی کو ملک چھوڑنے سے روکا جائے۔
۲۔ حکومت اس معاملے میں فریق بننے سے گریز کرے۔
۳۔ حکومت اس مقدمے کے فیصلے پر فوری طور پر عدالت عظمی میں نظر ثانی کی استدعا داخل کرے۔
۴۔ عمران خان حکومت کے طور پر اس معاملے میں جارحیت فرمانے دے باز رہیں۔
پہلے سوال کے جواب سے شروع کرتے ہیں۔
خاکوانی صاحب سمیت کئی مجاہد درجے کے انصافی احباب پچھلے پانچ برس عدالت عظمی میں برپا خاصے جارحانہ قسم کے انصاف پر خوش دکھائی دیتے تھے۔ یہ حضرات ہمیں ہر مرحلے یہ بھاشن دیتے نظر آئے کہ پانامہ پیپر ہوں یا کوئی اور معاملہ، عدلیہ ان سب معاملات میں آزاد تھی۔ پھر جب آزاد عدلیہ نے آزاد فیصلہ کر ہی لیا تو یہ کیا فرمائش ہوئی کہ آسیہ کو ملک سے باہر جانے سے روکا جائے؟ پچھلے پانچ سال سے ہم انصاف انصاف کی جو رٹ سن رہے تھے، یہ بھلا کس قسم کا انصاف ہے کہ جس شخص پر سے مقدمہ خارج کر دیا گیا اب اسے ملک کے اندر رہنے پر مجبور کرو؟ جب عدلیہ کو آپ پانچ سال آزاد مانتے رہے تو یہ سیکولر قوتیں اب کہاں سے آگئیں عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے؟ آپ سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہیں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ آسیہ بی بی کے بے گناہ ثابت ہونے پر عام آدمی خوش ہے؟ کیا یہ خوشی کی بات نہیں کہ توہین رسالت سرے سے ہوئی ہی نہیں؟
اگلا مشورہ آپ یہ دیتے ہیں کہ حکومت اس معاملے میں فریق بننے سے گریز کرے۔ جناب والا، جیسا کہ پہلے عرض کیا، حکومت عوام الناس کے جان و مال کی حفاظت پر ضامن ہے۔ حکومت اداروں اور اداروں کے افراد کی محافظ بھی ہے۔ قضیہ شروع ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ فیصلہ صادر کرنے والے جج واجب القتل ہیں، جیسے سلمان تاثیر کو پتہ نہ چلا اس کا قاتل اس کے محافظ کے روپ میں ساتھ رہا ویسے ہی ان ججز کو پتہ نہیں چلنا کہ کون ان کی جان لینے والا ہے، جرنیل بغاوت کر دیں، باجوہ کو ہٹا دیں، عمران خان کی حکومت ختم کریں۔ مزید ستم یہ کہ چہرے پر سنت رسول سجائے باریش شیطانی افراد ہاتھ میں تلوار ڈنڈے تھامے اپنا جنگلی پن عام لوگوں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں رکشوں پر نکال رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں حکومت فریق نہ بنے؟ خاکوانی صاحب، کچھ خدا کا خوف خدارا!
اپنے تیسرے مشورے میں خاکوانی صاحب اپنے ہی پچھلے مطالبے کا رد فرماتے ہوئے ضد کرتے ہیں کہ حکومت اس فیصلے کے بعد نظر ثانی کی استدعا دائر کرے۔ ایک بار پھر پچھلا مشورہ اس مشورے کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں۔ خاکوانی صاحب کہتے ہیں کہ میرا مشورہ ہے حکومت اس معاملے میں فریق تو نہ بنے ہاں البتہ فریق بن کر آسیہ مسیح کے حق میں آئے فیصلے کے خلاف ریویو پیٹیشن ضرور دائر کرے۔ حضور، نظر ثانی کی درخواست دائر کر کے تو حکومت سیدھی سیدھی فریق نہیں بن جائے گی؟ اور آخر حکومت یہ کام کیوں کرے جب قانونی طور پر عدالت عظمی میں جھوٹے ثابت ہونے والے اور آٹھ سال ایک بے قصور کو پابند سلاسل رکھنے والے ابھی زندہ و تابندہ ہیں؟ نظر ثانی کی استدعا دائر کرنا مقدمہ ہارنے والے پر بنتا ہے ناکہ حکومت پر۔
آخری مشورہ دیتے ہوئے خاکوانی صاحب عمران خان کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنے خطاب میں خان صاحب کو جارحانہ لب و لہجہ نہیں استعمال کرنا چاہئے تھا۔ مزید فرماتے ہیں کہ اس فیصلے سے جن لوگوں کا دل دکھا وہ تعداد میں خوب ہیں لہذا انہیں نظرانداز نہ کیا جائے۔ حضور والا، دراصل محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ حقائق سے نظریں چرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ ان علماء سوء کی زبان پر غور تو کریں۔ اگلے عوامی سطح پر شہہ کیا دے رہے ہیں؟ ہم پاکستان بند کروا دیں گے۔ ان ججوں کو سزا دو۔ وزیراعظم حکومت چھوڑ دے۔ ٹھیک ہے مکافات عمل اپنی جگہ لیکن حکومت ہو یا ججز، غیر آئینی طریقے سے پریشر میں لانا کم سے کم ہمیں منظور نہیں۔ عدالتی فیصلے پر ملک کے اعلی ترین ججز کو موت کی دھمکیاں سرعام دی جارہی ہیں اور آپ فرماتے ہیں وزیراعظم رحمت شیریں سے رس گلے خرید کر ان کے غرارے کرنے کے بعد ان شیطانی عناصر کی غنڈہ گردی پر بات کریں؟ حکومت کی رٹ ماڈل ٹاؤن میں چیلینج ہو یا کہیں اور، اس کے نتائج سنگین ہی نکلتے ہیں۔ یہ بات آپ کو تب سیاسی مخالفت میں سمجھ نہ آئی، اب ضرور آجائے گی۔
جناب خاکوانی صاحب، عرض ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کریں یا دو درجن میں، اس سے یہ حقیقت کیسے بدل سکتی ہے کہ ایک کے ہاتھ میں لاؤڈ سپیکر ہے جو مجمع کی نفسیات کا منفی استعمال کر رہا ہے اور باقی اس کے اثر میں ریاست اور ریاستی عوام پر حملہ آور ہیں؟ فیصلے سے اختلاف رکھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن وزیراعظم کا خطاب اور مخالفت صرف ان لوگوں کے لیے تھا جو سڑکوں پر تماشہ بنائے رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بصورت دیگر آپ خود ہی سوچئے کہ مذاکرات بھی کبھی محض عدالت عظمی کے فیصلے پر اختلاف کی بنیاد پر ہوئے ہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں