• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سراؤں سے ہم جنس پرستی کے سوالات کیوں کیے جاتے ہیں؟-ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراؤں سے ہم جنس پرستی کے سوالات کیوں کیے جاتے ہیں؟-ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراء کمیونٹی ہمارے معاشرے کا سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ ہے۔ جنس کا  صحیح تعین نہ ہونے کی وجہ سے ساری زندگی خود کو عورت ظاہر کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی خواتین انہیں عورت اور مرد آدمی کا درجہ نہیں دیتے۔ خاندان معاشرتی دباؤ کی وجہ سے قبول نہیں کرتا تو معاشرہ انسان ہی نہیں سمجھتا۔

آپ کامیاب ترین خواجہ سراؤں کو غور سے دیکھیں گے تو انکے چہرے پر عجیب سی  مایوسی کے آثار نمایاں نظر آئیں گے۔کامیاب خواجہ سراؤں میں سے زیادہ تر نے کسی نہ کسی قسم کے نشے کی لت لگا رکھی ہے۔ کچھ نفسیاتی امراض کے کلینک کے چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ احساس محرومی کا مارا انسان سکون حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے لیکن پھر بھی سکون نصیب نہیں ہوتا۔
خواجہ سراء کمیونٹی کو کچھ عرصہ قبل میڈیا نے جگہ دینی شروع کی۔ لیکن پھر ایک دینی جماعت نے انکے حقوق کے بل کو ہم جنس پرستی سے جوڑ دیا۔

میں نے چار سال قبل بہاولپور کی صاحبہ جہاں کے انٹرویو سے خواجہ سراء کمیونٹی کے لیئے لکھنا شروع کیا۔ اس انٹرویو میں، میں نے صاحبہ کی زندگی کے نشیب و فراز سے لے کر اسکے سوشل ورک اور مستقبل کی منصوبہ بندی تک کے سوالات کیے۔ ناتجربہ کاری اور کم تر معلومات کے باوجود میرے تمام سوالات کمیونٹی کے مسائل کے گرد ہی گھومتے رہے۔

شہزادی رائے ملک کی مشہور ترین خواجہ سراؤں میں سے ایک ہے۔ چند روز قبل شہزادی نے اپنے نئے انٹرویو کا کلپ شیئر کیا۔ ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کا یہ انٹرویو میں نے پورا دیکھا۔ میں انٹرویو لینے والے صحافی کے سوالات اور شہزادی کے جوابات دونوں کی جانکاری چاہتا تھا۔

پاکالوجی کے نام سے یہ چینل عثمان نامی صحافی چلا رہا ہے۔ انٹرویو کے آغاز میں شہزادی سے زندگی کے سفر سے متعلق سوالات کیئے گئے۔ جسکا جواب شہزادی نے بہادری سے دیا۔ شہزادی نے کہا کہ اگر وہ گھر نہ چھوڑتی تو اسکا بھائی اسے قتل کر دیتا۔ اگلے سوالات میں ہم جنس پرستی پر شہزادی کی رائے لینے کی کوشش کی گئی۔ پھر عورت مارچ اور خواتین کے حقوق پر بات ہوتی رہی۔ انٹرویو کے اختتام پر پوچھا گیا کہ خواجہ سراء کمیونٹی کے لیے کیا ہونا چاہیے۔
میں خواجہ سراؤں سے لیے گئے انٹرویوز بہت شوق سے دیکھتا ہوں۔ ہر انٹرویو کی طرح اس انٹرویو نے بھی بہت مایوس کیا۔
سوال یہ ہے کہ خواجہ سراء ہم جنس پرستوں کے گروپ ایل-جی-بی-ٹی کا حصہ کیسے بنے؟ اس گروپ کا حصہ بننے سے خواجہ سراؤں کے مسائل حل ہوئے یا ان میں اضافہ ہوا؟ کیا خواجہ سراؤں کو اس گروپ کا حصہ رہنا چاہیئے؟

ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ ایک طرف ویتام جنگ چل رہی تھی تو دوسری طرف مختلف کمیونیٹیز کی طرف سے قوانین کی تبدیلیوں کیلئے مظاہرے چل رہے تھے۔ ایک گروپ “پوسٹ فیمنزم” کی بات کر رہا تھا۔ دوسری طرف لیبر یونینز کے مظاہرے چل رہے تھے۔ تیسری طرف معذور افراد کے حقوق کی تحریک سر اٹھا رہی تھی۔ چوتھی طرف ہم جنس پرست حقوق مانگ رہے تھے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کی تحریک نے بھی اسی دور میں جنم لیا۔ ہم جنس پرستوں کے مقابلے میں خواجہ سراء کم بھی تھے اور کمزور بھی، اس لیے خواجہ سراؤں کے حقوق کو ہم جنس پرستوں کے حقوق کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔

ہم جنس پرست کون ہیں؟ ہم جنس پرست لوگ ایسے مرد اور خواتین ہیں جو نارمل پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش عام انسانوں کی طرح ہوئی۔ پھر جوانی یا زندگی کے کسی حصے میں انھوں نے اپنے جیسے کسی مرد یا عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اگر انکا خواجہ سراء کمیونٹی سے موازنہ کیا جائے تو خواجہ سراء کی ساری زندگی جنس کی شناخت میں بیت جاتی ہے۔ بیشتر والدین کی شفقت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ سکول، کالج، گلی، محلوں، بازاروں، دفتروں یا کام کی جگہوں پر تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں۔ پوری کمیونٹی احساس محرومی کا شکار ہے۔

خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل ہر طرح سے ہم جنس پرستوں سے یکسر مختلف ہیں۔ ایل-جی-بی-ٹی نے خواجہ سراؤں کو پہچان تو دی لیکن ہم جنس پرستوں کا گروپ خواجہ سرؤں پر حاوی ہوگیا۔ ہم جنس پرست اپنی مرضی کے قوانین بناتے ہیں اور اپنے حقوق کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم جنس پرستی غیر فطری عمل ہے۔ ان کے لیے بنائے قوانین کے بعد ایڈز نے سر اٹھایا۔ ستر کی دہائی میں ایڈز کی وجہ سے ہم جنس پرستوں کی درد ناک اموات نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق نے خواجہ سراؤں کے حقوق کو ہم جنس پرستی سے ایسا جوڑا کہ اس مظلوم کمیونٹی کے حقوق کو گالی بنا دیا۔ خواجہ سراؤں کے انٹرویو لینے والے بھی اسی وجہ سے خواجہ سراؤں سے ہم جنس پرستی پر سوالات کرتے نظر آتے ہیں۔

میرے ذہن میں اکثر سوال گردش کرتا ہے کہ ہم جنس پرستی کرنی کس نے ہے؟ مرد نے یا عورت نے لیکن اس پر سوال کس سے کیے جاتے ہیں خواجہ سراء کمیونٹی سے۔

ہم جنس پرستی سے متعلق سوالات خواجہ سراؤں کے خلاف نفرت اور شدت پسندی میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ میں اس قسم کے سوالات کو خواجہ سراء کمیونٹی کے ساتھ دشمنی قرار دیتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کو اس قسم کے سوالات سے متعلق ہدایت نامہ جاری کرنا چاہئیں  اور ایسے صحافیوں کی سرزنش  کرنی چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply