پریانتھا بالمقابل عشاق! بڑا گستاخ کون ؟۔۔اُسامہ شرافت

پریانتھا بالمقابل عشاق! بڑا گستاخ کون ؟۔۔اُسامہ شرافت/وہ گستاخی جس پر سری لنکن شہری کو جلاکر راکھ کردیا گیا اس سے بڑی بڑی گستاخیاں ہر برس یوم ِ ولادت مصطفیﷺ  پر ہمارے عشاق خود کرتے ہیں۔گلی محلوں کو سجانے کے نام پر بزور قوت راستہ روک کر نبیﷺ  کے حکم کی نافرمانی، بارہ ربیع الاوّل کی رات مغربی و ہندوستانی موسیقی کی دھن پر ناچنا کیا ادب ِ رسول ﷺ  کا تقاضا ہے؟  ایک  لمحے کو  ان اعمال کو گستاخی نہیں بے ادبی شمار کر لیتے ہیں۔
تیرہ ربیع الاوّل کی صبح بیدار ہوکر کبھی محلے  کے کوڑے دان کو دیکھیے، آپ کو بہت سی جھنڈیاں اور جھنڈے پڑے ملیں گے۔ جسن  پر قرآنی آیات نہیں تو نبی کریمﷺ  کے نام کا درود ضرور لکھا ہوا  دکھائی دے گا۔ کچرے کے ڈھیر میں ان جھنڈیوں کو کونسی گستاخ مخلوق پھینک کر جاتی ہے؟ اس کا جواب ضرور تلاش کیجیے گا۔

ربیع الاوّل اور محرم الحرام کے پینا فلیکسز کی اشاعت سے لے کر کھمبوں پر لٹکانے تک اور پھر مسلمان بلدیہ ملازمین جس طرح اشتہارات کو اتار پھینکتے ہیں کبھی اس مرحلے  کا بغور مشاہدہ کیجیے   گااور خود سے سوال ضرور پو چھیے  گا کہ یہ جرائم اس ہندو کے جرم سے چھوٹے تو نہیں، جو عربی زبان سے نابلد تھا۔۔

اسی صبح گلی میں جھاڑو دیتے خاکروب پر نظر ٹکائیے گا، عیسائی العقیدہ خاکروب جھاڑو لگانے کا آعاز زمین پر بکھری جھنڈیوں کو سمیٹ کر کسی اونچے مقام پر رکھنے سے کرے گا۔ البتہ یہ بات قابلِ  فکر ہے کہ وہ ملک جہاں بچہ بچہ عشق رسول ﷺ  کا  دعویدار  ہو ،اس سرزمین پر آخر کیسے محبوب کے نام کی جھنڈیاں بکھر جاتی ہیں، جس کو محبوب کے عاشق نہیں بلکہ کوئی اور سمیٹتا ہے؟

بہر کیف ہماری جانے انجانے میں ہونے والی ان بے ادبیوں کو اگر ان لوگوں کی نظر سے دیکھا جائے ، جنہیں اپنے علاوہ مخالف کے ہر عمل میں گستاخی کا پہلو نظر آجاتا ہے ،تو درج بالا گستاخیوں پر فقہ حنفی کی رو سے ارتداد (مرتد) کا حکم نافذ ہوتا ہے جس کی سزا حد ہے یعنی موت اور ذمی کے لئے احناف کے ہاں حکم تعزیر ہے یعنی قاضی کی صوابدید۔

ہم بھی نبی کریمﷺ  کے نام لیوا ہیں، خطا کار ہی سہی مگر اتنے بڑے گستاخ نہیں کہ ان کے نام پر اپنی معاشی و گھریلو پریشانیوں کی بھڑاس ایک ایسے شخص پر نکال دیں جس کی حفاظت کے متعلق آخرت میں ہم جوابدہ ہوں گے۔

فرمانِ رسول ﷺ  ہے،جس نے کسی ذمی کو ناحق قتل کیا، وہ جنت  کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا! حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس (40) سال کی راہ سے سونگھی جاسکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہندوستان ہو یا پاکستان مذہبی انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ معاشی بد حالی بھی ہے۔ غریب کے پاس لے دے کر آخری سہارا اس کا مذہب  بچتا ہے، جس کے متعلق وہ حسّاس رہتا ہے۔کمزور سے جب روٹی چھین کر اسے ایک ناکارہ نظامِ  انصاف کے سپرد کردیا جائے  تو وہ طاقت آنے پر ریاست سے بدلہ اس انداز میں لیتا ہے جس کا مظاہرہ ہم روز بروز بڑھتے پُرتشدد سیاسی و مذہبی  مظاہروں میں دیکھ رہے ہیں، پریانتھا کمار کے ساتھ ہونے والا ظلم اس کا ایک جزو ہے۔ اگر دونوں ممالک  کا غریب طبقہ خصوصاً مسجد و مندر میں بیٹھے طبقات کی معاشی فلاح کے لئے حکومتی سطح پر کاوشیں کریں تو اس انتہا پسندی میں خاطر خواہ کمی لائی  جا سکتی ہے۔ حکومت کو اس مقدمہ میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فساد فی الارض کے مرتکب تمام افراد کو انہی  کے  فقہ کی رو سے سزا دینی چاہیے اور معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ ایک طاقتور نظامِ  انصاف تشکیل دینا چاہیے ،جس کی دی  ہوئی سزا کا ڈر غریب سے لے کر امیر  تک ہر فرد اور جماعت کے دل میں  بیٹھ جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply