علامہ اقبال اور ان پر فتویٰ کفر کی حقیقت/ساجد علی

برصغیر میں علما کی فتوی ٰ بازی کی روایت خاصی پرانی ہے۔ ایک زمانے میں اپنے وقت کے سب سے بڑے صوفی شیخ احمد سرہندی کے خلاف علمائے حجاز سے کفر کا فتویٰ حاصل کیا گیا تھا۔ یہاں کے مولوی صاحبان بھی بڑی عجلت اور سرعت سے فتویٰ کفر جاری کیا کرتے تھے۔ ایک بار کسی “خوش طبع مسلمان کو دل لگی سوجھی” تو اس نےمدرسہء دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی کی تحریروں کے کچھ اقتباسات ان کا نام بتائے بغیر دیوبند کے دارالافتا میں بھیج دیے کہ جو شخص یہ اور یہ کہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب آیا کہ ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ فاضل بریلوی اعلیٰ حضرت نے بھی علمائے دیوبند کی تکفیر پر حجاز سے فتوے منگوائے تھے۔ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب بھی جھٹ پٹ کفر کا فتویٰ رسید کر دیا کرتے تھے۔

لیکن شاید ان سب سے بڑھ کر لاہور میں مسجد وزیر خان کے خطیب مولانا دیدار علی شاہ صاحب تھے جو دھڑا دھڑ مشینی سرعت کے ساتھ کفر کے فتوے جاری کیا کرتے تھے۔ گزشتہ صدی کی بیس کی دہائی میں انھوں نے مشہور نیشنلسٹ کانگرسی رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلو کو کافر قرار دیا۔ اسی زمانے میں حجاز میں سعودیوں کی حکومت کے بعض اقدامات کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان نے سعودی حکمران کی حمایت میں بیان جاری کیا تو وہ بھی کافر قرار پائے۔ جواباً ظفر علی خان نے بھی اپنی شاعری میں مولوی دیدار علی شاہ کا خوب مذاق اڑایا۔
ان حالات میں ایک “خوش طبع مسلمان کو دل لگی سوجھی۔۔۔ اس خوش طبع مسلمان نے اپنا نام “پیرزادہ محمد صدیق سہارنپوری” تجویز کیا اور ایک استفتا لکھا۔”

استفتا میں علامہ اقبال کا نام لیے بغیر ان کے اشعار درج کرکے اس خوش طبع مسلمان نے استفسار لکھا کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور حامیان شرع متین اس شخص کے بارے میں۔ وہاں سے فی الفور حسب منشا جواب موصول ہو گیا کہ ” جب تک ان کفریات سے قائلِ اشعارِ مذکور توبہ نہ کرے،اس سے ملنا جلنا تمام مسلمان ترک کر دیں ورنہ سخت گناہ گار ہوں گے۔” (یہ تمام روداد عبد المجید سالک کی کتاب “ذکر اقبال” میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔)

ویسے اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ واضح طور پر فتویٰ کفر ہے ہی نہیں ۔ لیکن استفتا اور اس کا جواب اخبار “زمیندار” ( مورخہ 15 اکتوبر 1925ء) میں “علامہ اقبال بھی کافر ہو گئے” کی شہ سرخی کے ساتھ چَھپا ۔

“ذکر اقبال” میں سالک کا بیان غمازی کرتا ہے کہ وہ “خوش طبع مسلمان” کوئی اور نہیں سالک صاحب خود تھے اور یہ شرارت مولوی صاحب کی بھد اُڑانے کی خاطر کی گئی تھی۔ زمیندار اخبار میں فتوے کی خبر شائع کی گئی تو اس پر جو نوٹ لکھا گیا تھا اس میں یہ بھی درج تھا کہ “ہمارے پاس اس استفتا اور فتوے کا اصلی مسودہ محفوظ ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس اعلان سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ اگر یہ تنہا سالک کی شرارت نہیں تھی تو پھر اخبار کے عملہ ادارت کے کچھ اور لوگ بھی شامل تھے۔ اس کا مقصود ظفر علی خان کے خلاف فتوے کا بدلہ لینا تھا۔ بقول خرم علی شفیق “یہ مولوی دیدار کو نیچا دکھانے کی کوشش تھی”۔ اس شرارتی استفتا اور اس کے جواب سے اقبال کی شہرت و مقبولیت میں تو رَتی بھر کمی واقع نہ ہوئی لیکن استفتا اور اس کا جواب اخبار “زمیندار” میں چھپنے کی دیر تھی کہ ہر طرف سے مولوی صاحب پر لعن طعن شروع ہو گئی تھی۔
پس نوشت: “زمیندار” اخبار کے متعلق معلومات خرم علی شفیق کی کتاب “اقبال: دور عروج” سے ماخوذ ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply