بھٹو اور بھٹو کے ساتھی/عامر حسینی

میں نے جب بھٹو کے سابق مشیر امور نوجوانان راجہ انور صاحب کی کتاب “دہشت گرد شہزادہ” پر چھوٹے چھوٹے سٹیٹس اَپ ڈیٹ کیے تو میں راجا انور کی ان باتوں پر اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کو اپنے سینئر دوستوں کے سامنے رکھنا چاہتا تھا جو بھٹو کا دور حکومت دیکھ چکے تھے ،مارشل لاء کو بھگت چکے تھے اور پھر انہوں نے پی پی پی کے دو ادوار ِحکومت کا مشاہدہ بھی کر رکھا تھا اور وہ کہیں نا کہیں اس سارے عمل کا حصّہ تھے۔
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھے راجا انور کے زمانہ طالب علمی سے لیکر اب تک کے سیاسی و سماجی سفر کا پتا نہیں تھا اور نہ ہی اس کا مطلب یہ تھا کہ میں پیپلزپارٹی سے وابستہ ان شخصیات کے سیاسی سفر سے واقف نہیں تھا جو مارشل لاء لگنے کے بعد ضیاء الحق کے مظالم اور اس کے اقدامات کے خلاف ردعمل میں مسلح جدوجہد کی طرف چلے گئے اور انھوں نے پیپلز لبریشن آرمی اور الذوالفقار کو جوائن کرلیا۔مثال کے طور پر میں اگر اپنی بات کروں تو جنرل ضیاء الحق کے خلاف میریSource of inspirationکراچی کے کامریڈ امیر حیدر کاظمی اور ان کے زیر اثر ساتھی تھے جن میں ایک بڑا نام مسرور احسن صاحب کا تھا میں میٹرک اور ایف ایس سی تک کے زمانے میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی سیکشن کوIdealiseکرتا رہا اور اس راستے کو بہترین راستہ سمجھتا رہا لیکن میرے خیالات میں جوہری تبدیلی اس وقت آئی جب میں نے گریجویشن کے زمانے میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک گروپ کے اسٹڈی سرکلز میں ABC of Marxismپڑھنا شروع کی، اور اس کی ابتداء میں نے اپنے استاد ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی مارکسزم پر بنیادی کتب کے  مطالعہ سے  شروع کیا ۔ اس دوران میرے خیالات میں سب سے بڑی تبدیلی لینن کی کتاب
“کیا کِیا جائے”،اور ان کی نرودنک ازم کے رَد پر تحریریں پڑھ کر آئی اور پھر بائیں بازو کا طفلانہ پن پڑھی۔ مجھے اس بات پر یقین ہوگیا کہ انفرادی دہشت گردی کا راستہ  حکمران طبقات کو طاقتور کرتا ہے اور یہ غیر مصالحتی جدوجہد کا متبادل نہیں ہوسکتا اور میں اس زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پُرامن سیاسی جدوجہد کے راستے آمریت کے خاتمے کی سیاسی جدوجہد کی افادیت کا قائل ہوگیا۔میرے لیے خورشید حسن میر، ڈاکٹر ذوالفقار ، حنیف رامے، ملک معراج خالد، راجہ انور اور ڈاکٹر جے اے رحیم و ڈاکٹر مبشر حسن جیسے منحرفین سچے انقلابیوں کی صف سے اس لیے خارج ہوگئے کہ انھوں نے کہیں نہ کہیں بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، مرتضٰی اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے اپنی تلخیوں پر غصے اور جذبات میں آکر رجعت پسند طبقات کی سب سے بڑی علامتوں فوجی ٹولے ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور ملاؤں کی لائن پکڑ لی۔

کیا راجا انور کے پاس اس بات کا کوئی جواز تھا کہ وہ پنجابی شاؤنزم پر مبنی لائن اختیار کرتے ، جنرل ضیاء کی سکھ پراکسی کی لائن کی تعریف کرتے اور نواز شریف کیمپ کا حصہ بنتے یا پھر مشرف کو ترقی پسند آمر کے طور پر پیش کرتے اور پرویز رشید کے راستے سے نواز شریف کی قربت اختیار کر لیتے اور لاہور و اسلام آباد میں عطاء الحق قاسمی ، عرفان صدیقی کے ساتھ بیٹھ جاتے ؟ کیا ان کو زیب دیتا تھا کہ وہ جنرل ضیاء کے ساتھ مفاہمت کے حامی غلام مصطفٰی جتوئی و کھر کی لائن کو درست قرار دیتے اور بھٹو کی پھانسی کا الزام بیگم نصرت بھٹو پر عائد کرتے ؟

کیا جے اے رحیم کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ اے ایچ برنی کے ہمرکاب ہوکر فرانس میں بیٹھ کر ضیاء الحق کے مارشل لاء کو ویلکم کرتے؟

کیا خورشید حسن میر کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کرتے جب کہ وہ اپنے تئیں حقیقی سوشلسٹ انقلاب لانے والی جماعت کے سربراہ تھے؟

کیا ملک معراج خالد کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ فاروق لغاری کی بنائی نگران کابینہ میں نگران وزیر اعظم بنتے؟

کیا ڈاکٹر مبشر حسن کے لیے اس بات کا جواز بنتا تھا کہ وہ اسٹبلشمنٹ اور نواز شریف کی اشیر باد سے بننے والی پی پی پی شہید بھٹو میں شامل ہوتے اور جنرل مشرف کے دور میں وہ نیب کے وکیل صفائی بنتے؟ اور بیگم نصرت بھٹو پر یہ الزام لگاتے کہ وہ جنرل ضیاع الحق سے پیسے لیکر ایم آر ڈی کی جڑیں کھوکھلی کر رہی تھیں اور وہ فرانس ضیاء الحق سے ڈیل کرکے گئی تھیں اور بے نظیر بھٹو کی لندن روانگی کو ضیاع الحق سے ڈیل کا نتیجہ بتلاتے؟

کیا معراج محمد خان کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ حمید گل کی سرپرستی میں شروع ہونے والے عمران پروجیکٹ میں حصہ دار بنتے اور تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری بن جاتے اور اپنے قریبی ساتھیوں بشمول احسن رشید مرحوم کو عمران خان کا بازو بنا دیتے؟ (ہمارے سینئر دوست لیاقت علی ایڈوکیٹ نے یاد دلایا کہ معراج محمد خان نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاع الحق کے مارشل لاء کا خیر مقدم کیا اور ان سے ملاقات بھی کی تھی )

وہ جو بھٹو خاندان پر عوام سے غداری کا الزام لگا رہے تھے خود اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ گئے اور رجعتی کیمپ کے ہتھیاروں سے پی پی پی پر حملہ آور ہوئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کی پی پی پی پر ساری ریڈیکل تنقید ان کی سمجھوتے بازیوں سے غیر موثر ہوگئی اور اس نے مجھ جیسے نوجوان کو یہ سمجھنے پر مجبور کیا کہ وہ خود اپنے انقلابی خیالات کا اپنے عمل سے مذاق اڑا رہے تھے۔
میں راجا انور کسی بہت بڑی دانشوری کی توقع نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی میں نے ان کی کتاب کو اس نکتہ نظر سے پڑھا تھا کہ وہ میرے سامنے بھٹو دور کی سیاسی معیشت پر بصیرت کے نئے در وا کرے گی ۔تحریر کا ایک اسلوب ہوا کرتا ہے جس میں آپ کسی کے تجزیے میں موجود Sweeping statementsکوNakedly exposedکرتے ہیں لیکن بالکل علمی انداز میں ناکہ پھوہڑ پن کے ساتھ –
راجہ انور ایک مقبول رائٹر ہیں ان کے قاری ہزاروں میں ہیں اور نوجوانوں کی ایک پرت ان سے متاثر ہے ہمیں ان کی باتوں پر جذباتی ردعمل نہیں دینا نہ ہیTrolling style
Adoptکرنا ہے۔ ہمیں آئینہ دکھانا ہے۔پاکستان میں آج محنت کش طبقات کی سیاست سرے سے غائب ہے اور اس سیاست کو واپس مرکزی دھارے کا حصہ بنانے کے لیے ایسے کُل وقتی پیشہ ور انقلابی سیاسی کارکنوں کی اشد ضرورت ہے جو محنت کش طبقے کے فلسفہ سیاست اور اس کے عملی اطلاق سے واقف ہوں اور وہ طالب علموں، شہری ورکنگ کلاس اور کسانوں میں کام کریں اور وہ درمیانے طبقے کی موقعہ پرستانہ عادات و رجحانات سے یکسر پاک ہوں اور کریئرسٹ نہ ہوں ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply