انکار سب سے بڑی دلیل ہے۔۔ساؔنول عباسی

انسان سوچتا ہے کہ اس نے فکر کی بلندیوں کو چھو لیا ہے اور اب اس قابل ہو چکا ہے کہ خود اپنا خدا بن سکتا ہے یا عام مانوس پیرائے میں بات کی جائے تو انسان عقلی حوالے سے مکمل طور پہ بالغ ہو چکا ہے اب انسان اس قابل ہو چکا ہے کہ اسے زندگی گزارنے کے لئے کسی وجودِ برحق کی کوئی ضرورت نہیں ۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا   ہے کہ تمدنی ضروریات کے اس ارتقائی سفر میں انسانی افکار نے کوئی ایسی جست نہیں لی جس سے کسی نئی فکر کا احیاء ہو سکے، اس تھکا دینے والی غور و فکر کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد بھی ہانپتا ہوا انسان جب اپنے آپ کو خدا بنانے کے لئے کلام کرتا ہے تو اپنے اجداد کی چبائی ہوئی باتوں میں سے ایک لفظ کا بھی اضافہ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

آج کسی کام کے سلسلے میں تاریخِ عالم کا مطالعہ کر رہا ہے اور ایک بات جس کا بڑی شدت کے ساتھ احساس ہوتا رہا کہ معلوم انسانی تاریخ میں فی زمانہ خدا سے متعلق جتنے بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی ان کے بیانیے  میں کوئی فرق آیا ہے۔

یعنی قبل و بعد از اسلام اور اب تک جتنی بھی خدا سے متعلق چہ میگوئیاں کی جاتی رہی ہیں، یا کی جا رہی ہیں، ان میں ایک لفظ کا بھی اضافہ دیکھنے کو نہیں ملتا اور جتنا بھی انسان نے اپنی نظر میں علمی و فکری سفر طے کیا ہے اس میں انہی آیات کو جھٹلانے میں لگے ہیں ،جن کو جھٹلانے کی کوشش پہلے منکر خدا نے کی تھی مگر ہنوز دلی دور است یعنی اپنی گھڑی ہوئی تاویلات سے خود اپنے لاشعور میں موجود خدائی احساس کو ختم کرنے سے قاصر ہیں۔

شدت ہمیشہ کسی لاشعوری احساس کے تحت انسانی افعال میں جنم لیتی ہے کسی خیال کسی فکر نے جس قدر ہمارے لاشعور کا احاطہ کیا ہوتا ہے اسی قوت کے ساتھ اس کا اظہار ہمارے رویوں میں آتا چلا جاتا ہے خدائی احساس جزو ذات ہے جس نے ہماری شخصیت کا لاشعوری طور پہ احاطہ کیا ہوا ہے اگر انسان کی شخصیت اس احساس کے موافق نہ ہو تو انسان اس احساس کو جھٹکنے یا اس سے فرار حاصل کرنے کے لئے نئے سے نئے حربے نئی سے نئی باتیں تراشتا رہتا ہے اور انسانی فکری طے شدہ مسافتیں اور نئی سے نئی راہیں اس بات کی غماز ہیں کہ انسان ابھی تک اپنے لاشعور پہ چھائے خدائی احساس سے فرار حاصل نہیں کرے سکا اور نہ ہی کر سکے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اقرار بڑی دلیل ہے مگر انکار اس سے بڑی دلیل ہے ہم نے کائناتی نشانیوں کی توجیہات تو ڈھونڈ لی ہیں مگر اپنے اندر اپنے لاشعور میں موجود احساس کو مٹانے سے قاصر ہیں اور تاریخ انسانی میں انسانی کسمپرسی کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ منکرین کبھی اپنی اس خفت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے اگر کر سکتے ہوتے تو کب کے کر چکے ہوتے۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply