جمہوریت کی حقیقت/مظہر اقبال کھوکھر

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 23 دسمبر کو دو صوبوں کے پی کے اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تو یہ بات تو واضح تھی  کہ پی ڈی ایم اتحاد اسمبلیاں بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی کیونکہ حکومتی اتحاد کے لیے ایک بڑے اکثریتی صوبے سمیت دو صوبوں میں انتخابات کرانا مشکل ہوگا۔ اور صورتحال قومی انتخابات کی طرف چلی جائے گی۔ جبکہ ملک کی معاشی صورتحال اور حکومت اپنی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ فوری طور پر انتخابات ہوں۔ اور پھر ایسے وقت جب کچھ عرصہ قبل ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی ان کے سامنے ہوں۔

یہی وجہ ہے پی ڈی ایم اتحاد کے رہنماؤں میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے بعد گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں اسپیكر ، ڈپٹی اسپیكر اور وزیر اعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ کیونکہ آئین کے مطابق جب وزیر اعلیٰ  کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف گورنر پنجاب نے بھی وزیر اعلیٰ  کو خط لکھ کر اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کر دی۔ اور اس حوالے سے اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ مگر اسپیكر پنجاب اسمبلی نے اسے غیر آئینی قرار دیتے اجلاس بلانے سے انکار کر دیا ہے۔ آنے والا ایک ایک لمحہ سیاسی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پوری قوم کی نظریں پنجاب اسمبلی پر لگی ہوئی ہیں۔

اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں یا نہیں ، وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں اور تحریک عدم اعتماد کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟ یہ تمام سوال اپنی جگہ مگر اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے ایک انٹرویو نے کافی ہلچل مچا دی ہے۔ تین سال تک اسپیكر پنجاب اسمبلی رہنے والے تحریک انصاف کے اہم اتحادی پنجاب کے وزیر اعلیٰ  چودھری پرویز الہی نے عمران خان کی جانب سے مسلسل جنرل  باجوه پر کی جانے والی تنقید کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ” میں نے تین ماہ پہلے بھی عمران خان کو کہا تھا  کہ باجوہ آپ کے بھی اور ہمارے بھی محسن ہیں۔ اور گزشتہ روز بھی مونس کے ذریعے پیغام بھیجا تھا کہ جنرل   باجوہ کے خلاف نہ بولیں،کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ باجوہ کے ان پر بہت سے احسانات ہیں۔ اس لیے احسان فراموشی نہ کی جائے۔ مگر عمران خان نے مجھے ساتھ بیٹھا کر باجوہ کے خلاف بات کر کے بہت بڑی زیادتی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان تو مونس کو ساتھ نہیں بیٹھانا چاہتے تھے مگر ہم نے پھر بھی جنرل   باجوہ کے کہنے پر ان کا ساتھ دیا اور عدم اعتماد میں بھی عمران خان کی حمایت کی۔ پرویز الہی نے مزید کہا کہ مجھ سمیت اکثریت سیاستدان یہ چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ پنجاب اسمبلی ان کی امانت ہے۔ اس لیے سمری پر دستخط کر کے دے دی ہے۔ مگر باجوہ کے خلاف بات کی تو سب سے پہلے میں بولوں گا۔ میری پوری جماعت بولے گی۔”

واضح رہے کہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار باجوہ کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی توپوں کا رخ مسلسل جنرل ر باجوہ کی طرف ہے۔ جبکہ اس  سے قبل جب ایک پیج کی گاڑھی چھنتی تھی،اور ان کی حکومت کے لیے مثبت رپورٹنگ کے لیے پریس کانفرنسز ہوتی تھیں،تو وہ باجوہ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور انہیں ایک جمہوریت پسند جرنیل قرار دیتے تھے۔

بہر حال اس انٹرویو کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہمارے ملک میں کتنی جمہوریت ہے ، کتنی جمہور کی حیثیت ہے اور کس حد تک ووٹ کی اہمیت ہے۔ یہ بات تو پہلے بھی واضح تھی کہ ہمارے ہاں  جمہوریت کے نام پر دعوؤں کی جگالی ہوتی ہے۔ انتخابات کے نام پر مفادات کا دهندہ ہوتا ہے اور ووٹ کی پرچی کے نام پر ووٹر کے ساتھ مذاق ہوتا ہے۔ مگر اب تو باتیں کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے اسمبلیوں میں جانے والے اگر کسی جنرل کے احسان مند ہوں، تو پھر جمہوریت کے لالی پاپ بند کر دینے چاہئیں ، “جمہوریت بہترین انتقام ہے” کا ڈھکوسلا بند کر دینا چاہیے اور “طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں” کی منافقت بھی بند کر دینی چاہیے۔ کیونکہ اس ملک میں اس وقت تک حقیقی جمہوریت نہیں آسکتی جب تک ہمارے سیاستدان جمہوریت کے بجائے اقتدار کو ترجیح دیتے رہیں گے۔ جب تک وہ جمہور کے پاس جانے کے بجائے گیٹ نمبر 4 کے آس پاس جوتے چٹخاتے رہیں گے۔ جب تک وہ الیکٹ ہونے کے بجائے سلیکٹ ہونے کو اہمیت دیتے رہیں گے۔

ممکن ہے اس مروجہ سیاسی نظام اور نام نہاد جمہوریت سے مفاد اٹھانے والوں کو میری یہ باتیں ناگوار گزریں۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام عوام کے لیے بنا ہی نہیں، اگر اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات سے عوام کی رتی برابر بھی حالت بدلنے کے چانس ہوتے تو اب تک ووٹ ڈالنے پر پابندی لگ چکی ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پچھلے ستر سال سے یہی کہانی دہرائی جارہی ہے۔ اداروں کی طرف سے مداخلت نہ کرنے کے اعلانات ہوتے ہیں یقین دہانیاں کرائی جاتی ہے۔ مگر پھر سب دھرا رہ جاتا ہے۔ مداخلت ہوتی ہے اور کھل کے ہوتی ہے۔ سیاستدان جمہوریت جمہوریت کے دعوے کرتے ہیں با اختیار ہونے کے اعلانات کرتے ہیں اور پھر بے اختیار ہونے کا رونا روتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ چوہے بلی کا یہ کھیل ختم ہونا چاہیے۔ اگر تمام سیاستدان اس بات پر متفق ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ضروری ہے، تو آگے بڑھیں اور اتفاق رائے سے قانون میں ترمیم کر کے اسٹیبلشمنٹ کو مستقل کردار دے دیں۔ ورنہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والا فارمولا ختم کریں۔ یعنی اپنے اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کردار ادا کرے تو جمہوری اور دوسروں کے لیے کرے تو غیر جمہوری۔ یا تو گیٹ نمبر 4 کا طواف چھوڑ دیجئے یا پھر جمہوریت جمہوریت کا مذاق چھوڑ دیجئے۔ کیونکہ اس جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ حقیقت میں جمہوریت نہیں بلکہ مفادات کا ایک دهنده ہے۔ جس کے ذریعے قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے ۔ جب تک یہ قوم آگے بڑھ کر مفاد پرستوں کے چہروں سے جمہوریت کا نقاب نہیں نوچے گی اس وقت تک اقتدار پرستوں کی نام نہاد جمہوریت اس قوم کا استحصال کرتی رہے گی۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply