تمہاری کتاب کہاں ہے؟۔۔عارف انیس

یہ سوال میں تقریباً ہر اس شخص سے پوچھتا ہوں جس سے ملاقات ہوتی ہے۔ کسی سفیر سے، وزیر سے، صحافی سے، مدبر سے، معالج سے، مریض سے، استاد سے، طالبعلم سے، کہانی کار سے، کوہ پیما دے، ریاستی کارندے سے، روحانی پیشوا سے، محبت سیکھنے والوں سے، بزنس مین سے، گھریلو خاتون سے ۔۔۔ سب سے یہی پوچھتا ہوں کہ ان کی کتاب کہاں ہے؟
میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک کتاب مستور ہے۔ کچھ ورق ہیں جوکہ ہمارے اندر کھلتے بند ہوتے رہتے ہیں، مگر ہم میں سے بہت کم ہمت کرتے ہیں کہ ان ورقوں پر لکھا پڑھ سکیں اور اپنے اندر موجود کتاب کو باہر لا سکیں۔ یہ کتاب ہر ایک پر لکھنا واجب ہے، اور لکھے سے پہلے مرجانا ناشکری ہے۔ پڑھنے والو /والیو، میں آپ سب سے مخاطب ہوں۔
میرا پہلا سوال یہ ہے کہ تمہارے پاس کیا بہانہ ہے جس کی وجہ سے تم نے ابھی تک اپنی پہلی کتاب نہیں لکھی؟ اور اگر تم نے واقعی وہ بہانہ ڈھونڈ نکالا ہے تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دو، اور وہ کتاب باہر نکال دو جو تمہارے اندر لکھی ہوئی ہے۔

یاد رکھو یہ اس نالائق چرواہے کا کہنا ہے جس کی آٹھویں کتاب اگلے ہفتے امریکہ کا ایک نامی گرامی پبلشر چھاپ رہا ہے۔ میری پہلی کتاب اکیس سال کی عمر میں لکھی گئی تھی اور میں اب بھی سمجھتا ہوں وہ دیر سے لکھی گئی تھی۔ دو ہفتے قبل میرے بک پارٹنر قیصر عباس کی غالباً بارہویں کتاب مارکیٹ میں آچکی ہے۔ تمہارا بہانہ کیا ہے؟

یاد رہے کہ آپ کے ذمے کتاب لکھنا ہے، بیچنا نہیں، مشہور ہونا نہیں۔ بس اپنا پیغام، اپنے ہونے کو صفحے پر اتار دیں۔ اگر ہر شخص دنیا میں کچھ کرنے کے لیے آیا ہے تو وہ کرنا میرے نزدیک ایک کتاب لکھنا ہے۔ اگر آپ نے ایک کم از کم ایک کتاب لکھ دی تو آپ نے اپنے ہونے کو ثابت کردیا اور ایسا کام کردیا ہے جو ہر صورت میں آپ کی زندگی سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے۔
میری زندگی کے بڑے مقاصد میں سے ایک مقصد انشاءاللہ اگلے دس سال میں ایک ہزار سے زائد کتابیں لکھوانا ہے۔ وہ کتابیں جو شاید ہمارے اگلے سو سال کو تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔

میں نے دنیا کے دو سب سے زیادہ پڑھے جانے والے لکھاریوں سے ان کے منہ سے قصے سنے کہ ان کا لکھا ہوا کس طرح ردی ہوا اور پھر چند برسوں میں ہیروں کے مول تلا۔ الکیمسٹ کے مصنف پائلو کوئلو نے بتایا تھا کہ جب اس کی کتاب پرتگالی زبان میں شائع ہوئی تھی تو ایک پتہ بھی نہ کھڑکا تھا۔ کتابوں کو کیڑے لگ گئے مگر کسی نے دیکھ کر نہ دی۔ اس کے پبلشرز ہر دوسرے دن اسے فون کرتے اور اپنے آپ کو لعن طعن کرتے۔ اب پالو کوئلو اس کا مسودہ اٹھائے در بدر پھرتا رہا، حتیٰ کہ ایک برازیلی پبلشر نے اس کی ثابت قدمی سے تنگ آکر کتاب چھاپ دی۔ بعد میں یہ کتاب دنیا کی 80 زبانوں میں سات کروڑ سے زیادہ شائع ہوئی۔

میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے والے دنیا کے مشہور ترین مصنف جیک کینفیلڈ کی کہانی بھی شیئر کر سکتا ہوں جس نے میرے ساتھ اپنے انٹرویو میں پچاس کروڑ سے زیادہ کتابیں بیچنے کا راز افشاء کیا۔ خاصے کی چیز ہے، کسی دن ضرور بتاؤں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر، یہ سب باتیں تو چلتی رہیں گی، فی الحال ایک ہزار لکھنے والے چاہئیں جو کتابیں اپنے اندر لیے پھر رہے ہیں۔ بس یہ اسی طرح کھلے بغیر آگے نہیں چلی جانی چاہئیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس سفر میں آپ کے ساتھ سارے اوزار اور نٹ بولٹ آپ کے حوالے کروں گا۔ بسمہ اللہ کریں۔ میں لکھنے کی بات کر رہا ہوں، یاد رکھیں میں پبلشر نہیں ہوں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ لکھنا اس سفر کا ٪80 فیصد ہے، باقی ٪20 چھپنا ہے۔ دا ورلڈ از ویٹنگ۔
آواز لگائیں۔ تو پھر کس کس میں دم ہے؟ آؤ ذرا پبلک کے سامنے، چوک میں کمٹمنٹ ہوجائے۔

Facebook Comments