پاکستان کی چند باغی خواتین۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

پاکستان کی چند بہت باغی خواتین میں سے کشور ناہید اور عذرا عباس جب بھی ملیں انہوں نے پھر سے نام پوچھا۔ اس میں اچنبھا بھی نہیں کہ میں ملا تو پھر سے سالوں بعد ملا اور ان کے مستقل ملنے والوں میں اگر سینکڑوں نہیں تو درجنوں صحافی، ادیب اور اقرباء تو ہیں ہی مگر کل رات تو حد ہو گئی جب عذرا کی لکھی کتابوں, جو ان کے شوہر انور سن رائے نے تحفہ کی تھیں’ پر کچھ لکھنے سے پہلے عذرا نے مجھ سے پوچھا، ” میں آپ سے کہیں ملی ہوں کیا؟ ” میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ مجھ سے بلکہ میں آپ سے کئی بار مل چکا ہوں۔
ہوا یوں کہ میں نے نذیر لغاری سے کہا کہ اپنا ناول مجھے کسی کے ہاتھ بھجوا دو کیونکہ میں اتنی دور کورنگی میں بول ٹی وی کے دفتر نہیں پہنچ سکوں گا۔ اس نے فون کرکے کہا کہ ساڑھے پانچ بجے کے بعد میں خود دے جاؤں گا۔ کوئی سات بجے اس نے رابطہ کیا کہ میں نیچے منتظر ہوں۔ میں اسی طرح گھر میں پہنی ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں گھر کی چپل پہنے نیچے پہنچا۔ شکر الحمد لله لغاری اب خوشحال ہو چکا ہے۔ سوزوکی ایف ایکس کی جگہ جس پر وہ مجھے کراچی میں سارا دن گھماتا تھا، کم از کم ایک دن تو ضرور, وہ ایک بہت بڑی, شوفر ڈریون گاڑی کے باہر کھڑا تھا۔ ہاتھ ملاتے ہی کہا، بیٹھو گاڑی میں، انور کی طرف چلتے ہیں۔
انور کے بھی ماشااللہ دن پھر چکے ہیں۔ بقول لغاری کے کہ بھئی گھر میں “چھیائٹھ” ملازم رکھے ہیں اگرچہ ہیں پانچ سات۔۔۔۔ خیر انور نے کہا، چاہتے ہو تو عذرا کی کتابیں لا دوں۔ چاہتے ہو کیا مطلب،؟چاہییں! میں نے کہا۔ وہ ہم دونوں کے لیے دو کتابوں کا ایک ایک سیٹ لے آیا۔ پھر ملازمہ کے ساتھ عذرا بھی پہنچ گئیں۔ عذرا لغاری سے دیر سے ملنے پر, چونکہ اب لغاری بے حد مصروف ہو گیا ہے، بمشکل ملتا ہے، مصنوعی ناراضی ظاہر کرکے سامنے صوفہ پہ بیٹھ گئیں۔
نذیر نے ان کی کتابیں انہیں پکڑا دیں اور قلم دے دیا تاکہ کچھ لکھ دیں۔ جب لکھ چکیں تو میں ان کی کتابیں ہاتھ میں لیے اٹھا اور عرض کی، ” اگر دشواری نہ ہو تو ان پر بھی خامہ فرسائی کر دیں۔ جب وہ مجھ سے ملنے سے متعلق پوچھ کر کچھ لکھنے لگیں تو نذیر نے متحیر نگاہوں سے وہ جگہ کھول کر جہاں عذرا نے کچھ لکھا تھا، کتاب مجھے پکڑائی اور تذبذب کے عالم میں مجھ سے پوچھا کہ کچھ پڑھ سکتے ہو، مجھ سے تو پڑھا نہیں گیا۔ لکھا پڑھ کے میرا قہقہہ چھوٹ گیا اور میں ڈر بھی گیا کہ عذرا ناراض نہ ہو جائیں۔ نذیر لغاری کی بجائے، عزیر نگا لکھا تھا۔
ایک تو عینک نہیں تھی ان کے پاس دوسرے جب سے انہوں نے لندن سے نئے دھاتی گھٹنوں کے جوڑ لگوائے ہیں تو بقول ان کے ادویہ کے سبب ان کی یاداشت متاثر ہو گئی ہے۔ جب میں نے قہقہہ روک کر جو لکھا تھا، پڑھ کے سنایا تو انور فورا”سامنے کے صوفہ سے اٹھ کر ان کے پاس جا بیٹھا، اپنی عینک انہیں پہنائی اور کہا، مجاہد مرزا ہی لکھنا کچھ اور نہ لکھنا۔
میں نے نذیر سے کہا، یار یہ دور ہم پہ بھی آنا ہے۔ کہنے لگا، ہاں بس آنے والا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ ایلزہائمر یعنی نسیاں کے کچھ مریض، یہاں تک کہ سانس لینا بھول جاتے ہیں اور دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ نذیر نے خائف ہو کر اچھا کو لمبا کرکے کہا اور ہم تصویر بنانے کے بعد اجازت لے کر جانے کو نکل پڑے۔
گھر آ کے میں نے عذرا کے نثری مجموعہ ” گلیارے” کا آخری حصہ پڑھنا شروع کیا اور رات دیر گئے تک پڑھتا چلا گیا اگرچہ یہاں سات سوا سات صبح ویسے ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ میں عذرا کا اچھا شاعر ہونا تو جانتا تھا مگر وہ نثر بھی کیا خوب لکھا کیں، مجھ پر یہ رات منکشف ہوا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply