گولی مار دی جائے گی۔۔حسان عالمگیر عباسی

اکثر جگہوں پہ یہ لکھا نظر آتا ہے اور مقصد شاید یہ تاثر دینا ہے کہ پاکستان کے لیے اگر کوئی باوقار محکمہ باقی بچا ہے تو صرف اور صرف یہی ہے لہذا حساسیت کا تقاضا  ہے کہ عامیوں کو دور ہی رکھا جائے اور اگر غلطی سے کوئی لکیر پار کر دے تو بنا تحقیق کیے گولی کی مدد سے اڑا دیا جائے۔

یہی ذہنیت ہے۔ ایک بار چکلالہ میں ایک بائیکیا والے کے ساتھ سوار تھا۔ بائیکیا والا غلطی سے ان کی لکیر سے پار ہو گیا۔ آگے بڑے گیٹ پہ بڑا تالہ دیکھا تو ہڑبڑا گئے اور واپسی کا راستہ لیا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ فیلڈ کے سپاہی کا کیا کردار ہے؟ وہ سپاہی ہی تھا اور ہماری طرف لپکا اور کم از کم ہمارے تیس منٹس ضائع کیے۔ اس آدھے گھنٹے میں وہ ہنستا، مذاق اڑاتا رہا اور طاقت کے نشے کی وجہ سے رعب بھی جمائے رکھا حالانکہ ان کے سامنے بیرئیر کھلا دیکھ کر ہی لکیر پار کی کیونکہ ڈرائیور کو محسوس ہوا کہ یہی ٹھیک راستہ ہے۔

بائیکیا ڈرائیور جو غالباً کے پی کے محروم علاقے سے تھا کو کہا کہ ایک تو تمھارا تعلق ایسے علاقے سے ہے جہاں کے لوگوں کے کاغذ صاف نہیں ہیں اور اوپر سے تمھارا حلیہ بھی ان جیسا ہے جنھیں دہشت گرد کہتے ہیں۔

پھر کہنے لگا تم تو بائیکیا ڈرائیور ہو اور ذمہ دار ہو۔ اس سواری کا کیا قصور ہے؟ خوامخواہ یہ بھی تمھارے ساتھ مارا جاتا۔ میں چونک گیا اور کہا سر برائے مہربانی آپ مرنے مارنے کی بات تو نہ کریں تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ ہمیں واضح حکم ہے کہ ٹھوک دو۔

یہ بائیکیا ڈرائیور نے جواب میں کچھ نہیں کہا اور آدھے گھنٹے بعد جب واپسی لی اور سکستھ روڈ کو نکلے تو راستے میں بھی وہ خان بھائی اس کے خلاف ایک لفظ نہیں بولے۔ خود سوچیں وہ بولتے بھی کیسے؟ بے چارہ مزدور تھا اور گھر سے بہت دور تھا۔ آپ میں سے کوئی دوسرے شہر انجان لوگوں میں زبان کھول سکتا ہے؟ میں نے جب رویے کی مذمت کی تو اس نے بس اتنا ہی کہا یار ہم بس محنت مزدوری کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔ زندگی کب چلی جائے کسے کیا خبر ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply