پہلی جنگ عظیم کے 100 سال پورے ہونے پر — غیور شاہ ترمذی

کل  11 نومبر تھی – ٹھیک 100 سال پہلے آج ہی کے دن پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا جبکہ یورپ، افریقہ  اور مشرق وسطی میں برپا ہونے والی جنگ میں ایک کروڑ تو صرف فوجی ہی ہلاک ہو گئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے 100 برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس جنگ میں 2 کروڑ 10 لاکھ کے لگ  بھگ افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ غیر فوجی ہلاکتیں بھی اس جنگ کی وجہ سے ہی ہوئی تھیں – ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا اور کیمیائی و زہریلی گیس کے ذریعے کی گئی ہلاکتیں تھیں – کہتے ہیں کہ جدید تاریخ کی یہ سب سے ہولناک جنگ تھی جس کا آغاز بظاہر ہبزبرگ آرکڈیوک فرانز فرڈنینڈ کے قتل سے ہوا جو اگست 1914ء میں شروع ہوا اور اگلی چار دہائیوں تک مختلف محاذوں پر جاری رہا –

اس جنگ میں ایک طرف برطانوی قیادت میں روس, فرانس, اٹلی اور امریکہ تھے تو دوسری طرف ترک عثمانی خلافت و جرمن قیادت میں آسٹرو ہنگیرین سلطنت اور بلغاریہ تھے – اس جنگ میں برطانوی قیادت کو فتح حاصل ہوئی جس کے نتیجہ میں آسٹرو ہنگیرین سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آسٹریا اور ہنگری میں تقسیم ہوئی جبکہ ترک سلطنت عثمانیہ کو بیت المقدس سے حجاز تک ٹکڑے ٹکڑے ہونا پڑا – حجاز کا نام تبدیل کر کے سعودی عرب رکھ دیا گیا اور ترکی کو یورپ کا دروازہ بنا دیا گیا جبکہ سنٹرل یورپ میں کئی نئے ممالک وجود پا گئے –

برطانوی اتحاد کے قائدین میں نکولس ثانی, الیکسی بروسیلوف, جورجس کلیمنکیو, جوزف جوفری, فرڈیننڈ فوش, رابرٹ نیویل, ہربرٹ ہنری ایسکوئتھ, سر ڈوگلس ہیگ, سر جون جیلیکو, وکٹر ایمانوئیل ثالث, لوگی کاڈورنا, ارمانڈو ڈیاز, ووڈرو ولسن, جون پیرشنگ جیسے نامی گرامی جرنیل شامل تھے جبکہ جرمنی و ترک عثمانی خلافت والی قیادت کے شکست خوردہ جرنیلوں میں فرانز جوزف اول, کونراڈ وون ہوزینڈورف, ولہیم ثانی, ایرچ وون فالکنہین, پال وون ہنڈنبرگ, رینہارڈ شیر, ایرچ لوڈنڈورف, محمد خامس, اسماعیل انور, مصطفی کمال اتاترک اور فرڈیننڈ اول جیسے جرنیل شامل تھے – اس جنگ میں شکست کے بعد ہی مصطفی کمال اتاترک نے مساجد کو تالے لگوا کر ترکی کو سیکولر ریاست ڈیکلئیر کر دیا –

بظاہر تو یہ پہلی جنگ عظیم آج سے 100 برس پہلے ختم ہوئی تھی مگر یہ جنگ آج بھی ظلم و برداشت کی داستانوں اور برداشت و رواداری کے جذبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی ہے۔ دنیا کے بیشتر اقوام اس جنگ میں آہستہ آہستہ حصہ بنتے گئے۔ اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی آگ جھلستی چلی گئی ۔ دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ پہلی بار دنیا نے کیمیائی اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا۔

یہ انسانی تاریخ کی تباہ کن جنگ تھی مگر یہ 100 سال پہلے ختم ہو گئی تھی – آج دنیا کو ایک مرتبہ پھر تیسری جنگ عظیم کا شدید خطرہ ہے – سو سال پہلے کے مقابلہ میں آج کے ہتھیاروں کی ہولناکی کئی ہزار بلکہ لاکھوں گنا زیادہ ہے – اگر پہلی جنگ عظیم میں تقریبا” 6 سے 7 کروڑ شدید ترین متاثرین میں شامل تھے تو آج 2018ء میں صرف انڈیا, پاکستان, چین, سعودی عرب, ایران, اور دیگر خلیجی ریاستوں میں ساڑھے 3 ارب سے زیادہ انسان نیوکلئیر ٹیکنالوجی, کیمیائی ہتھیاروں اور دوسرے مہلک ترین بائیالوجیکل ہتھیاروں سے موت کے منہ میں ہیں – پہلے اس جنگ کا آغاز جرمنی کی طرف سے علاقائی تھانیداری حاصل کرنے کے لئے ہوا تھا تو اس دفعہ اس جنگ کی وجہ سعودی اتحاد کی ایرانی چپقلش, اسرائیلی اجارہ داری اور انڈیا کی طرف سے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کی وجہ سے ہوگا –

Advertisements
julia rana solicitors london

دنیا کو اس وقت مدبر ترین راہنماؤں کی ضرورت ہے جبکہ بدقسمتی سے اس وقت کے راہنما تزاویزاتی گہرائیوں کے ناممکن حصول, آبی ذخائر پر قبضے, آمریت و بادشاہت کے تسلسل اور فرقہ پرستی جیسی لعنتوں کے پیروکار بنے ہوئے ہیں –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply