سانحہ مری سیاست، سیاحت اور انسانی المیہ۔۔سیّد عمران علی شاہ

سانحہ مری سیاست، سیاحت اور انسانی المیہ۔۔سیّد عمران علی شاہ/ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر وقت کسی نہ کسی طرح کی بحرانی کیفیت کا سامنا رہتا ہے، تبدیلی سرکار کے دور میں تو یہ صورتحال بارہا دیکھنے کو ملی،پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کو ایک روشنی کی کرن ضرور دکھائی مگر وقت کے ساتھ ساتھ حکومت میں آنے کے بعد یو ٹرن پر یو ٹرن لے کر اس جماعت نے بھی ثابت کیا کہ یہ بھی ایک روایتی سیاسی جماعت ہے اور اس  کے دعوے اور وعدے بھی ایک عام سیاسی جماعت جیسے ہی ہیں۔

مہنگائی، بیروزگاری، معاشی بحران سے لے کر آئی ایم ایف کے بدترین قرضوں سے لے کر حالیہ منی بجٹ تک، سوائے سوشل میڈیا پروجیکشن کے کوئی عملی اقدام دیکھنے کو نہیں ملتا،پاکستان کا احساس پروگرام بھی  بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ہی تسلسل ہے اور کچھ بھی نہیں ہے، مہنگائی، آٹا، چینی اور دیگر ضروریات زندگی قلت سے متعلق اہم ترین معاملات پر پاکستان تحریک انصاف کے راہنماؤں اور ترجمانوں کا رویہ بھی نہایت غیر سنجیدہ دکھائی دیا۔

دنیا میں سیاحت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں کہ جن کی معیشت کا مکمل دارومدار ہی سیر و سیاحت  پر ہے، مگر ان سب ممالک میں سیاحت کی کامیابی کی اہم ترین وجہ وہاں کی حکومتوں کی حد درجہ سنجیدگی اور اعلیٰ درجے کے سیاحتی انتظامات ہیں۔یورپی ممالک میں تو سیاحوں کے لیے باقاعدہ Facilitation Centers بنائے گئے ہیں۔
ان ممالک میں ہوٹلز اور ذرائع آمد و رفت کے حوالے سے  سیاحوں کے آرام کو مدنظر رکھتے ہوئے  اصول و ضوابط کا کاربند کیا گیا ہے، تاکہ کوئی بھی ہوٹل یا ٹیکسی ڈرائیور سیاح سے اوور چار جنگ یا غیر مناسب رویہ اختیار نہ کرے۔

پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں سیاحت کے فروغ کو اولین ترجیح حاصل تھی، وزیراعظم عمران خان نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان میں سیاحت کو  فروغ کو دے کر اسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی حاصل ہوگی۔مگر اس اہم ترین معاملے میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کوئی خاطر خواہ کامیابی  نہیں دکھا پائی ۔
سال 2022 کے آغاز ہی میں حالیہ المناک سانحہ مری نے پوری قوم کو نہایت سوگوار کردیا،اس سانحہ سے دو روز قبل چوہدری فواد وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے بیان داغا کہ اس وقت تک سیاحوں کی ایک لاکھ گاڑیاں مری میں برفباری سے لطف اندوز ہونے پہنچ گئی ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی نہ ہونے کے برابر ہے۔مگر دوسری جانب جیسے ہی برفباری میں پھنسے ہوئے سیاحوں کی اموات کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو اس کا حکومتی رد عمل یہ آیا کہ یہ واقعہ لوگوں کی غفلت کا شاخسانہ ہے۔

مری میں پیش آنے والا یہ سانحہ بہت سارے سوالوں کو جنم دیتا ہے،حکومتی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھتے ہیں،لیکن سب سے تکلیف دہ اور اذیت ناک رویہ مری کے ہوٹل مالکان اور دیگر تاجروں کا ہے، جن کی درندگی اور مال کی ہوس نے ان جنگلی جانوروں سے بھی بد تر ثابت کیا ہے،آج سے چند سال قبل پورے ملک نے مری کے تاجروں کے بیہودہ اور گھٹیا رویے کے پیشِ نظر مری کا بائیکاٹ کیا تھا، اس کی وجہ یہاں کے ہوٹل مالکان اور تاجروں کا عام لوگوں سے حد درجہ بدتمیزی سے پیش آنا، اوور چارجنگ کرنا اور سیاحوں کی ہتک کرنا تھا،اس بار بھی مری کے تاجروں نے اپنے روایتی طرزِ عمل سے پوری انسانیت کو شرما دیا،ہوٹل کے کمروں  کے ریٹ سو گنا تک بڑھا دیے، لوگوں سے کیش کی مانگ کرتے رہے، کئی سیاحوں  نے تو اپنی بیگمات کے زیور تک ہوٹل مالکان کو دے دیے تاکہ وہ اس آفت سے اپنے اور اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکیں۔

مگر اس تمام صورتحال میں بھی حکومت میں موجود مری کے قومی اسمبلی کے رکن ان کے لیے جھوٹ سے کام لیتے رہے،مری کے حوالے سے بارہا میڈیا رپورٹس آ چکی ہیں   کہ وہاں حکومت کی رٹ نہیں دکھائی دیتی اور تاجروں نے لوٹ کا بازار گرم کیا ہوا ہے، مگر کیونکہ ان تاجروں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں تو ان کے خلاف آج تک کاروائی نہیں کی گئی۔
دوسری طرف اس قدرتی آفت سے متاثرہ سیاحوں کے لیے مری موجود McDonald’s Hotel نے اپنا ہوٹل کھول دیا ان کو پناہ دی اور ان کو مفت کھانا اور ہیٹر فراہم کیا اور ایک بہترین مثال قائم کی۔

مان لیا کہ یہ ایک قدرتی آفت تھی مگر اس آفت کو بدترین بنانے اور اس اثرات کو مہلک بنانے میں بہت سی انسانی کوتاہیاں بھی کارفرما ہیں،سب سے پہلے تو یہ کہ گنجائش سے زیادہ سیاحوں کو مری میں داخل ہی کیوں ہونے دیا گیا،اتنے اہم سیاحتی مقام کی ٹریفک کا نظام بدنظمی کا شکار کیوں ہوا،آج تک مری اور گلیات میں سیاحوں کی معاونت کے لیے معلوماتی کاؤنٹرز کیوں وجود میں نہیں لائے جا سکے،نیشنل اور پروانشل ڈیزازسٹر اتھارٹیز نے کیا کردار ادا کیا،محکمہ موسمیات اور انتظامیہ کے آپس میں رابطے کا فقدان کیوں ہے،آج تک مری اور گلیات میں ہوٹلوں، گاڑیوں اور دکانوں کے نرخوں کا تعین کرنے کا سرکاری طریقہ کار وضع کیوں نہیں کیا گیا،سیاحت بلاشبہ ایک بہت بڑا اور شاندار شعبہ ہے، مگر بد قسمتی سے پاکستان میں دیگر تمام شعبوں کی طرح سیاحت بھی سیاسی مداخلت اور سیاسی مفادات کا شکار رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے یہ ایک بہت بڑا ٹیسٹ کیس ہے کہ سانحہ مری کے تمام ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے،کسی سے کوئی رعایت نہ برتی جائے،سیاحت کا فروغ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ سیاحوں کے بہترین مفاد، ان جان اور مال کی حفاظت کو یقینی نہ بنایا جائے،اس وقت سانحہ مری کو پوری دنیا میں زیر بحث لایا جارہا ہے، کہ جب پاکستان میں مقامی لوگوں کو حکومت محفوظ نہیں رکھ پارہی ہے تو، بین الاقوامی سیاح کیسے محفوظ ہو سکیں گے،حکومت کو سیاحت کے شعبے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے ہونگے تاکہ خدانخواستہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے حادثے سے محفوظ رہا جاسکے اور کوئی نیا انسانی المیہ جنم ہی نہ لے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply