بیگم اور بچے کے درمیان فرق ؟/محمد جنید اسماعیل

میری سمجھ کے مطابق بچے اور لاڈلی بیگم میں کوئی  خاص فرق نہیں ۔دونوں کے ناز و انداز ،نخرے اور حرکات و سکنات بھی تقریباً ملتی جلتی ہیں ۔

بچے بھی جب کسی بات کو منوانا چاہیں گے تو سب سے پہلے منہ پھلالیں گے ،پھر کسی بہانے سے آپ کو بات سنوائیں گے اور تب تک سنواتے رہیں گے جب تک آپ اُن کی بات پر کوئی ردِعمل نہیں دیتے ،اگر آپ نے نرم انداز سے بات سن کر ان کی تشفی فرمائی تو ٹھیک ورنہ اگر تھوڑی سی بھی درشتی سے بول دیا تو آگے سے فٹ جواب آئے گا ۔”میں نے آپ سے کچھ کہا ؟میں تو ویسے ہی بول رہی تھی “۔

ایک دن ایسے ہی میں کسی خیال میں گم تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ بیگم صاحبہ کچھ سوچنے میں محو ہیں لیکن بات فقط سوچنے تک محدود نہیں بلکہ بار بار میری توجہ مبذول کرانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے یعنی کبھی باڈی سپرے ہوا میں اُچھال کے ،کبھی کنگھی کو کوس کر اور کبھی دل ہی دل میں کچھ کلمات ادا کرکے۔مجھے لگا کہ شاید بیگم صاحبہ کشف کے حصول کے لیے کوئی  ورد کررہی ہیں ،مجھے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ تب ہوا جب میں نے دیکھا کہ اندر آتے ایک بلی کے خوب صورت بچے کو گردن سے پکڑ کر اچھالنے کی کوشش کی گئی ،یہ تو بھلا ہو کہ میری فوراً نظر پڑ گئی ، تو میں نے اس بے بس کو زندہ بچالیا ،بلی کے بلونگڑے کا یہ حال دیکھ کر بھی میں نے عبرت نہیں پکڑی اور بیگم صاحبہ کو  چھیڑ بیٹھا ،درشتی سے کہا “کیا ہے ،کیوں تنگ کیا ہوا ہے ،دیکھ تو رہی ہیں کہ کام کررہا ہوں “میرے استفسار کرنے پر وہ فوراً سے پہلے گویا ہوئیں “میں نے آپ سے کچھ کہا ہے ،میں کیوں آپ سے بات کروں گی ؟

یہ سن کر میرے منہ سے زوردار قہقہہ نکلا اور میں نے کہا کہ اچھا یعنی اب میری بیگم صاحبہ سیدھا فرشتوں سے ہم کلام ہونے کی اسٹیج پر متمکن ہوگئی  ہیں “اس کے بعد پھر سے کام میں مشغول ہوگیا ۔

بچے عمومی طور پر اپنی اَنا  اور چیزوں کو لے کر بڑے سنجیدہ ہوتے ہیں ۔کسی بچے کو آپ سو روپے دے کر دیکھیں اور کہیں کہ اس سے خریدی گئی  چیزوں میں سے کوئی  اک چیز آپ کو دے تو وہ فوراً منہ پھلا کر کہے گا “میں کیوں اپنی چیز آپ کو دوں ؟آپ میرے لگتے ہی کیا ہیں ؟

یہی حال بیگمات کی معصومیت کا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ انہیں سب کچھ دے رہے ہوں لیکن شومئی قسمت اگر کسی دن کوئی  اونچ نیچ ہوجائے یا بیگم صاحبہ خود سے کوئی  اونچ نیچ فرض کرلیں تو فوراً کہہ اٹھیں گی

آپ میرے لگتے ہی کیا ہیں
میں تو آپ کے لائق ہی کہاں تھی (بندہ اگر اس پر سر ہلائے تو پھر سر کی خیر منائے)

بچے کے سامنے آپ کسی قسم کا عذر پیش نہیں کرسکتے ،آپ لاکھ یقین دلانے کی کوشش کریں لیکن اس کی سوئی ایک ہی بات پر اٹکی رہے گی ،جب تک اپنی بات منوا نہ لے گا تب تک چین سے نہ بیٹھے گا پھر چاہے وہ رات کے دو بجے چاکلیٹ کی فراہمی ہو یا پھرکسی مصروف دن پر کوئی بے تکی سی خواہش ۔
بیگم صاحبہ کا رویہ بھی اس سے کچھ خاص مختلف نہیں ہوتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک دن بیگم صاحبہ سسرال تشریف لے جارہی تھیں تو گیٹ پر ضد کی کہ آپ بھی اندر چلیں ۔مجھے کچھ اور نہ سوجھا تو میں نے گردن میں درد کا بہانہ بناڈالا۔بیگم صاحبہ کے چہرے پر ایک چمک اٹھی اور فوراً ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گئیں ،سلام دعا سے پہلے ہی امی(ساسو ماں کو میں امی ہی کہتا ہوں) کو بلا کر سب حقیقت سے آگاہ کیا اور وہ فوراً تیل لے کر میری مالش کرنے لگیں ۔اب جس انداز سے انہوں نے انگوٹھے کے زور پر مالش کی تو میں جھارا پہلوان کے داؤ پیچ بھول گیا ،تب سے ایک ہی عہد کیا کہ بیگم صاحبہ سے جھوٹ نہیں بولنا ،بےشک جھوٹ بُری بلا ہے ۔

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply