وہ امن وہ چمن کا نظارہ۔۔۔عثمان افسر

کئی سال  بعد ایک ایسے دھماکے کی آواز دنیا کی سماعتوں کی نذر ہوئی جس نے ایک لمبے عرصے بعد عالمی دنیا کی توجہ کشمیر گھاٹی کی طرف مبذول کروائی مگر انداز ذرا مختلف تھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ  ہلاک ہونے والے ریاست جموں کشمیر کے عام باشندے نہیں تھے  ورنہ وہ تو روزانہ کی بنیاد پر یاتو قتل ہوتے یا اندھے ہوتے رہتے ہیں اس لیے عام سی بات ہے ۔حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی ایک کالعدم قرار دی گئی تنظیم ہے ۔ ہر کسی نے اپنی نظر سے اس واقعے کو دیکھا دہشتگردی ،جہاد،حریت پسندی کسی نا کسی سے یکدم جوڑ دیا ۔ دنیا کے مختلف ممالک کی مختلف نامی گرامی شخصیات نے اپنے اپنے ردِ عمل کا اظہار سماجی رابطے کی  مختلف ویب سائٹس   اور مختلف ذرائع ابلاغ پر کیا وہیں پہ پاکستان کی سیاسی و سماجی شخصیات کا بھی بھرپور ردِعمل دکھائی دیا ۔سینیٹر شیری رحمان نے ٹیوٹر پر لکھا کہ یہ حملہ بہت تکلیف دہ ہے اور ایسی  دہشتگردانہ کاروائیوں کی مذمت کرتے ہیں مگر یہ لکھتے وقت وہ یہ بھول بیٹھی  کہ ان نوجوانوں کو اس طرح کی دہشتگردی کی طرف لگانے  میں ان کا بھرپور کردار رہا ہے اپنی انا کی تسکین اور پراکسی وار کے لیے اس آگ کا ایندھن جموں کشمیر کے نوجوانوں کو آپ نے ہی بنایا ۔ اسی طرح ایک طبقہ جہاد اور سازش کے بیچ پھنسا رہا پہلے مرحلے میں اس حملے کو خوب خوشی اور عقیدت سے دیکھا خودکش حملہ آور کو بہترین الفاظ سے نواز ا۔اس حملے کی مختلف وجوہات اپنی اپنی دانست کے مطابق پیش کیں  کسی نے یہ کہا کہ مجاہدین نے انڈین آرمی سے تین چار دن پہلے کپواڑہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا بدلہ لیا ہے اور یہ وہ مجاہدین ہیں جن کے اوپر خود اسلامی جمہوریہ پاکستان پابندی عائد کرچکا ہے مگر جموں کشمیر میں نوجوان نسل کو گمراہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں مگر کچھ دماغ یہ بات قبول کرنے کے اہل نہیں  ۔اس سارے واقعے کا بدلہ بھی کشمیر کی عوام نے اپنے خون سے چکانا ہے ابھی جب میں بیٹھا یہ الفاظ لکھ رہا ہوں اس وقت انڈیا کے مختلف شہروں میں زیرِ تعلیم کشمیری طلبا و طالبات انتہا پسند ہندووں کے مسلح جتھوں سے بچنے کے لیے ہاسٹلوں میں محصور کسی مدد کے منتظر ہیں ۔حملہ کرنے والوں نے حملہ تو کردیا مگر ساتھ ہی کئی انسانی جانوں کو داؤ  پر لگا دیا ہے صرف یہی نہیں جلاؤ  گھیراؤ  کا عمل کل سے جاری ہے ۔ دوسرے مرحلے میں پھر اسی طبقے کو یہ دھماکہ مودی سرکار کی سازش بھی نظر آیا کیونکہ ہندوستان میں الیکشن کا میلہ سجّنے کو ہے (جس کی مہم کا باقاعدہ آغاز آج نریندرہ مودی جی نے اپنے دو ریلیوں سے کردیا ہے )اور الیکشن جیتنے کے لیے مودی سرکار کو اس قسم کے واقعے کی سخت ضرورت تھی تاکہ ووٹ کے حصول کے لیے ہندوستانی عوام کی ہمدردی سمیٹی جا سکے اور دیکھا جائے تو حقیقت میں بھی اس خودکش حملے نے بی جے پی کی آمدہ الیکشن میں جیت پر مہر ثبت کردی ہے ۔

دوسری طرف ہندوستان کی عوام شدید غصے و رنج میں نظر آئی جو کہ ابھی تک ہے جس کا اظہار ہر خاص و عام ہندوستانی نے کیا ۔اکثریت کو اس حملے کا بدلہ پاکستان سے جتنے کم وقت میں ہو سکے چاہیے اور اس مطالبے کی شدت کو بڑھانے میں بعض ہندوستانی ٹی وی چینلز نے بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا صرف اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے۔ کسی بھی انسانی جان کا ضیاع قابلِ مذمت ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں اور کب تک چلے گا ؟ کب تک چند مفاد پرستوں کی خواہشات کی بھینٹ جموں کشمیر کا نوجوان چڑھتا رہے گا کب تک آگ و خون کے اس کھیل میں جنت نظیر وادی کے گلستاں اُجڑتے رہیں گے؟ ایک بات طے ہے کہ جب تک جموں کشمیر کا مسئلہ عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا ہندوستان اور پاکستان میں کبھی امن و خوشحالی نہیں آسکتی ۔اب عوام کی خواہش کیا ہے یہ دونوں اطراف سے کبھی جاننے کی شائد ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اگر دلچسپی رہی تو صرف اور صرف اس منقسم سرزمین کے وسائل میں انسانیت کی بنیاد پر کبھی اس تنازع کو حل کرنے کی سعی ہی نہیں کی گئی ۔ پاکستانی عوام کو دیکھا جائے (ایک مخصوص تعداد کو  چھوڑ کر)تو وہ جموں کشمیر کے حقِ خودارادیت کی حمایت کرتی ہے مگر اُس حقِ خودارادیت کی جو مطالعہ پاکستان میں لکھا ہے کبھی اگر کہیں کوئی  اس مشروط شدہ حقِ خودارادیت سے آگے نکل کر قومی آزادی کی بات چھیڑ دے تو اکثریت اپنی تمام تر توپوں کا رُخ اس کی جانب موڑ دیتی ہے جس کا اختتام غداری کے فتوی سے ہوتا ہوا نمک حرامی پہ ہوتا ہے اور اٹوٹ انگ کا تعویز گھول کر پی چکی   ہندوستانی عوام  کی اکثریت نے بھی کبھی جموں کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کیااس لیے ہمیشہ سے انکی نظر میں سارے جموں کشمیر کے باسی آتنک وادی اور نا قابلِ بھروسا رہے ہیں ۔ مگر حقائق کیا ہیں دونوں ملکوں کی عوام کو پہلے وہ سمجھنے ہوں گے جن ممالک کی اپنی عوام روٹی کو ترس رہی ہو کیا وہ کسی جنگ یا کھربوں ڈالرز کے دفاعی بجٹ کے متحمل ہوسکتے ہیں ؟ اگر ہیں تو کیوں؟ کبھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک کے دارالحکومت دہلی میں حکومتی ایوان سے چند قدم کے فاصلے پر آٹھ دن کی بھوک سے تین بچیاں سسک سسک کر کیوں مرتی ہیں ؟ کبھی کسی نے یہ غور کیا کہ تھر پارکر میں بھٹو تو زندہ مگر غریب بچے خوراک کی قلت کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر کیوں مررہے ہیں؟ نہیں سوچا مگر سب کوجموں کشمیر چاہیے ایک کو اکھنڈ بھارت کا منجن بیچ کر سرمایہ دار ٹولہ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے تو دوسرے کو لال قلعے پر سبز حلالی پرچم کے سپنے دکھا کر حقائق اور سچائی سے کوسوں دور لے جاتا ہے ۔ پاکستانی و ہندوستانی عوام کو پہلے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے ساتھ ستر برس سے ہو کیا رہا ہے کیسی آزادی ملی ہے انکو کہ آج بھی موت اور بھوک ننگا ناچ ناچ رہی ہے ۔ اس طرح کے واقعات ہندوستان  سے زیادہ پاکستان کے لیے نقصان دہ  ہے دیوالیہ ہوتی ہوئی معیشت ،سفارتی سطح پر اکیلا پڑتاہوا ملک جو ایک پاکستان کی عام عوام کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیلے گا جس کا خمیازہ بھگتنا شائد ممکن نا ہو پاکستانی عوام کو چاہیے کہ جذباتی نعروں اور مذہبی بلیک میلنگ سے ہٹ کر وہ ان تمام عناصر کو رد کرے جو اس بگاڑ   کا سبب بن رہے ہیں تاکہ ان کی آنے والی نسلیں امن و سکون کی فضا میں سانس لے سکیں ۔اور ہندوستانی عوام کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے مذہبی چونا لگاتے ہوئے  کبھی رام مندر  کی تعمیر کا وعدہ دے کر مخصوص ٹولہ ووٹ بینک بھی بناتا اور اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر اپنا آپ اور مفادات محفوظ رکھتا ہے تاکہ کسی کو یہ سوال کرنے کا موقع نا ملے کہ کسان کیوں خودکشی کرنے پر مجبور ہے  کیوں بے روزگاری کا عفریت بے قابو ہو رہا ہے  حالانکہ ایودھیا میں نا تو رام مندر تعمیر ہونابہے نا ہی بابری مسجد اگر ایک بھی بن گیا تو بی جے پی اور مجلس کی سیاست کا کیا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری بات ان کو یہ سمجھنی ہے کہ جموں کشمیر کا مسئلہ خالصتاً جموں کشمیر کی قومی آزادی و انسانی مسئلہ ہے نا کہ صرف زمین کے ایک ٹکڑے کا ہے ایک آزاد اور خوشحال جموں کشمیر ہی دونوں ممالک کے امن و سکون و خوشحالی کی ضمانت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply