والدین کی غلامانہ فرماں برداری/عرفان شہزاد

والدین اور بزرگوں کی غلامانہ فرماں برداری کا تصور جاگیردارانہ معاشرت کے تقاضوں سے پیدا ہوا اور ایک تہذیبی قدر بن گیا۔ جاگیر دار ایک منتظم ہوتا ہے، جسے اپنی جاگیر کی حفاظت کے ساتھ ایک بڑے خاندان کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ اس نظام میں جاگیردار کے فیصلوں سے انحراف کی اجازت نہیں ہوتی۔ کوئی ایک انحراف جاگیردار کی رِٹ کو چیلنج کر کے اسے کم زور کر سکتا ہے۔ ایسا کوئی موقع وہ اپنے رقیبوں اور دشمنوں کو نہیں دینا چاہتا۔ اس لیے وہ اولاد کے لیے بھی باپ سے زیادہ ایک حاکم ہوتا ہے۔ جاگیردار کی صورت میں باپ کا یہ وہ مثالی تصور ہے جس کی تقلید سماج کے دیگر طبقات کرتے ہیں۔ باپ کا یہی تصور ادب و شاعری، ضرب الامثال اور داستانوں میں بیان ہوتا اور اسے ایک تہذیبی قدر بنا دیتا ہے۔ اس باپ کا صرف احترام ہی نہیں کیا جاتا، اس کی غیر مشروط اطاعت بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس کی فرماں برداری ہی کافی نہیں ہوتی، اس کا ڈر ہونا بھی لازم ہے۔

اس آمرانہ رویے کا اظہار ہماری زبان کے محاوروں اور تعبیرات میں بھی نمایاں ہے جو اولاد میں مثالی فرماں برداری پیدا کرنے کے لے وضع کیے گئے ہیں، مثلاً، “کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے”۔ شادی کے معاملے میں فرماں بردار بیٹی کے لیے معیار یہ ہے کہ “اسے جس کھونٹے سے باندھا وہ بندھ گئی۔”

اس طرزِ فرماں برداری میں اولاد کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اپنی جائز اور معقول خواہشات حتی کہ اپنے ذوق کے اظہار سے بھی دست بردار ہو جائیں۔ اہتمام کیا جاتا ہے کہ اولاد، خصوصاً بیٹی کی شادی وہاں نہ کی جائے جہاں اس کی مرضی کا اظہار ہو جائے۔ والدین کے لیے یہ احساس باعثِ طمانیت و افتخار ہوتا ہے کہ ان کی اولاد نے اپنی خواہش قربان کر کے ان کے ناگوار فیصلے کو قبول کر لیا۔ ان کے کسی غلط فیصلے کے نتیجے میں ان کی اولاد بے سکون زندگی گزار رہی ہو تو انھیں دکھ کے ساتھ فخر بھی ہوتا ہے۔

شہری گھرانوں میں جدید تعلیم، معاش اور رہایش کے تقاضوں سے چھوٹے خاندان کی تشکیل اور آزادیءِ افکار وغیرہ کے رجحانات کی وجہ سے کلچر تبدیل ہوا تو والدین کی غلامانہ فرماں برداری کے رویے میں بھی تبدیلی آئی، جسے بزرگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ حفظِ مراتب اور بڑوں کا احترام ایک خوب صورت اور ضروری تہذیبی قدر ہے، مگر کامل اطاعت اور خوف نما احترام کے عناصر قابل تحسین نہیں۔

بچوں میں غلامامہ ذہنیت پیدا کرنے کے لیے من گھڑت قصے کہانیوں سے مدد لینا بھی ہمارے ہاں معمول ہے۔ مثلا ً یہ کہانی کہ بچہ ساری رات ماں کے سرہانے پانی لیے کھڑا رہا جس پر اسے جنت کی بشارت ملی۔

غلامانہ فرماں برداری کے اس تصور کو دین کا لبادہ بھی پہنا دیا گیا۔ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی ہدایت کو ان کی غلامانہ اطاعت پر منطبق کر دیا گیا۔

اسلام میں والدین کی غلامانہ فرماں برداری کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن مجید نے والدین کی اطاعت کا نہیں، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اطاعت کا حق صرف اللہ کا اور اس کے حکم سے اس کے رسول ﷺ  کا ہے۔ ان کے بعد اُو ُلواالاَمر (اہل حکومت) کی اطاعت نظمِ اجتماعی کی ضرورت کے تحت اور بیوی کو شوہر کی فرماں برداری کی ہدایت خاندانی نظم کے دائرے میں دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ذکر کے ساتھ جب والدین کا ذکر آتا ہے تو اطاعت کا لفظ بدل کر” احسان” اور” حسناً ” کے الفاظ اختیار کر لیے جاتے ہیں۔

دین کا اصول یہ ہے کہ کسی گناہ، حق تلفی یا زیادتی کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ ۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی فرد کا ایسا ذوقی معاملہ جو گناہ، حق تلفی یا زیادتی کے زمرے میں نہیں آتا، اس میں مداخلت کا حق کسی کو نہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی بھی شخصی آزادی کے اس دائرے میں اپنا اختیار استعمال نہیں کرتے۔ شخصی اذواق مختلف ہوتے ہیں، ایک کا ذوق دوسرے کے لیے ناگوار بھی ہو سکتا ہے، مگر اسے حق نہیں کہ اپنے اختیارسے تجاوز کرتے ہوئے، اس کے ذوق یا انتخاب پر پابندی عائد کر سکے۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا، بڑھاپے میں خدمت کی ضرورت ہو تو ناگواری کے مواقع پر ناگواری کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا، صبر اور شفقت کے ساتھ ان کی خدمت کی جائے گی ۔
لیکن والدین کو اولاد پر مطلق اختیار نہیں ہے جب تک وہ ان کی جائز، ناجائز اور غیر ضروری باتیں بھی نہ مان لیں، اپنے جائز حقوق سے دست بردار اور اپنے ذوق کی قربانی بھی نہ دے دیں، تب تک

ان کی جنت خطرے میں ہے۔ والدین کی وہ نافرمانی گناہ کے زمرے میں شمار ہوگی جس کا بجا لانا اخلاقی لحاظ سے اولاد کے لیے ضروری ہو ۔
والدینیت بڑا بھاری اور نازک منصب ہے۔ اولاد کی جنت کی طرح والدین کی جنت بھی اولاد کے ساتھ ان کے حسن سلوک اور ان کی عمدہ تربیت کی ذمہ داری پوری کرنے پر منحصر ہے۔ اس کے لیے وہ خدا کے حضور جواب دہ ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

والدین کا فرض ہے کہ بساط بھر اولاد کی اچھی پرورش کریں، انھیں اپنی جاگیر اور غلام نہ سمجھیں۔ انھیں زندگی کی اونچ نیچ سمجھائیں مگر دھونس اور جذباتی بلیک میلنگ سے کام نہ لیں۔ وہ اولاد کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں، ان کے مالک نہیں۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply