ہیرا منڈی /عامر رائے

اپریل 1995 کی بات ہے بندہ ناچیز کو بی۔اے کے امتحان کی خاطر لاہور میں اک دوست کے ہاں ٹھہرنا تھا ۔اس نے مجھے بادشاہی مسجد آنے کا پیغام بھیجا تو دوسرے دن ہی میں وہاں جا پہنچا ۔وہ صاحب مجھے بادشاہی مسجد سے ملحقہ علما  اکیڈمی جو کسی زمانے میں قید خانہ تھا وہاں لے گیا ۔یہ جگہ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے درمیان میں بارہ دری کے جنوب میں شاہی محلہ کی طرف کھلنے والے دروازے کے ساتھ ہے ۔پرانی عمارت ہونے کی وجہ سے بیسمنٹ بن چکی تھی ۔خیر وہیں  پہ وہ دوست بھی دینی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے۔میں اپنی عادت کے مطابق اور قدرے تجسس کی خاطر روزانہ عصر کے بعد وہاں سے نکلتا اور شاہی محلہ کے بڑے بازار اور اس سے ملحقہ گلیوں میں گم ہو جاتا ۔کئی بیوپاری جنہیں آپ دلال کہہ سکتے ہیں رستے میں ملتے لیکن مجھے نہ جانے کیوں کسی نے بالا خانے کی دعوت نہ دی ،جبکہ وہ ہر آنے جانے والے  سے سودا کر رہے  ہوتے ۔ان کی اس حرکت پر مجھے غصہ بھی آیا لیکن جلد سمجھ گیا کہ یہ لوگ نظروں سے بندے کی جیب ٹٹول کے سودا کرتے ہیں۔میں ٹوٹی پھوٹی گلیوں ،بالکونیوں اور بالاخانوں کو دیکھ کر واپس آ جاتا ۔میرا مقصد کچھ اور تھا۔

المختصر چند دن بعد جب میں نماز کے بعد بارہ دری کے پاس سے گزرا تو وہاں چار پانچ خواتین کو دیکھا جو اپنے لباس اور انداز و اطوار سے شاہی محلہ کی لگ رہیں تھیں ۔گھاس پر بیٹھی تھیں ۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے قریب بیٹھ گیا ۔چند لمحات ہی گزرے ہونگے تو ان میں سے ایک نے مجھے اشارہ کیا کہ صاحب کیا ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہو، کچھ کہنا ہے تو قریب آ کے بیٹھ جاؤ ۔میں شرماتے ہوئے قریب جا بیٹھا ۔ان میں ایک عورت جس کی عمر پچاس کے قریب ہو گی ،کہنے لگی برخوردار آپ کو کیا چاہیے ۔میں نے کہا آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔وہ سب کھلکھلا کر ہنسنے لگیں  اور گویا ہوئیں  کہ نوجوان آپ کو پتا ہے ہم کون ہیں ؟میں نے کہا میں جانتا ہوں ،اس نے کہا پھر یہ جانتے ہو گے کہ ہمارے ہاں ہر چیز کے دام لگتے ہیں، کسی دن ہمارے بالاخانے میں تشریف لانا ،جہاں ہم صرف سستانے کے لیے بیٹھتے ہیں، اور ویسے بھی مسجد کے سامنے بیٹھ کر ہم آپ سے کیا سودے بازی کریں گے ۔میں نے جلدبازی میں اتنا کہا کہ میں بازار حسن کے عروج و زوال کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ۔وہ حیران ہو کر کہنے لگی کہ کیا تم نے عروج کے بارے میں نہیں پڑھ رکھا اور زوال ہمارے چہروں سے نظر نہیں آ رہا تمہیں؟

میں نے اک نظر دیکھ کر نظریں جھکا کر کہا۔۔ کہ مجھے سامنے شاہی محل کے اجڑنے کا اتنا دکھ نہیں جتنا شاہی محلے کا ۔میری بات سے متاثر ہو کر اس نے مجھے پرچی نما ٹوکن جس پر ان کے خواب گاہ کا پتہ تحریر تھا ،تھما دیا اور کہا  فی الحال تم جاؤ اور جب وقت ملے رات بارہ بجے سے پہلے کسی وقت بھی آ جانا ۔میں اکیڈمی آ گیا اور اسی رات کھانے کے بعد دوست سے کہا کہ مجھے بازار حسن جانا ہے ۔وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگا اور صاف منع کر دیا ۔میرے بھرپور اصرار پر اس نے کہا کہ جب سب دوست سو جائیں گے تو تمہیں نکال دونگا ۔رات گیارہ بجے کے قریب مجھے اس نے چھ فٹ چوڑی دیوار میں بنے خفیہ سوراخ سے نکالا اور آگے میں دیوار سے کود کر محلہ کہ طرف نکل گیا ۔عجیب یہ کہ مجھے ذرا بھی عجیب نہ لگا ۔

خیر دروازے پہ جا پہنچا تو اک ہٹا کٹا بندہ کھڑا تھا جسے میں  نے ٹوکن پکڑایا اور اوپر چلا گیا ۔۔بظاہر خستہ حال عمارت اوپر سے محل نما نظر آئی ۔ موٹے دبیز پردوں اور پرانی طرز کے قالینوں سے مزین خواب گاہ اک عجب نظارہ پیش کر رہی تھی ۔میری آنکھوں کے سامنے فلموں میں دیکھے گئے طوائفوں کے کوٹھوں کے مناظر گھوم گئے ۔خیر انہی میں سے ایک لڑکی نے میرا استقبال کیا اور مجھے کہا کہ کچھ مہمان ہیں تم ساتھ والے کمرے میں بیٹھو ۔اور میرے لیے شربت بنا کر لے آئی ۔کچھ دیر بعد وہی عمر رسیدہ عورت نے مجھے بلایا اور نیچے قالین پر ہی پاس بٹھا لیا ۔مجھے کھانے کا پوچھا لیکن میں نے منع کر دیا ۔میں نے درخواست کی کہ مجھے  اوپر والے سارے کمرے  اور بالاخانے    دکھا دیجیے ۔۔درخواست   انہوں نے قبول فرمائی ۔اس دوران کئی بار میری آنکھیں اشک بار ہوئیں ۔مجھ سے پوچھا گیا کہ صاحب ایسا کیوں لوگ تو جہاں سکون و راحت کے لیے آتے ہیں آپ رو رہے ہو؟

میں نے کہا مجھے ان بالاخانوں  کی شکستگی اور ان میں دبی سسکیوں اور آہوں نے رلا دیا ۔وہ عورت جس  کا نام غالباً نجمہ بیگم تھا، نے پوچھا کہ تم بھی شاید بازار حسن کے بارے کوئی کتاب لکھنا چاہ رہے ہو۔۔میں نے کہا ایسا ہرگز نہیں، مجھے ایسی ہر جگہ ہر مقام سے لگاؤ ہے ،جو  کسی زمانے میں آباد تھیں اور اب اُجڑ گئیں ۔بے شک لوگ یہاں پیاس بجھانے آتے ہیں لیکن میری پیاس اور بڑھ گئی ۔ان کھڑکیوں اور درو دیوار کی شکستگی ہزاروں داستانیں سمیٹے ہوئے ہیں ،جو نشتر بن کر شاید عمر بھر مجھے ہمیشہ  چبھتی  رہیں ۔وہ میری طرف حیرانگی سے دیکھ رہی تھیں ۔نجمہ بیگم نے مجھے ایسی ایسی داستانیں سنائیں  کہ لکھوں تو دفتر کے دفتر بھر جائیں ۔لیکن ہمت نہیں ہوئی ۔خیر وہاں سے رخصت کے وقت نجمہ بیگم نے بتایا کہ اب سب اجڑ چکا ہے ۔چند بدذوق صرف ہوس مٹانے یہاں آتے ہیں اور بیزاری کی انتہا ہے ۔میں نے باقی لڑکیوں سے بارہا کہا ہے کہ یہاں سے کہیں بھی چلی جاؤ لیکن وہ مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں ۔چاہتی ہوں جلدی موت آئے اور جان چھوٹے ۔مجھے رخصت کرتے وقت اس نے میرے سر پر پیار دیا اور کہا کہ اب دوبارہ یہاں  کبھی مت آنا ۔میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔بوجھل قدموں سے وہاں سے نکلا اور اسی رستے واپس اکیڈمی پہنچ گیا ۔دو تین دوست جاگ رہے تھے وہ مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے حالانکہ دینی تعلیم کے یہ طالب علم وی سی آر پہ ننگی فلم دیکھ رہے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس واقعے کو کم و بیش تیس برس ہو گئے ہیں اور آج مجھے سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ہیرا منڈی دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ساری کہانی نظروں کے سامنے گھوم گئی ۔صاحب اس قسم کے پروجیکٹس کے ماہر ہیں ۔بہت شاندار فلم ہے ،پکچرائزیشن سے لے کر میوزک اور گیٹ اپ اور لائیٹنگ سب کمال ۔ڈائیلاگ فلم بینوں کو جکڑ کے رکھتے ہیں ۔سب اداکاروں نے اچھی پرفارمنس دی ۔مجھے منیشا کوئرالہ کی اداکاری نے کافی متاثر کیا جو کہ امید نہیں کی جا رہی تھی ۔انجام جلدی میں ہُوا جو کہ ہر خوبصورت فلم کا ایسے ہی ہوتا ہے ،سنجے لیلا بھنسالی کچھ پاکستانی اداکاروں سے کام لینا چاہتے تھے لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا ۔ممکن ہے آپ کو تنقید کا بھی موقع ملے لیکن مجھے تو یہ فلم اک معیاری فلم لگی ۔۔آپ بھی ضرور دیکھیے گا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply