ایک کہانی جس کا کوئی عنوان نہیں

میرے خیال میں عورت مرد سے زیادہ دلیر ہوتی ہے. اس پہ تہمت اور خاندان کی ناک کٹوانے کا الزام آسانی سے لگایا جا سکتا ہے، اور اس کی صفائی بھی اکثر نہیں لی جاتی. یہ بات پچیس سال کا اورحان نامی ایک نوجوان کہہ رہا تھا جو ایک نجی یونیورسٹی کا طالب علم ہے جس نے عمرانیات میں ماسٹرز کر رکھا تھا اور سرکاری ملازمت کی تلاش میں کوشاں تھا.
میں ایسا نہیں سمجھتا. دوسرے دوست ایوان نے بحث کرنے کے سے انداز میں کہا اور برگر کا آخری نوالہ منہ میں رکھا.
ایوان اسی یونیورسٹی میں فلسفہ کا طالب علم ہے جو اپنے مضمون کے زیرِ اثر شکی طبعیت اپنا چکا ہے اور ہر چیز کو مختلف انداز سے دیکھنے کی وکالت کرتا تھا۔
تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو. اورحان نے آنکھ ماری. لگتا ہے جناب نے کافی قصے بنا رکھے ہیں. ہاں! ہاں! ہاں! اس نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے ہنکارا بھرا.
ایسا تاریخی جدلیات کے تناظر اور حالات کے مشاہدہ کے پیش نظر ہے. اورحان نے کہا.
یہ کیا لغویات ہے. تم پاگل فلسفی ہر بات میں اپنا فلسفہ لے کر بیٹھ جاتے ہو. اگر کوئی دلیل ہے تو بات کرو، ورنہ ہار مان لو. یا پھر میں چلتا ہوں. میں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا. اور اٹھنے کی اداکاری کی.
ابھی بیٹھو ادھر. اورحان نے غصیلے اندازمیں مجھے پکڑا اور زبردستی بوتلوں والے ڈالے پر بٹھا دیا. ہم تینوں سردیوں میں گاؤں آئے ہوئے تھے اور وقت گزاری کے لیے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لائے تھے جن میں سے برگر میں بتا چکا ہوں.
تم کہو کہ ایسا کیا ہے جس کے تناظر میں تم نے یہ کہا. اورحان نے بحث دوبارہ پہلے والے نکتہ پر کھڑی کر دی.
یہ باتیں لڑائی جھگڑے یا حق و باطل کے تناظر میں نہیں تھیں بلکہ حالیہ پیش آنے والے حادثات کو سامنے رکھ کر جاری تھی، جس میں لڑکے دیواریں پھاند کر لڑکی کے گھر جا گھستے تھے یا پارکوں میں ملا کرتے تھے. اور اکثر ان دونوں کے خاندان والوں میں سے کوئی انھیں دیکھتا، پیچھا کرتا اور کسی کو اعتماد میں لے کر پکڑ کر مار دیتا تھا. ہاں ان میں سے زیادہ تر تعداد لڑکی والوں کی ہوتی جو کبھی غیرت تو کبھی کسی بہانے سے ایسا کر ڈالتے.
کیا ان باتوں میں پاگل پن کے لیے کوئی جگہ ہے؟ میں نے پوچھا.
پاگل پن سے کیا مراد؟ لڑکے اور لڑکی کا فطرت کے اصولوں کے برخلاف میل ملاپ کیا پاگل پن نہیں ہے. اس پس منظر میں سب کچھ پاگل پن ہے. فلسفی ایوان نے کہا.
میرا مطلب ہے صاحبہ کا بھائیوں کی محبت میں تیر توڑ کر مرزا سمیت موت قبول کرنا، بہادری ہے یا بزدلی؟ مرنا تو اس نے ویسے بھی تھا بھائیوں کو مروانے کے بعد بھی.
ہاں یہ سوچنے والی بات ہے. دونوں نے اثباتًا سر ہلایا.
جیسا فاؤسٹ میں نتانیا نے کیا تھا، کہ بھائی کو مارنے کے بعد اس نے مسلسل اذیت کو اپنی سزا بنا لیا تھا.
اگر ایسا ہی رہا تو شاید ہم کبھی کسی نکتہ پر نہیں پہنچ سکیں گے اور ممکن ہے ایسا ہی ہوگا. اورحان نے بحث کی طولانی کو سمجھتے صلاح دی. میں بتاتا ہوں کہ ایسا کیا ہوا تھا کہ مجھے یقین ہوگیا کہ عورت زیادہ دلیر ہوتی ہے؟
تم لوگوں کو یاد ہے، ن نامی پہاڑی لڑکی جس نے ج نامی لڑکے کے آگے کھڑے ہوکر گولی کھالی تھی اور مرتے ہوئے بغاوت کا اعلان کردیا کہ وہ ایسے کسی قانون کو نہیں مانتی جس میں لڑکی کو مادیت کے علاوہ کسی چیز سے تشبیہہ نہ دی جائے. اور ج اسی دوران چھلانگ لگاکر نیچے کود گیا تھا۔ ہاں ایک گولی اس کے بازو کو چیرتی ہوئی گزر گئی اور اسی لڑکی کے کہنے کے عین مطابق لڑکے والوں نے اپنے لڑکے کو چھوڑ دیا اور اس کا بدلہ لینے کی خاطر آج بھی موقع ڈھونڈ رہے ہیں.
کیا بس یہی بات ہے جس کی بنا پر تم ساری مرد برادری کو بزدل سمجھتے ہو. ایوان نے طنزیہ انداز میں کہا.
اگر بات لڑکی کے نعرہ مستانہ کی ہے تو میں تمھیں ایسی کئی مثالیں دے سکتا ہوں جن میں لڑکی نے ڈر کر عاشق کو بلوایا اور گھر والوں نے اسی کے سامنے لڑکے کو قتل کر دیا.
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کسی ایک کے فعل پر پوری برادری کو الزام نہیں دیا جا سکتا. کیا بائبل میں تمام انسانوں کو آدم کے گناہ کی بدولت گنہگار نہیں کہا جاتا؟ اور تقریبًا دو سو کروڑ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں.
تم تینوں ہی غلط ہو. پاس سے گزرنے والے ایک بابے حمید نے کہا، جو جانوروں کے لیے چارہ کاٹنے آیا تھا اور اس بحث میں خود کو شریک کیے بیٹھا تھا.
وہ کس طرح؟ ہم تینوں جو اس بحث سے خود بھی تنگ آچکے تھے، سوچا کہ بات کا رخ بدل جائے گا کہ اکثر دیہاتوں میں بوڑھے یا خبطی آپ کو طنزیہ پڑھا لکھا بول کر ایسا سوال کر ڈالتے ہیں جس کا جواب بقائمی ہوش و حواس دینا ناممکن ہوتا ہے. جیسے بائیس بھینسوں کو سات تالابوں میں ایک ہی نسبت سے بٹھانا. آپ بھی چکرا گئے ناں. اس کی سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوگئے.
تو سنو. اس نے کہا اور بولنے لگ گیا.
یہ 1953 کی بات ہے۔ ان دنوں کی جب میں بھی تمھاری عمر کا تھا. ابھی تو تم لوگ بناسپتی گھی کھاتے ہو اور ایساگوشت جس کا مرغا خود کھڑا نہیں ہو سکتا اور نئی نئی چیزیں جن کا ہمارے زمانے میں کوئی وجود نہیں تھا. ان دنوں ہم دیسی گھی کھاتے، پنجیری اور پنیاں بناتے اور چاول کے جن کے اوپر گھی تیر رہا ہوتا تھا اور پھر صبح اٹھ کر جانوروں کیلئے چارہ کاٹتے اور کترتے جس سے سب کھایا پیا ہضم ہو جاتا تھا. تب شادی کے لیے لڑکی کی تعلیم یا نوکری نہیں پوچھی جاتی تھی اور نہ ویسی ہی باتیں جو تم لوگ آج پوچھتے ہو. میرے گھر والوں نے ساتھ قریبی گاؤں میں میری شادی طے کر دی. میں جسے اپنی طاقت پر مان تھا اور وہ بھی غرور کی حد تک، اپنے گھر والوں کو بول دیا کہ میں ایک ہی شرط پر شادی کروں گا اور وہ یہ کہ کیا لڑکی میرے قابل ہے کہ اس سے شادی کی جا سکے. ہاں ایسا سمجھ لو کہ شاید میں وہ پہلا شخص تھا جو شادی سے ایک دفعہ پہلے لڑکی سے ملنا چاہتا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھ سکیں۔ لیکن اس میں ہرگز کچھ بری نیت پوشدہ نہ تھی. میرے گھر والوں نے میری بات کو سنا اور مجھے کاٹنے کو دوڑے. شاید میں ان کی نسل سے تعلق رکھتا تو ضرور ایسا ہی کرتا. انھوں نے بہت سی دھمکیاں دی۔ مارا بھی کہ سمجھ جائے لیکن میں بھی اپنی دھن میں پکا تھا. اگر اس دفعہ میں انکار کر دیتا تب اگلی دفعہ بھی یہی ہونا تھا. اس لیے میں نے ہار مان کر ان کا نقطہ نظر تسلیم کرلیا. شادی سے دس دن قبل گھر والوں نے مجھے کام کرنے سے چھڑا لیا اور آرام کرنے کو بٹھا دیا کہ مسلسل دھوپ میں رہنے کے باعث چہرہ کا گندمی رنگ تھوڑا سرخی میں بدل جائے اور جسم اور دماغ سکون محسوس کرسکے. بالآخر وہ وقت آ گیا جس دن میری شادی تھی. میں نہایا اور ہم قریبی گاؤں چلے گئے. تھوڑی دیر میں کھانا کھول دیا گیا اور اس وقفے میں مولوی صاحب نکاح نامہ تھامے میرے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا مجھے یہ نکاح قبول ہے. میں نے ناں میں سر ہلا دیا.
ساتھ موجود لوگوں نے سنا اور سنتے ہی انھیں جیسے سکتہ ہوگیا. لڑکی کے باپ پر تو مانو کاٹو پر بدن میں خون نہیں. میرے ابا نے آہستہ آہستہ گالیاں دینا شروع کر دیں اور قتل کی دھمکی دینے لگے.
آخر جو طوفان اٹھنا ہے وہ اٹھ جائے. میں نے فیصلہ کرلیا تھا.
بالآخر انھوں نے دھمکی کے بعد مفاہمت آمیزانہ رویہ اختیار کر لیا. اور میرے انکار کی وجہ پوچھی. تب تک یہ بات ہمارے دائرے سے باہر نکل چکی تھی اور چہ میگوئیاں ہونا شروع ہوگئیں.
میں نے وہی پرانا جواب دیا کہ میں شادی سے پہلے لڑکی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.
تم لوگ کچھ بھی غلط مت سوچنا. اس نے ہمارے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا.
پھر کیا ہوا ؟ ہم نے پوچھا. کسی داستان گو کی طرح اس نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا.
یہ خبر لڑکی تک بھی جا چکی تھی اور ادھر بھی یہی باتیں جاری تھیں. اس نے شروع میں تو سب کچھ برداشت کیا۔ بالآخر اس کشمکش میں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، اس نے بھی مجھ سے ملنے کی شرط رکھ دی.
اسی طرح ہم دونوں کو آمنے سامنے بٹھا دیا گیا اور ساتھ ہمارے گھر والے بیٹھ گئے.
میں نے لڑکی کی آنکھوں میں دیکھا اور اسے میری آنکھوں میں دیکھنے کا کہا. وہ جو ان سارے معاملات کو سمجھ چکی تھی، اسی کیلئے تیار بیٹھی تھی. اس نے سنا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں. ہم دونوں ایک دوسرے کے وجود سے ناآشنا تھے حتیٰ کہ اردگرد کے سے بھی. بالآخر اسی منجھدار میں میں حواس کھو بیٹھا اور آنکھ جھپک دی. لڑکی نے انکار کر دیا اور میرے باپ نے جوتا اتار کر میری پٹائی شروع کردی.
میں اس قدر شرمندہ ہوا کہ پوری زندگی شادی کرنے سے انکار کردیا.
تو اس بات کا اس سے کیا لینا؟ ہم نے بیک زبان کہا.
میں نہیں جانتا. میں فقط یہ جانتا ہوں کہ کوئی عقلمند اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے جان داؤ پہ نہیں لگاتا۔۔۔

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply