جغرافیہ کے قیدی (23) ۔ امریکہ ۔ بحرالکاہل میں/وہاراامباکر

کئی تجزیہ نگار ایسا سمجھتے ہیں کہ چین اگلے پچاس سال میں چین امریکہ سے آگے بڑھ جائے گا اور اس سے بڑی سپرپاور ہو گا لیکن اتنی جلد ایسا ہونا مشکل ہو گا۔ معاشی لحاظ سے چین ترقی کر رہا ہے اور امریکہ کے قریب جلد پہنچ سکتا ہے۔ اور یہ انہیں دنیا پر بہت اثرورسوخ دیتا ہے۔ لیکن ملٹری اور سٹریٹجی کے لحاظ سے چین ابھی دہائیاں پیچھے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کنکریٹ مہنگی ہے۔ اس کو مکس کر کے انڈیلنا نہیں بلکہ اپنی مرضی کی جگہ پر انڈیلنا۔ اپنی مرضی کی جگہوں پر بیس قائم کرنے کیلئے امریکہ کے لئے Destroyers for Bases معاہدہ اہم رہا تھا۔ معاشی اور عسکری مدد سے یہ اجازت خریدی جاتی ہے۔
اور اس کے علاوہ بھی ایک اور اضافی قیمت ہے۔
مثال کے طور پر واشنگٹن کی طرف سے سیریا میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر غم و غصہ دکھایا جائے گا لیکن اگر بحرین میں ہو تو غور سے سننا پڑے گا۔ اور آواز غم و غصے کے بجائے بحرین کی بندرگاہ پر پانچویں بحری بیڑے کے انجن کی آئے گی۔
لیکن دوسری طرف، یہ عسکری مدد یہ صلاحیت دیتی ہے کہ ایک حکومت (مثلا، برما) کو منع کرے کہ وہ دوسرے ملک (مثلا، چین) سے پینگیں نہ بڑھائے۔
برما میں تو امریکی کامیابی زیادہ نہیں لیکن جاپان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، سنگاپور، ملیشیا، انڈونیشیا میں چین کے خلاف بے چینی پائی جاتی ہے اور امریکی یہاں اثر بنا رہے ہیں۔
امریکہ کی حکومت میں خارجہ پالیسی کے کئی ماہرین ایسا سمجھتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی تاریخ ایشیا اور بحرالکاہل میں لکھی جائے گی۔ دنیا کی نصف آبادی یہاں رہتی ہے۔
اس وجہ سے امریکہ اپنا وقت اور پیسہ مشرقی ایشیا کی طرف زیادہ لے کر جائے گا۔ شمالی آسٹریلیا میں بننے والی نئی بیس اس کی مثال ہے۔ لیکن اصل اثر کے لئے اپنے اتحادیوں کو یہ تسلی دینے کی ضرورت بھی ہوتی ہے کہ اگر وقت آیا تو یہ مدد کو بھی پہنچے گا۔ مثلا، اگر جاپان کے کسی بحری جہاز پر چین کی طرف سے گولہ باری ہوتی ہے تو کیا امریکہ بحریہ کی طرف سے جوابی کارروائی ہو گی؟ اگر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے تو امریکہ کس حد تک جانے کو تیار ہو گا؟ یہ نازک توازن برقرار رکھنے والے فیصلے ہوتے ہیں۔
امریکہ اس خطے میں دکھانا چاہ رہا ہے کہ کسی ملک کے بہترین مفاد میں یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ رہے جبکہ چین اس کے مخالف کر رہا ہے۔ اور اگر کوئی ملک کسی چیلنج سے پیچھے ہٹ جائے تو یہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اتحادیوں کے اعتماد اور مخالف کے خوف پر ضرب لگے گی۔ اور یہ ممالک کو دوسری سائیڈ پر جانے کی تحریک دے گا۔
تجزیہ نگار اکثر لکھتے ہیں کہ کئی کلچرز میں تنازعے سے پیچھے ہٹ جانا آپ کی عزت کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ یہ صرف چند کلچرز کی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے اور اس کے بارے میں ہر زبان میں محاورے ہیں۔ “کسی کو ایک انچ جگہ دو تو وہ پورا میل لے لے گا”۔ یا روزویلٹ کا قول کہ “نرم زبان بولے لیکن ساتھ بڑا ڈنڈا اٹھا کر رکھو”۔
اس صدی کی خطرناک کھیل یہ ہو گی کہ چین، امریکہ اور دوسرے اس خطے میں کسی بحران سے کیسے نمٹیں گے۔ اور ایسے کہ اپنی عزت بھی برقرار رکھیں۔ اور دوسرے سے غصے اور حسد کے گہرے جذبات کو نہ بننے دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوویت یونین 1962 میں ایٹمی میزائل کیوبا تک لے آیا۔ دونوں ملک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔ یہ کیوبا کا میزائل بحران تھا جس میں سوویت یونین نے میزائل ہٹا لئے تھے اور دنیا سے ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا تھا۔ اس بحران کو عام طور پر امریکی فتح سمجھا جاتا ہے۔ جس بات کا علم کم لوگ رکھتے ہیں، وہ یہ کہ سوویت یونین نے اپنے میزائل کیوبا سے ہٹائے تھے اور امریکہ نے جوپیٹر میزائل ترکی سے ہٹا لئے تھے۔ (یہ میزائل ماسکو تک پہنچ سکتے تھے)۔ یہ فتح یا شکست نہیں بلکہ ایک سمجھوتہ تھا جس میں دونوں طرف کے ممالک اپنی عوام کو یہ کہانی بتا سکتی تھیں کہ وہ پیچھے نہیں ہٹے۔
اکیسویں صدی میں بحرالکاہل میں بھی عظیم طاقتوں کو ایسے سمجھوتوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بیجنگ نے Air Defence Identification Zone کا اعلان کر دیا جس کے مطابق ہوائی جہازوں کو اس سے گزرنے سے پہلے اطلاع دینا ضروری قرار پایا۔ امریکہ اس سے جان بوجھ کر بغیر اطلاع کے پرواز کرتا ہے۔ چین کو اس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس نے اس علاقے کو ایشو بنا دیا۔ جبکہ امریکہ کو یہ کہ اس نے چینی حکم کی خلاف ورزی کر کے دکھا دیا۔ یہ ایک لمبا کھیل ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply