بینکنک اور بینکرز ۔۔۔ محمد جان شیر خان

یوں تو ہمارے معاشرے میں بینکرز کو کافی باعزت سمجھا اور مانا جاتا ہے، روزانہ سویرے جانا اور واپس دیر سے گھر کو لوٹنا معمولبن چکا ہے۔ معاشرے میں ایسے شخص کو کافی کام کا بندہ سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی فارغ مارا مارا پھرتا ہے اسے حقارت کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں بھئی یہ بندہ فارغ ہے، لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے۔

بینکرز کیونکہ صبح سویرے خوبصورت ملبوسات میں، بال اچھے طرز سے کنگھی کیے ہوئے کہ جیسے ابھی حجام سے تراشے ہوں، ایکہاتھ میں موبائل فون اور دوسرے میں گاڑی کی چابی، گاڑی ایسی صاف جیسے گرد سے کوئی قرب ہی نہ ہو۔ 30: 8 تک اپنی منزل تکرسائی کرنی ہوتی ہے علاوہ ازیں بے عزتی نصیب رہتی ہے۔

ان انسان، انسان ہے، اگر کسی وجہ سے مثلاً ٹریفک کی وجہ سے یا کسی بھی گھریلو وجہ سے 9 بج جاتے ہیں تو قیامت برپا ہو جاتیہے اور لیٹ مارک کر دیا جاتا ہے جس سے سالانہ اپریزل اثرانداز ہوتی ہے۔ پہنچتے ہی صبح کے مسائل الگ ہوتے ہیں جس میںحاضری، تلاوتِ کلامِ پاک اور پراڈکٹ کے بارے میں بتایا کم اور پوچھا زیادہ جاتا ہے۔ بڑے صاحب سر تا پا بغور معائنہ کیے دیتےہیں۔ کسی بھی وجہ سے کوئی بھی چیز ناگوار لگے توبے عزتی نصیب بن جاتی ہے۔

سارا دن جی سر، یس سر، اوکے سر میں گرز جاتا ہے۔ دن کیسے گزرا رات کیسے ڈھلی جمِ غفیر کی وجہ سے بے خبر رہے۔ اچھا جی.! کچھ حضرات گھروں سے لڑ جھگڑ کر نکلے ہوئے تو کچھ کے مزاج میں تُرشی۔ قطار در قطارلوگ آتے جاتے ہیں سارا دن ایک ہلچلمچی رہتی ہے لیکن مجھے بحیثیت بینکر ہر ایک سے خوشی سے اور مُسکرا کر ملنا ہے، کیونکہ میں انسان نہیں بلکہ انسان کی شکل میں وہمداری ہوں جو کہ نہ کبھی تھکتا نہ ہی مرجھاتا ہے۔ گویا اگر میں ایسا کرنے سے رہا تو میرے خلاف تادیبی کاروائی ہوگی۔ وارننگ لیٹربھی جاری کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں کشٹمرز کو یہ بتایا گیا ہے کہ ”customers are always right”۔ اس نے بالخصوص بینکرز کی زندگی اجیرن کر رکھیہے۔ ارے بھائی یہ جو صبح 9 بجے سے رات گئے تک بیٹھا رہتا ہے اور لوگوں کی خدمت کرکے کماتا ہے ایک انسان ہے کوئیجانور نہیں جو دن بھر حکامِ بالا کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سنتارہتا ہے اور کسٹمرز حضرات کی گالی گلوچ بھی۔ بینک میں آنے کا وقت تومقرر ہے لیکن جانے کا اللّہ ہی مالک ہے۔ آنے میں پابندیِ وقت کا بھر پور اہتمام لیکن جانے کا کبھی کسی نے پوچھا تک نہیں۔

اب آتے ہیں بینکنگ میں ترقی کا معیار کیسے پرکھا جاتا ہے۔ محض اقرباپروری! یا وہ لوگ کامیاب ہیں جو حکامِ بالا کے بہت قریبہوں ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں دسترس رکھتے ہوں، برانچز کی خفیہ معلومات فراہم کرتے ہوں، ان کو کھانوں پر مدعو کرتے ہوں،ان کے گھر اور باہر کام دھندے کرتے ہوں، ان کی شاہ خرچیوں میں مثبت کردار ادا کرتے ہوں یا پھر کسی کا ماموں، چچا وغیرہسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کسی اعلی عہدے پر مامور ہو تاکہ بوقتِ ضرورت کسی بھی مسلے سے چھٹکارہ پایا جاسکے اور داد طلبکرسکے۔ سٹیٹ بینک کے علاوہ اگر کسی کا تعلق ہیڈ آفس میں ہو یا وہاں وقت گزار کر آیا ہو وہ بھی کافی ترقی کے معیار پر پورا اترتاہے۔ ایسے لوگ سالانہ بونس کے بھی حقدار ہوتے ہیں اور ترقی بھی ان کا مقدر بنتی ہے۔

ان اداروں سب سے انوکھی بات جو دل کو کوچہِ جاناں سے لےکر انسان کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرتی ہے وہ یہ کے کامکام اور صرف کام آخر کب تک کام؟ اور وہ بھی صرف میں ہی آخر کیوں؟ معیار ملاحظہ ہو، جو حضرات اعلی حکام کے حکم کے کچھزیادہ پابند ہوں ان کو سائیڈ برانچز پر تعینات کر دیا جاتا ہے تاکہ کام بھی ہلکا رہے اور کسی دشواری کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ جولوگ میری طرح زبان سے سخت ہوں اور حکام کی بے جا گرج برس کی پرواہ نہیں کرتے تو بدتمیز نان سیریس اٹیٹیوڈ والے کہلاتےہیں۔ ہم جیسے لوگوں کو ایسی جگہ نصیب رہتی ہے کہ زندگی اجیرن ہوتی ہے۔ روزانہ زندگی اور موت کی کشمکش سے دو چار رہنا پڑتاہے۔ اکثر اوقات ذہنی دباؤ کی وجہ سے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مطلب یہ کہ ماہانہ تنخواہ کا کچھ حصہ اس میں صرف ہو جاتاہے کہ اگر جمِ غفیر کی مد میں آکر کوئی غلطی سرزرد ہو جائے تو یہ ذمہ بھی مالک کے کرم سے مجھے ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ خدارا اس قلیلتنخواہ میں گھر کا اناج پورا کریں، بیوی بچوں کا کپڑا پورا کرے یا دفتر مین خوش لباس ہو کر جائیں؟ کیونکہ میں یہ سب اتنی کم آمدنی میںنہیں برداشت کر سکتا کہ ہر دفعہ افسران کی آمد کے لیے نت نئے کپڑے خرید کر پہن سکوں۔ وہ دن دیکھنے والا ہوتا ہے کہ جب خبرملتی ہے کہ افسران دورے پر نکل چکے ہیں تو پورے خطے پر بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ اس دن صفائی بھی کمال کی ہوتی ہے اور سب کچھایک تسلسل کے ساتھ ہونے لگتا ہے۔ لذیز اور عمدہ کھانوں سے ان کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور چائے کے ساتھ بھی عمدہ اشیائےخورد و نوش سے خیر مقدم کیا جاتا ہے۔

آدمی سے ڈرتے ہو

آدمی سے کیا ڈرنا

آدمی تو تم بھی ہو

آدمی تو میں بھی ہوں

بہرحال یہ تو تھیں اخراجات کی باتیں۔ اب آتے ہیں حکام کے قرب میں رہنے والی ہستیاں جو اپنی زیر سرپرستی مجھ جیسے یا نچلے طبقےکے لوگوں کو جس طرح سے ڈراتے دھمکاتے ہیں، جو کام تو کسی اور برانچ میں کرتے ہیں لیکن انہیں خدمات یہاں سے فراہم کیجاتی ہیں وہ بھی بینکنگ کے اوقات کے بعد۔ کیوں میں انسان نہیں؟ کیا میرا گھر نہیں؟ کیا میں اپنے گھر میں چند لمحے اپنے احبابکے ساتھ نہیں گزار سکتا؟ رہی بات ہفتہ اور اتوار کی تو ہر وقت یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ ابھی کال آئے گی کہ اے ٹی ایم خراب ہےاور اس کو درست کرنے برانچ جاؤ۔

آخر میں ان تمام باتوں کا لُبِ لباب نکالتے ہیں۔ بینکنگ میں بینکر کی زندگی ہر وقت داؤ پر رہتی ہے۔ اس کی نوکری اور عزت کاپامال ہونا ایسا ہے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ تقریباً ہر تیسرا بینکر بیشتر بیماریوں میں مبتلا ہے جس میں امراضِ قلب اور ڈپریشن عروجپر ہیں۔ نچلے درجے کے بینکر کی نہ ہی کوئی عزت ہوتی ہے نہ ہی کچھ اہمیت۔ فقط بھیڑ بکریوں جیسے گھیسٹا جاتا ہے۔ اس کو محضزلیل کیا جاتا ہے جیسے اس کی رسوائی پر کوئی رنج کا اظہار ہی نہیں بنتا۔

افسرانِ بالا کے لیے میرے پاس کہنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں بس اتنا ضرور کہوں گا کہ۔۔

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے

Advertisements
julia rana solicitors london

کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply