محتاجی کی دستک۔۔گُل نوخیز اختر

رضوان مسلسل مجھے زچ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پچھلے مہینے میرے آفس کی ریوالونگ چیئر خراب ہوگئی۔میں سامنے بیٹھے بندے سے گفتگو میں مگن ہوتا اور میری کرسی آہستہ آہستہ نیچے جانی شروع ہوجاتی۔یوں میں بیٹھے بٹھائے سامنے والے کی نظروں سے تین انچ گر جاتا۔ ایک دن اتفاقاً رضوان میرے دفتر میں آیا تو میں پھر نیچے جانا شروع ہوگیا۔ میں نے غصے میں آکر کرسی کو دو تین ٹھڈے مارے اور نئی کرسی لینے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ رضوان نے مجھ سے پوچھا کہ پرانی کرسی کا کیا کریں گے؟ میں نے منہ بناکر کہا”پھینک دوں گا“۔ اُس نے جلدی سے کہا”پھینکنے کی بجائے مجھے دے دیں“۔ میں نے اسی وقت اسے کرسی گفٹ کردی۔ رضوان ڈیزائننگ کا کام کرتاہے اور نہایت منکسرالمزاج بندہ ہے۔ چار پانچ دن بعد میں یونہی اس کے دفتر چائے پینے چلا گیا۔ سامنے نظر پڑی تو رضوان ایک نئی ریوالونگ چیئر پر بیٹھ ہوا تھا۔میں نے چہک کر کہا”مبارک ہو کنجوس بھائی‘ آخرآپ نے نئی اور مہنگی کرسی خرید ہی لی“۔رضوان مسکرایا”نہیں جناب!یہ آپ والی ہی کرسی ہے میں نے تو صرف اس کا لیور ٹھیک کروایا ہے اور پوشش بدلوائی ہے“۔ میری آنکھیں پھیل گئیں۔ کم بخت میری ہی کرسی پر اکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لیے تو میرا دل چاہا کہ اسے دھکا دے کر اپنی کرسی واپس لے جاؤں لیکن دانت پیس کر خاموش رہا۔کچھ دنوں بعد میرے دفتر کا وال کلاک خراب ہوا تو میں نے وہ بھی بیکار سمجھ کر رضوان کو دے دیا‘ لیکن اس احسان فراموش انسان نے میرا پانچ ہزار کا کلاک محض دو سو روپے میں ٹھیک کروا کے اپنے دفتر میں سجا لیا اور میں خون کے گھونٹ پی کر ر ہ گیا۔میرا خراب فریج بھی اسی گھٹیا انسان نے ٹھیک کروا کے اپنے دفتر میں رکھاہوا ہے۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جو چیزیں پھینکنے والی ہوتی ہیں انہیں یہ کیسی نئی کروا لیتاہے۔ابھی کل میرے لیپ ٹاپ کے قیمتی بیگ کی زپ خراب ہوگئی تو میں نے آفس بوائے کو کہا کہ کل مجھے یاد دلانا‘ نیا بیگ لینا ہے۔ رضوان اُس وقت میرے آفس میں موجود تھا‘ چونک کربولا”پرانے بیگ کا کیا کریں گے؟؟“۔ میں نے گھور کر اسے دیکھا”پھینک دوں گا اور کیا کرنا ہے“۔ جلدی سے بولا”پھینکنے کی کیا ضرورت ہے‘ مجھے دے دیجئے گا“۔ میں نے کرسی پر پہلو بدلا اور آگے کو جھکتے ہوئے کہا”ٹھیک ہے‘ تم لے لینا لیکن میری ایک شرط ہے“۔رضوان کی آنکھوں میں حیرت اتر آئی”کیسی شرط؟؟؟“ میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیا”تم اسے کبھی ٹھیک نہیں کراؤ گے“۔
کبھی کبھی رضوان کو دیکھ کر مجھے رشک آتاہے۔ وہ ایسے ایسے کام کرلیتاہے جن کو سوچ کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔مثلاً اس کے دفتر کا بلب فیوز ہوجائے تو وہ نیا بلب خود لگا لیتاہے۔پانی کی ٹونٹی ٹپک رہی ہو توبولٹ خود کس لیتاہے۔ٹی وی کا سوئچ خراب ہوجائے تو خود ہی نیا سوئچ لگا کر تاریں جوڑ لیتاہے۔کسی میز کا کیل نکل آئے تو خود ہی ہتھوڑی پکڑ کر ٹھونک لیتاہے۔دروازوں کا رنگ اترنے لگے تو بازار سے پینٹ کا ڈبہ اور برش خرید کر خود ہی پینٹ کر لیتاہے۔صرف یہی نہیں بلکہ اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے کپڑے بھی خود استری کرلیتاہے اور یو پی ایس کی بیٹری کا پانی بھی خود ہی تبدیل کرلیتاہے۔ اللہ جانتا ہے اس کی یہ باتیں سن کر میں شدید احساس کمتری کا شکار ہوتا جارہا ہوں۔مجھے تو ریموٹ کے سیل بدلنے کے لیے بھی کسی کی مدد چاہیے ہوتی ہے کیونکہ آج تک نہیں سمجھ آسکا کہ ریموٹ میں سپرنگ والی سائڈ پر سیل کا کون سا حصہ رکھنا چاہیے۔گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوجائے تو ساتھ ہی میرے ہوش بھی اڑ جاتے ہیں لہذا کئی دفعہ پنکچر ٹائر کے ساتھ ہی گاڑی چلاتا ہوا کسی ٹائر شاپ پر پہنچتا ہوں اور تب تک پورا ٹائر بمعہ رِم جواب دے چکا ہوتاہے۔ میری ٹیبل کی دراز بند ہوتے وقت تھوڑی سی بھی اٹک جائے تو ایسی لات مارتا ہوں کہ وہ دوبارہ کھلنے کا نام ہی نہیں لیتی، مجبوراً کارپینٹر کو بلوانا پڑتاہے۔میں اکیلا ہی ایسا نہیں ہوں‘ دنیا میں بہت سے لوگ میری طرح کسی نہ کسی حوالے سے محتاج ہیں۔ہم چھوٹے چھوٹے کام کے لیے بھی مکینک ڈھونڈتے ہیں۔محتاجی کی مختلف قسمیں ہیں لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ ہر لحاظ سے محتاج ہوچکے ہیں۔ہم برتن اور کپڑے دھونے کے لیے ”ماسی“ کے محتاج ہیں۔باتھ روم کی صفائی کے لیے سوئیپر کے محتاج ہیں۔پودوں کے لیے مالی کے محتاج ہیں۔بچوں کی تعلیم کے لیے اکیڈمیوں کے محتاج ہیں۔خواتین گھروں میں کپڑے سینے کی بجائے درزیوں اور ڈیزائنروں کی محتاج ہوچکی ہیں۔واشنگ مشین کا پہیہ بھی بدلنا ہو تو ہمیں ”مستری“ درکار ہوتاہے۔موٹر کا پٹہ اتر جائے تو ہمیں پچاس روپے کا پٹہ ڈلوانے کے لیے دو سو روپے کا الیکٹریشن بلوانا پڑتاہے۔ہم تھوڑے سے اکھڑے ہوئے فرش پر سیمنٹ تک نہیں لگا سکتے کیونکہ آج تک پتا ہی نہیں کہ یہ کام کیسے کرتے ہیں۔ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ گھر میں مچھر وں سے بچاؤ والا سپرے کیسے کرتے ہیں۔ہم بوتل پکڑے ایک ایک مچھر پر ”شوں شوں“ کرتے رہتے ہیں اوریوں فی مچھر 20 روپے میں پڑتاہے۔یو پی ایس کی بیٹری کی چارجنگ کم رہ جائے تو یہ نہیں دیکھنا کہ ہم نے ایک سال سے پانی نہیں ڈالا، فوراً بیٹری تبدیل کروائی اور سُکھی ہوگئے۔چار پیسے آجائیں تو کاہلی اور سستی دیوار پھلانگ کر حملہ آور ہوتی ہیں اورپوری طرح محتاج بنا کر چھوڑتی ہیں۔پہلے یہ سارے کام ہم خود کرلیا کرتے تھے کیونکہ کوئی اور میسر نہیں ہوتا تھا- اب ہمیں محتاج بنانے والوں کی خدمات ہمہ وقت دستیاب ہیں لہذا آسانی ہوگئی ہے۔چیزوں کو مرمت کروانے کی عادتیں آہستہ آہستہ ہم سے چھوٹتی جارہی ہیں۔پہلے جب بلب فیوز ہوتا تھا تو ہم اُسے ہلا کر اس کی تار دوبارہ سے جوڑ لیا کرتے تھے، اب نیا بلب خریدنا آسان لگتا ہے۔انتظار کیجئے جب ہم دروازے کی کنڈی کو تیل دینے کے لیے بھی کوئی ماہربندہ ڈھونڈیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply