• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان تحریک انصاف کی نااہل حکومت اور پشاور کی جنگلہ بس۔۔۔عامر کاکازئی

پاکستان تحریک انصاف کی نااہل حکومت اور پشاور کی جنگلہ بس۔۔۔عامر کاکازئی

عمران خان کی جب 2013 کے الیکشن کے بعد پختون خوا  میں حکومت بنی تو دنیا بھر سے پاکستانی اور خاص کر پختونخوا  کے باشندے اس امید سے ہو گئے  کہ ہمیں ایک بہترین حکومت مل گئی ہے اور اب ہم بھی ایک ایڈوانس اور ترقی یافتہ ملک بن جائیں گے۔ اسی خبط میں تین انسانوں نے عمران خان سے رابطہ کیا کہ وہ ان کی مدد کریں گے اور پختونخوا  کو ایک بہترین ٹرانسپورٹ سسٹم بنانے میں مدد دیں گے۔

الطاف اکبر دُرانی،(ایکس سی او پشاور بی آر ٹی) ایک کینیڈین، جو پشاور انجینرنگ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں، انہوں نے یونیورسٹی آف نیو برنسوک کینیڈا سے ماسٹر کیا۔ وہ کینیڈا میں سیٹی آف کالگری کینیڈا ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ میں پروجیکٹ کوآرڈینیٹر تھے۔ پختونخوا  پاکستان کی محبت میں وہ کینیڈا کی جاب چھوڑ کر آئے۔ فیاض خان، (ایکس جی ایم پلانگ اینڈ کنسٹرکشن پشاور بی آر ٹی) پشاور انجینرنگ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں، انہوں نے یونیورسٹی آف اونٹاریو کینیڈا سے ماسٹر کیا۔منسٹری آف ٹرانسپورٹ البرٹا، کینیڈا میں جاب کی۔ پشاور آنے سے پہلے وہ قطر میں ایک کمپنی میں ریذیڈنٹ انجینئر تھے۔
محمد عمران خان (ایکس جنرل مینیجر پشاور بی آر  ٹی) انہوں نے اربن پلانگ اور ٹرانسپورٹیشن میں  کوریا سے ماسٹر کیا۔ پشاور آنے سے پہلے انہوں نے لاہور، ملتان اور پنڈی کی میٹرو بس کو مکمل کیا۔ انہوں نے لاہور اورنج ٹرین کے پروجیکٹ میں بھی کام کیا۔

اس ٹیم نے 2013 سے کام شروع کیا۔ سیڈا کی کمپنی نے ایک ہی سال میں ڈیزائن مکمل کیا۔ یہ پروجیکٹ اصل میں دبئی کی میٹرو کی طرز پر تھا۔ یو ایس ایڈ کی مدد سے سیڈا نے یہ ڈیزائین مکمل کیا۔ سارا پیسہ پختونخوا  کی حکومت نے اپنے وسائل سے  لگانا  تھا ۔ یہ تین سال کا پروجیکٹ تھا۔ مگر ہوا کیا؟ عمران خان نے خلائی  مخلوق کے کہنے پر پہلا دھرنا اس کے خلاف دیا جس کے پیسے سے پختونخوا  کی ترقی ہونی تھی۔ یعنی نیٹو کنٹینرز کے خلاف۔ اور پھر عمران خان دھرنے کی پالیٹکس میں ایسا پڑا کہ پختونخوا  کی ترقی پیچھے رہ گئی ، اجتجاج اور دھرنے آگے آ گئے۔

2017 میں جب عمران خان اور چیف منسٹرخٹک کو ہوش آیا کہ کچھ کیا نہیں اور الیکشن سر پر ہیں مگر اب لیٹ ہو چکا تھا۔ کافی جلدی میں پورا ڈیزائن تبدیل ہوا اور میٹرو کی جگہ جنگلہ بس نے لے لی۔ مارچ 2017 کو ٹوٹل کوسٹ41 بلین روپے فائنل ہوئی  اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے قرضہ لینے کا فیصلہ ہوا۔

اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کیا گیا۔ اور اس مقصد کے لیے پختونخوا  کے بڑوں نے خاص طور پر اپنے ایک رشتہ دار کو ایک دوسرے صوبے سے امپورٹ کیا۔ جو کہ پہلے سے ہی کرپشن میں بدنام تھا۔ (یہ صاحب اب تبدیل ہو چکے ہیں)

اکتوبر 2017 سے کام شروع ہوا، چونکہ ڈیزائن بار بار تبدیل ہوا اس لیے بنیادی چیزوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس لیے ہر جگہ ان کو مشکلات پیش آئیں اور ڈیزائن تبدیل ہوتا گیا۔ تقریباً  نو بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ جس سے پورے پروجیکٹ کی شکل ہی تبدیل ہو گئی ۔ ان تبدیلیوں سے پروجیکٹ کی کاسٹ میں بھی 2.5 بلین روپے کا اضافہ ہوا۔
4مئی2018 کو اچانک چیف منسٹر خٹک نے سی ای او بی آر  ٹی پشاور الطاف دُرانی کو ان کی پوسٹ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ وجہ یہ بتائی  گئی  کہ وقت کے اوپر  پروجیکٹ مکمل کیوں نہیں ہوا؟ اجتجاجاً فیاض خان اور محمد عمران بھی مستعفی ہو گئے۔

اب ہٹانے کی اصل وجہ کیا تھی؟ ہوا کچھ یوں کہ چیف منسٹرخٹک صاحب نے فیصلہ کیا کہ ہرحالت میں اپنی حکومت کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اس پروجیکٹ کا افتتاح کرنا ہے، جو کہ ڈیزائن کے بار بار تبدیل ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں تھا۔ خٹک صاحب نے الطاف درانی پر زور دیا کہ چین سے بسیں بائی  روڈ چلا کر فوراً  لائی  جائیں۔ الطاف درانی صاحب نے کہا چونکہ ابھی ان بسوں کو سٹور کرنے کا انفرا سٹرکچر مکمل نہیں اور چلا کر لانے سے ان بسوں کی دو سال کی وارنٹی بھی ختم ہو جائے  گی۔ اس سے حکومت کو تیس ہزار یو ایس ڈالر ایک بس کے اوپر مزید خرچہ کرنا پڑے گا۔ 299 بسوں کا اضافی خرچہ تقریباٗ دس کروڑ پچاس لاکھ پڑے گا۔ اس کے بعد خٹک صاحب نےکہا کہ جو بسیں پنک پروجیکٹ کے تحت ایبٹ آباد اور مردان کے لیے منگوانی ہیں، ان کو خرید کر ان ہی سے افتتاح کر لیتے ہیں۔ درانی نے انکار کرتے ہوئے  کہا کہ پنک بس پروجیکٹ کی تو ابھی فنڈنگ بھی نہیں ہوئی ۔ ان بسوں کو اس روٹ پر چلانا غیر قانونی ہے اور یہ بسیں ان روٹس کے لیے نہیں بنیں ۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ حکومت اس منصوبے میں سیاسی مداخلت کر رہی ہے. انہوں نے منصوبے کی تکمیل کے لیے غیر منصفانہ اور غیرحقیقی تاریخیں مقرر کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔

دوسری طرف محمد عمران ، (ایکس جی ایم پشاور بی آر ٹی) نے بھی کہا ہے کہ اگر ابھی بسیں منگوا لی جاتی تو یہ منصوبہ ناکام ہو جاتا۔ اور حکومت کو بدترین نقصان ہوتا۔ اپنے استعفے میں کہا کہ میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ میں قانون کی خلاف ورزی کروں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کی وجہ سے پچاس بلین کا نقصان ہو گا۔ یہ پروجیکٹ اب ساٹھ ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔

اب اس جنگلہ بس کا کیا مستقبل ہے اور پشاور کے لوگوں پر سے یہ مصیبت کب ختم ہو گی؟

یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کیا آئندہ کوئی نوجوان اس ملک کی خاطر واپس آۓ گا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ پشاور جنگلا بس پروجیکٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک بہت ہی نکمی اور نااہل حکومت ہے جس کو اگلے الیکشن میں زبردستی پاکستان اور پنجاب کی حکومت دینے کا منصوبہ ہے.اب یہ نکمے پاکستان اور پنجاب کا کیا حشر کریں گے؟ اس بات کا پتا تو اگلے پانچ سال کے بعد ہی چلے گا.
South East England Development Agency (SEEDA)

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply