• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) تیرا نام لکھوں اور عقیدت کی شمع جلاؤں-قلم قبیلہ سے ملاقات- دانیال خاتون/سلمیٰ اعوان(آخری قسط21-ب )

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) تیرا نام لکھوں اور عقیدت کی شمع جلاؤں-قلم قبیلہ سے ملاقات- دانیال خاتون/سلمیٰ اعوان(آخری قسط21-ب )

شام پانچ بجے قراقرم رائٹرز فورم کے ساتھ ایک نشست تھی۔ میں نے شفقت کو بھی چلنے کے لئے کہا۔
‘‘معافی دو مجھے’’ اس نے دونوں ہاتھ میرے سامنے جوڑ دئیے۔
کھال کے پانی سے نہائے۔ سچی بات ہے نہا کر لطف آیا۔ ایسا ٹھنڈا ٹھار پانی کہ انگ انگ سرشار ہو گیا۔ سفر کی تھکاوٹ اور گلگت کی گرمی دونوں کافور ہو گئیں۔ چائے نے حقیقی معنوں میں لطف دیا۔
‘‘ادیبہ بہت اچھی چائے بناتی ہے’’۔
شفقت نے ستائشی انداز میں اسے دیکھا۔
اب بازا رکی دوکانیں تھیں۔ شفقت کی حریصانہ نظریں تھیں۔ بس نہیں چلتا تھا وگرنہ گلگت بازار اٹھاکر اپنے اٹیچی کیس میں بند کر لیتی۔ پونے پانچ بجے میں اسے اور ادیبہ کو بازار میں ہی چھوڑ کر خزانہ روڑ کی طرف نکل گئی۔ جہاں گلگت کے لکھاری اور دانشور گولڈن پیک میں اکٹھے ہو رہے تھے۔
گولڈن پیک ایک گھریلو ٹائپ ہوٹل ہے۔
جناب غلام محمد بیگ (مرحوم لکھتے ہوئے دکھ ہوتا ہے) ہونٹوں پر میٹھی سی مسکراہٹ لئے پیشوائی کے لئے بڑھے۔ فرداً فرداً سب سے تعارف ہوا۔ محمد اکرم خان ‘گلگت ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر بہت نمایاں تھے ان کی شخصیت کے ساتھ بہت سے خوش لگائے جا سکتے ہیں’ خوش شکل’ خوش لباس اور خوش گفتار وغیرہ وغیرہ ۔
محمد امین ضیا ‘قراقرم رائٹرز فورم کے سیکرٹری ہیں۔ شنا زبان کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ جب تعارف ہوا میں نے ہنس کر کہا۔
‘‘میں آپ سے متعارف ہوں۔ آپ کا کلام میں نے پڑھا ہے۔ بہت خوب صورت لکھتے ہیں۔’’
عباس کاظمی سے میرا غائبانہ تعارف تھا۔ بلتستان پر کتاب لکھتے ہوئے ان کی ‘‘بلتی لوک گیت’’ نے میری کافی رہنمائی کی تھی۔
‘‘میں آپ کی بہت ممنون ہوں’’۔
ہدایت اللہ اختر سے بھی غائبائنہ تعارف تھا۔ ان کی کتاب آئینہ دردستان مجھے پنجاب یونیورسٹی کے کسی طالب علم نے دی تھی۔ بہت معلوماتی کتاب ہے۔ اختر پنجاب یونیورسٹی سے ہی اہم بی اے ہیں۔ کتاب پر چھپی ہوئی تصویر سے زیادہ جوان اور زیادہ وجیہہ نظر آئے تھے۔
شیر باز برچہ اور محمد اشرف صاحب سے میونسپل پبلک لائبریری میں صبح ہی تفصیلی ملاقات ہو چکی تھی۔ دونوں نے پورا تعاون کیا تھا۔ اور میں ان کی شکر گزار تھی۔
منظوم علی سے بھی غائبانہ متعارف تھی۔ جب پہلی بار گلگت کا چکر لگایا تھا ان کی کتاب قراقرم ہندوکش ہی میرے ساتھ گئی تھی۔ گلگت سے میر اپہلا کتابی تعارف اسی کتاب اور اسی مصنف کے حوالے سے ہوا تھا۔
اس وقت Who is Whoکا کتابچہ میرے سامنے ہے اور گولڈن پیک کی وہ سنہری شام تصور میں ابھری ہوئی ہے۔ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بہت سے چہرے بھی سامنے ہیں۔ کچھ نام بھول بیٹھی ہوں۔ کچھ نام یاد ہیں۔ پر چہروں کی شناسائی متاثر نہیں ہے۔
عبدالخالق تاج’ سید فاضل شاہ جلالی’ گوہر علی گوہر’ ڈاکٹر ثابت رحیم’ فضل الرحمن عالمگیر’ فقیر محمد خان’ حشمت اللہ خان’ غلام کریم مطرب’ عبداللہ ملنگ’
فضل الرحمن عالمگیر بلند پایہ نقاد ہیں۔ شنا شاعری پر انہوں نے خوبصورت تحقیقی کام کیا ہے۔ اخوند مہربان’ ارجی الرحمت نظر’ غلام النصیر چلاسی’ اخوند محمد رضا’ گوہر علی گوہر’ عبدالخالق ’ تاج اور ڈاکٹر بہرام خان شاد کے عارفانہ کلام کو انہوں نے اردو میں پیش کیا ہے۔ جان علی ایک اچھے شاعر ہی نہیں ‘فن موسیقی کے ماہر بھی ہیں۔ اپنا کلام خود گاتے ہیں۔ دو گھنٹے کی یہ نشست دلچسپ تھی۔ پر لطف باتیں ہوئیں۔
امین ضیا کو گلگتی عورت کی مظلومیت پر بڑا شکوہ تھا۔ اس کے خیال میں نیچے کی عورت بڑی دلیر اور دبنگ ہے کیونکہ وہ تعلیم یافتہ ہے۔
‘‘ارے کہاں دلیر ہے؟ نیچے مردوں کی کوئی دوسری مخلوق تھوڑی ہے۔ تمہارے ہی بھائی بند ہیں۔ پڑھی لکھی عورت زیادہ پس رہی ہے۔ دہری ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔ ملازمت بھی کرتی ہے۔ گھر اور بچے بھی سنبھالتی ہے۔ اور مرد کا نخرہ بھی اٹھاتی ہے’’۔
مغرب کے بعد کہیں واپسی ہوئی۔ عثمان صاحب کے گھر پہنچی۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے۔شفقت کی خریداری کے پٹارے کمرے میں دلہن کے جہیز کی مانند نمائش کر رہے تھے۔ اور عثمان صاحب کی بیٹیاں ان پر تبصرے کر رہی تھیں۔
‘‘ادیبہ پلیز چائے کا ایک کپ نہیں پلاؤ گی!’’
‘‘کیوں نہیں آنٹی۔ ابھی لیجئے’’۔
لطیف سی خنکی لئے ہوئے رات کا پہلا پہر‘ ستاروں سے بھرا ہوا گلگت کا آسمان حد نظر میں’ خوشگوار ہواؤں کے جھونکے جسم و جان پر اور ہاتھ میں پکڑا ہوا مزیدار چائے کا کپ۔
‘‘زندگی کس قدر خوبصورت ہے۔’’
میں نے گھونٹ گھونٹ چائے پی اور ادیبہ کو دعائیں دیں۔
رات کے کھانے کے بعد مسز عثمان ہمیں اپنے نمبر دو بیٹے کی سسرال لے گئیں۔ یہ ایک مشہور وکیل کا گھر تھا۔ گھر کیا تھا؟ محل تھا۔ ایسا سجا سنورا کہ بندہ حیرت زدہ ہو جائے۔ پتہ چلا تھا کہ صاحب خانہ کسی پلازہ کے مالک ہیں۔
‘‘بس تو پھر حیرت کی کیا بات ہے۔’’ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔
‘‘پیسہ بولتا ہے خواہ پہاڑوں میں ہو ‘یا میدانوں میں’’۔
اگلے دن صبح نو بجے میں ریڈیو اسٹیشن گلگت میں تھی اور شفقت بازار میں۔ جناب اکرم صاحب نے کل شام ریڈیو پر انٹرویو کے لئے کہا تھا اور صبح گاڑی بھی بھیج دی تھی۔ ریڈیو اسٹیشن دینور میں ہے۔
انٹرویو کو ریکارڈ ہونے میں کوئی آدھ گھنٹہ لگا۔ اس کے بعد جناب اکرم خان تھے‘ میری قینچی کی طرح چلتی زبان تھی۔ اکرم صاحبہ بہت مہربان اور دھیمے سبھاؤ کے آدمی ہیں۔ شنا لوک گیتوں کی تاریخ اور ان کی اقسام پر انہوں نے تفصیلی گفتگو کی۔ مختلف نغموں پر گائے
جانے والے لوک گیتوں کی کیسٹ سنوائیں۔
ایک بجے جب میں نے ڈائری بندکی۔ پنسل قلم سنبھالے اور جانے کے لئے کھڑی ہوئی۔ انہوں نے شام کی چائے گھر پر پینے کی دعوت دی۔
‘‘اللہ کا نام لیجئے اکرم صاحب ابھی چائے کی کسر باقی ہے۔ بھیجا تو میں نے آپ کا چاٹ لیا ہے۔ شام کو پھر بلا رہے ہیں تاکہ جو تھوڑا بہت بچ بچاؤ ہو گیا ہے وہ بھی میری بکواس کی نذر ہو جائے’’۔
‘‘ارے نہیں تو’’ انہوں نے خوشدلی سے مسکرا کر کہا۔
وہ احمد ندیم قاسمی کے پرستار ہیں۔ اشفاق احمد اور بانو آپا کے مداح ہیں۔
‘‘ان سے کہئے نا ہم چشم براہ ہیں۔ ایک چکر تو لگائیں’’۔
میرے ساتھ باہر آتے ہوئے انہوں نے کہا۔
‘‘میں آپ کی دعوت ان تک ضرور پہنچا دوں گی۔’’
گاڑی میں بیٹھ کر میں نے الوداعی ہاتھ ہلایا۔ ماہر ڈرائیور نے پل جھپکتے میں میرے اور ان کے درمیان فاصلہ حائل کر دیا۔
وعدہ کے مطابق شفقت غلام محی الدین صاحب کے گھر پر آرام فرما رہی تھی۔ میں نے اسے اٹھایا اور کھانا باہر چل کر کھانے کے لئے کہا۔
‘‘لو گھر والے آج الوادعی کھانا دے رہے ہیں اور تم ہوٹلوں کی بات کرتی ہو۔’’
اس شام ہم چائے پینے کی دعوت پر جس گھر میں داخل ہوئے اس کے آنگن میں کھڑے ہو کر زور زور سے چیخیں مارنے کو جی چاہتا تھا۔ بین کرنے پر طبیعت مائل تھی۔ شدت جذبات سے دل سینے میں پھڑک پھڑک جاتا تھا۔
داخلی بڑے دروازے پر منحنی جسم کی مالک مسز محمد اشرف موجود تھیں۔ وہ مسکراتی ضرور تھیں مگر صاف پتہ چلتا تھا کہ جیسے زبردستی کسی نے لب کھولے ہیں۔ ساتھ من موہنی سی
صورت والی ایک نوخیز بچی بھی کھڑی تھی۔ جناب محمد اشرف بھی ان کے عقب میں موجود تھے۔ گھر خاصا بڑا اور خوبصورت نطر آتا تھا۔ پھولوں پھلواری کی بھی بہتات تھی۔ نفاست اور سلیقہ بھی بولتا تھا مگر پھر بھی درو دیوار پر ایک یاس سا بکھرا ہوا تھا۔ جسے فوراً محسوس کیا جا سکتا تھا۔
نشست گاہ کی سجاوٹ کشمیری انداز کی تھی۔ باتیں ہوئیں۔ شفقت نے گھر دیکھنا چاہا۔ ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلتے ہوئے ہم ایک ایسے کمرے میں داخل ہوئے۔ جہاں دو بستروں پر دو بچے جن کی عمریں علی الترتیب گیارہ اور بارہ سال کی ہوں گی لیٹے ہوئے دیواروں کو تکتے تھے۔ چپ چاپ’ کمرے میں سناٹا تھا۔ دو بچے اور وہ بھی لڑکے۔ دھینگا مشتی کرنے کی بجائے یوں خاموش تھے جیسے کسی خوفناک چیز کو دیکھ بیٹھے ہوں۔
میری آنکھوں میں حیرت تھی۔ تعجب تھا۔
اشرف صاحب نے میری طرف دیکھا اور درد ناک آواز میں بولے۔
‘‘یہ بچے موت کا انتظار کر رہے ہیں’’۔
‘‘خدایا’’ ہم دونوں لرز اٹھیں۔میں نے دیکھا تھا۔شفقت کی آنکھوں کا پھٹاؤ خوفناک حد تک تھا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میری آنکھوں کی بھی ہو گی۔
‘‘کیوں ؟کیوں؟’’ ہم دونوں چلائیں۔
مسز اشرف نے ٹی وی لگایا۔ اشرف صاحب ہمیں لے کر باہر آگئے۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جانے میں ہم نے جتنے قدم اٹھائے ان میں شکستگی تھی۔ دل جیسے منوں پتھروں کے نیچے تھا۔
مسز اشرف ہمارے سامنے آکر بیٹھ گئیں۔ غم کی ایک تصویر۔میری آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے۔
‘‘بس بڑا بیٹا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد جتنے بچے پیدا ہوئے‘ سوائے لڑکیوں کے
سب اس بیمار ی کا شکار ہوئے۔ بچپن میں ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں۔ اچھلتے کودتے بھاگتے ہیں۔ شرارتیں کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر نارمل ہوتے ہیں۔ لیکن دس سال کے بعد ٹانگیں جواب دینا شروع ہو جاتی ہیں۔ دھیرے دھیرے چلنا ختم ہو جاتاہے۔ سولہ سال کی عمر تک زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
‘‘یا اللہ’’۔ آنسو میری آنکھوں سے ایک تواتر کے ساتھ بہہ رہے تھے۔
‘‘تو اپنے بندوں کو کیسی کیسی آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ پروردگار اس ماں کا کلیجہ گوشت پوست کا ہے۔ پتھر کا نہیں۔’’
چائے بمعہ لوازمات کے دسترخوان پر سج گئی تھی۔ مسز اشرف اور اشرف صاحب کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔
میرا جی چاہ رہا تھا میں ان سب چیزوں کو تہس نہس کرتی کہیں جنگلوں بیابانوں میں بھاگ جاؤں۔
میرے سینے میں بھی ایک ممتا بھرا دل تھا۔
چائے کا کپ میرے ہاتھ میں پکڑایا گیا۔ ایک گھونٹ لے کر میں نے پوچھا
‘‘اس بیماری کا کوئی علاج!’’
‘‘پاکستان میں نہیں ہے۔ باہر جانے کی توفیق نہیں۔ کراچی میں بہت عرصہ خوار ہوئے۔ حکومت کو بھی بہتیری درخواستیں بھیجیں۔ مگر کون سنتا ہے؟
اشرف صاحب کے لہجے میں آزردگی تھی۔
یہ میری زندگی کی افسردہ ترین شاموں میں سے ایک تھی۔ سونے تک میں غم کے اس حصار سے باہر نہیں آسکی تھی۔
صبح آنکھ کھلی۔ نماز کے لئے باہر نکلے دیکھا آسمان ابر آلود تھا۔
‘‘یا اللہ۔ ’’میں ساری جان سے لرزی تھی۔
آسمان کاابر آلود ہونا ہمارے لئے براشگون تھا۔ گلگت میں ہمارا آخری دن تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد دعا کی۔
پروردگار بہت دن ہو گئے ہیں یہاں۔ اب واپسی میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
مجھے آج دانیال عورت سے ملنا تھا۔ اس ملاقات کا اہتمام ڈاکٹر ہدایت علی اور جناب غلام محمد نے کیا تھا۔ ناشتے سے فراغت ملتے ہی میں نکل پڑی۔ شفقت آج جیولری کے چکر میں تھی۔
جٹیال کی طرف کہیں گھر تھا۔ پوچھتے پوچھتے مطلوبہ جگہ جا پہنچے۔ دروازہ کھلا۔ گورے چٹے رنگ کی ایک ادھیڑ عمر عورت نمودار ہوئی۔غلام محمد صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے شنا میں بات کی۔ چہرے پر تذبذب کی کیفیات ابھریں۔ موٹی موٹی آنکھوں سے میرا بغور جائزہ لیا گیا۔
یقینا میری آنکھوں میں کچھ ایسے احساسات نمایاں ہوئے ہوں گے جن میں التجا تھی ایک درخواست تھی۔ جنہوں نے کہا ہو گا۔ دیکھو مایوس نہیں کرنا۔ بہت دور سے آئے ہیں۔ تمہارے درشن کرنے ہیں۔ تمہارا کام دیکھنا ہے۔ تم سے باتیں کرنی ہیں۔
وہ ایک طرف ہٹی’ یہ اندر آنے کے لئے ایک اشارہ تھا۔ کچا آنگن خاصا کشادہ تھا۔ سامنے کے رخ پر چار بکریاں بندھی تھیں۔ دو کمروں اور دائیں بائیں برآمدوں پر مشتمل یہ نیم پختہ گھر تھا۔
آنگن میں بچھی چارپائی پر ہم لوگ بیٹھ گئے۔ ہمارے سامنے ہی وہ بھی بیٹھ گئی۔ چہرہ طباق جیسا چوڑا تھا۔ آنکھیں موٹی اور لالی لئے ہوئے تھیں۔ ہونٹوں کا رنگ قدرے سیاہی مائل تھا۔ ڈاکٹر ہدایت علی نے مترجم کے فرائض سنبھالے۔
‘‘دانیال عورت کیسے دانیال بنی؟
میں چھوٹی سی تھی۔ بس یہی کوئی سات آٹھ سال کی عمر ہو گی ۔ہر روز میں اپنی
بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ کھلی پہاڑی چراگاہوں کی طرف جایا کرتی تھی۔ ایک دن جب میں بھوج پتر درخت کے نیچے بیٹھی ایک گیت گا رہی تھی۔ مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ میری آواز میں مٹھاس ہے اور جو گیت میں گا رہی ہوں یہ کوئی جادوئی اثر رکھتا ہے۔ گاتے گاتے میرے نگاہ یونہی اوپر اٹھ گئی۔ میں نے دیکھا ایک حسین و جمیل پروں والی عورت چیلی کے درخت کی شاخ پر بیٹھی بکری کی طرح اس کے پتے کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بہت بڑی تھیں۔ بہت زیادہ چمک تھی ان میں۔ مجھے خوف سا محسوس ہوا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے درخت سے اتری اور میری طرف آئی۔ ڈر سے میرا برا حال تھا۔ قریب آکر اس نے کہا۔
‘‘ڈرتی ہو۔ مجھ سے مت ڈرو۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گی۔ چلو آؤ میں تمہیں اپنا گھر دکھاؤں۔ میرا گھر سونے کا بنا ہوا ہے’’۔
جونہی مجھے پکڑنے کے لئے اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ میں بیہوش ہو گئی۔ جب ہوش آیا۔ دیکھا کہ ندی کے کنارے گری پڑی ہوں۔ میں شدید زخمی تھی۔ مجھ سے ہلا نہیں جاتا تھا۔ میرے ساتھی ‘دوسرے چرواہے بچے ‘جو ادھر ادھر اپنی اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہے تھے۔ میرے اردگرد کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھے اٹھایا اور گاؤں لے گئے۔ میرے والد نے ساری باتیں سنیں۔ انہوں نے فوراً ایک بکری کو ذبح کیا ۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ کہیں ایسا پریوں کی وجہ سے تو نہیں ہوا۔
جب بکری ذبح ہوئی میں نے اس کا خون پینے کی خواہش ظاہر کی۔ میرے والد نے منع کیا۔ مگر جیسے میں پاگل ہو رہی تھی۔ میں نے اپنے بال نوچ ڈالے۔
‘‘مجھے خون دو۔ مجھے یہ خون پلاؤ۔ میں پیاسی ہوں’’۔ میں چیخی۔
میں نے سارا خون پی لیا جو میرے والد نے ایک برتن میں جمع کیا تھا۔ دس دن مجھ پر بیہوشی طاری رہی۔ اناج کی ایک کھیل بھی میرے اندر نہ گئی۔ اس دوران بہت سے جن اور پریاں جو تعداد میں سولہ تھے میرے پاس آتے رہے۔ ان کی ملکہ ہندو تھی۔ اس کے
بالوں کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ میرے لئے بہت سی چیزیں لاتے۔ روٹی’ پھل’ مٹھائیاں لیکن کھانے کو کچھ نہ دیتے۔
میں اگر سو رہی ہوتی وہ مجھے اٹھا لیتے اور ناٹی (ایک طرح کا رقص) کرنا سکھاتے۔ انہوں نے مجھے ‘‘گنو’’ اور ‘‘دیبو’’ جیسے منتر سکھائے۔
‘‘گنو’’
گنگ گنم تراخانئے زولی گنم’ زولی حارولی گم’ یو نئے گنولی گنم’ پائیے پرونی گنم’ جن دو لوک گنم۔ میں باندھونگی میں باندھونگی’ تارا خان (گلگت کا ایک حکمران) کی زولی کو۔ میں باندھوں گی زولی کی بیٹی حزولی کو۔ میں باندھوں گی گنولی کو۔
‘‘دیبو’’
متی متی ترا خانئے زولی موتی۔ زوئی ضرولی موتی وغیرہ وغیرہ
ترجمہ۔ میں تو کھولونگی میں کھولونگی تراخان کی زولی کو۔ حزولی کی بیٹی حزولی کو۔
میں نے اسے ناٹی کرنے کے لئے کہا۔
‘‘ارے ایسے تھوڑی کی جاتی ہے۔ اہتمام کرنا پڑنا ہے۔’’
‘‘کچھ تھوڑا سا دکھلا دو۔ بڑی دور سے آئے ہیں۔ بڑی آس لگا کے آئے ہیں۔ میں بھی شاعرانہ موڈ میں تھی۔ ’’جونہی ڈاکٹر ہدایت علی نے میرے جذبات سے اسے آگاہ کیا۔
وہ انہی قدموں پر کھڑی ہو گئی۔ ایسا زبردست رقص کیا ۔کیا ناہید صدیقی کریں گی۔ میں تو عش عش کر اٹھی۔ دروازے پر لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔
جناب غلام محمد بتا رہے تھے کہ بڑے بوڑھے بزرگوں کا خیال ہے کہ وہ افراد جو دانیال بن جاتے ہیں انہیں پریاں اور جن اٹھا کر نانگا پربت’ راکا پوشی اور حراموش کی چوٹیوں پر لے جاتے ہیں۔ انہیں وہاں رکھتے ہیں۔ آنے والے واقعات یہی جن اور پریاں انہیں
بتاتے ہیں۔
گلگت کی علاقائی شاعری میں دانیال شاعری کا بھی مقام ہے۔ گو اس میں قافیہ اور ردیف وغیرہ کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ مگر چونکہ اس میں بیح کی جھلک ملتی تھی۔ اس لئے دانیال قسم کے لوگوں کی سخت نگرانی کی جاتی تھی۔ کیونکہ جب یہ بھاگ جاتے تھے تو انہیں واپس لانا مشکل ہو جاتا تھا۔
کہتے ہیں علاقہ بگروٹ میں ایک دانیال ناچ رہا تھا۔ کسی طرح وہ بھاگ گیا۔ اور باوجود کوشش بسیار کے نہ ملا۔ ایک سال گزر گیا۔ لوگ تقریباً اس بات کو بھول بھال گئے۔ اگلے سال ایک دوسرا دانیال ناچ رہا تھا۔ فضا میں بانسری و ڈھول اور شہنائیوں کا شور تھا۔ دفعتاً لوگوں نے دیکھا کہ وہی گزشتہ سال والا دانیال جو غائب ہو گیا تھا بالکل ننگا’ حراموش کی بلند ترین چوٹی سے نیچے دوڑتا ہوا آرہا ہے۔ آناً فاناً وہ مجمع میں پہنچ گیا۔
‘‘اس میں کس حد تک حقیقت ہے۔ ’’میں نے پوچھا۔
ڈاکٹر ہدایت علی مسکرائے اور بولے
‘‘ففٹی ففٹی بھی ہوئی تو کافی ہے۔’’
بہت سا شکریہ ادا کیا دانیال عورت کا۔ ڈاکٹر ہدایت علی اور جناب غلام علی کا کہ جن کے توسط سے میں مقامی ثقافت کے حامل ایک دلچسپ کردار سے ملی۔
میری شام گلگت بازار میں گزری۔ مگر کتابوں کی خریداری میں۔
رات جناب راجی الرحمت نظر ‘گوہر علی اور ڈاکٹر حلیم کی اردو شاعری پڑھنے اور سونے میں گزاری۔
صبح روشن اور چمک دار تھی۔ ائیرپورٹ پر جہازوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری تھا۔ ٹیرس پر کھڑے میں نے گلگت پر الوداعی نظریں ڈالیں۔ کہیں میری روح سے آواز اٹھی تھی۔
تاابد مہکیں ترے سرو سمن یونہی اڑتا رہے چاند تارے کا یہ علم
میں کہیں بھی اجنبی نہیں تھی۔ گھروں میں ‘بازاروں میں ‘تفریح گاہوں میں ‘میرے اپنے لوگ ‘میری اپنی جگہیں‘ خوبصورت رعنائی سے بھری ہوئیں۔
تاہم پھر بھی جیسے کوئی کہتا ہو:
Through pleasures and palaces though
We may roam there is nothing
Like home.sweet home-
میرا گھر
میرا اپنا گھر
میرے کَل کا ایک جُز۔
حرف آخر۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply