قیام پاکستان اور جاگیرداری نظام/عمران مسعود

تحریک پاکستان میں عام مسلمانوں کی خواہش ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا لیکن اس تحریک سے وابستہ چار طبقات کے اپنے مفادات تھے.

انگریز
ایک ایسی ریاست کا قیام چاہتا تھا جس کی فوج خطے میں بھارت کی طاقت کو روک سکے دوسری جانب روس میں کمیونسٹ تحریک کا مقابلہ کر سکے اور یوں امریکہ و برطانیہ کی عالمی اجارہ داری قائم رہ سکے.

جاگیردار
نہرو انگریز کے جانے بعد جاگیرداری نظام کو توڑنے کا اعلان کر چکے تھے اس لیے اپنی جاگیرداری چوہدارہٹ کے تحفظ کے لیے پاکستان کا قیام ان کی ضرورت تھی.

صنعتکار اور سرمایہ دار
کیونکہ خطے کی صنعت میں ہندو کامیاب تھے لہذا مسلمان صنعتکار اس مقابلے سے جان چھڑا کر اہنی اجارہ داری قائم کر سکیں. اور اسی طرح کاروبار میں بھی مقابلہ کم ہو سکے.

بیوروکریسی
بیوروکریسی میں بھی مسلمانوں کا مقابلہ ہندوؤں سے تھا جن کے ہاں تعلیمی قابلیت زیادہ تھی لہذا پاکستان سے جانے کے بعد مسلمانوں کو اس طرح کے مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا.

Advertisements
julia rana solicitors london

تب قوم نے قائد اعظم پر اعتماد کیا. ان تمام طبقات نے اس نعرے کا فائدہ اٹھایا. پاکستان تو بن گیا . پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعلی پنجاب سردار سکندر حیات خان نے اپنی پارٹی مسلم لیگ میں ضم کر دی تھی. باقی وڈیروں نے بھی اسی نعرے پر مسلم لیگ کی حمایت و شمولیت کی. 1946 کے الیکشن میں مسلم لیگ کو بھرپور مینڈیٹ ملا. لیکن پھر اسی قائد کے پاکستان کے ساتھ کیا ہوا. جو لوگ ان پر تنقید کرتے تھے وہ غدار وطن قرار دیے گئے. خود قائد کی تقاریر ملٹری سیکرٹری سینسر کر دیا کرتا تھا. گویا یہ ملک بنتے ہی ان طبقات کے ہاتھ چلا گیا.
قائد اعظم کی زندگی کے آخری ایام جو ان کی بہن نے قلمبند کیے وہ خود کتنے سوال کھڑے کرتے ہیں. ستم یہ کہ وہ خود غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دی گئیں. قائد نے لیاقت علی خان سے ملاقات کے بعد اپنی سے یہ بولا کہ “فاطی میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتا ” کھانا اور دوائی ترک کر دی جس کے چند روز بعد قائد اس دنیا سے رخصت ہوگئے.
ہمارے نصاب سے تاریخ ہند نکال کر مخصوص نقطہ نظر کی تاریخ ڈالی گئی تاکہ ایک ایسی قوم تیار کی جاسکے جو ان کے نقطہ نظر کی حامل ہو اور وہ اپنا بیانیہ بیچ سکیں.
مولانا مودودی علامہ اقبال کی خواہش پر لاہور منتقل ہوئے تھے اور وہ اس ضرورت کو محسوس کرتے تھے کہ تبدیلی کے لیے تربیت یافتہ اور باعمل جماعت قائم کی جائے حو سیاست کو عبادت سمجھ کر کریں. اور جب تک ان وڈیروں جاگیرداروں کی بجائے عوام میں سے قیادت نہیں ابھرے گی جو خود بھی اپنے کردار کی تربیت حاصل کیے ہوئے ہو تب تک ایک فلاحی ریاست کا قیام ممکن نہیں. اگرچہ اس نظریہ کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے کہ مکی زندگی کے دوران صرف صبر اور تربیت پر زور دیا. مدینہ پہنچ کر بھی یہودی اور کافر قبائل سے امن کے معاہدے کیے تاکہ ریاست کا دفاع مضبوط کیا جاسکے.
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں استحکام اور تبدیلی اسی صورت ممکن ہے جب ان طبقات کے سیاسی اثر رسوخ سے آزادی حاصل ہو. ان طبقات کے لوگ جس بھی پارٹی کا حصہ ہوں ان سے تبدیلی کی توقع دیوانے کے خواب جیسی ہے.

Facebook Comments

انجینئر عمران مسعود
میں پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینئر ہوں. تاریخ, مذہب اور ادب و فنون سے دلچسپی رکھتا ہوں. فارغ اوقات میں مصوری کا شغف ہے. بطور لکھاری تاریخ اور مذہب کو تنقیدی پیرائے میں دیکھنے اور لکھنے کو موضوع بناتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply