• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی کا کھتارسس /پاکستان کی سڑکوں پر جوان بچوں کے ساتھ ذلیل ہوتے کروڑوں عمران، آصف اور نواز۔۔ اعظم معراج

پاکستانی کا کھتارسس /پاکستان کی سڑکوں پر جوان بچوں کے ساتھ ذلیل ہوتے کروڑوں عمران، آصف اور نواز۔۔ اعظم معراج

پچاس سالہ عمران خان پشاور کا ایک الیکٹریشن تھا ایمان داری سے محنت کرتا ایک چھوٹی سی دکان بھی بنا لی۔ اسکے دو بیٹے تھے سلمان خان اور قاسم خان جنہیں وہ پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔ جیسے تیسے ایک نے میٹرک کے بعد کالج جوائن کرلیا دوسرا ابھی اسکول میں تھا عمران خان کم پڑھا لکھا لیکن باشعور آدمی تھا۔اس نے بچت کرکے ایک موٹر سائیکل بھی خرید لی ۔شادی کے بعد جب وہ موٹر سائیکل پر اپنی بیوی کے ساتھ نکلتا تو آس پاس دیکھتا کہ کچھ لوگوں نے پورے پورے خاندان کو موٹر سائیکل پر بٹھایا ہوتا ۔۔اسے ایک ذلت کا احساس ہوتا۔وہ فیملی کے سربراہ کو کو ستا یہ کیسا بے شرم ہے؟۔لیکن دوسرے ہی لمحے جب وہ دوسری طرف پبلک ٹرانسپورٹ کا حال مہنگائی کی صورتحال دیکھتا,تو اسکا وہ سارا غصہ حکومتی و ریاستی اہل کاروں کی طرف چلا جاتا کہ انکی  نالائقی و بدنیتی کی بدولت لوگ ذلت بھری زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ساتھ ہی وہ دل میں وعدہ کرتا کہ میرے بچے بڑے ہونے تک میں یا تو یہ نظام بدل دوں  گا یا اپنے حالات، لیکن اسکی ایمان داری سے کی گئی جان توڑ کوشش کے بعد نہ وہ اپنے حالات بدل سکا ،نہ اسکے  تین بار ووٹ ڈالنے سے نظام بدلا ۔اسکے بچے بڑے ہو گئے ۔۔اس کے ساتھ ایک وقت میں ایک بیٹا ہی بیٹھتا وہ بڑے بچے کو بس ویگن پر کالج بھیجتا چھوٹے کو موٹر سائیکل پر اسکول چھوڑتا بڑا بیٹا اکثر کہتا ابا میرے سارے دوستوں کے ابے تین تین بچوں کو اسکول کالج چھوڑتے ہیں ۔ہمیں مہنگا بھی پڑتا ہے ۔مجھے دیر بھی ہوجاتی ہے ۔مہنگائی کا حال دیکھوں خؤد بھی پریشان ہوتے ہو ۔ہمیں بھی پریشان کرتے ہو ۔چھوڑو یہ قانون پر عمل داری اور عزتِ نفس کی رٹ لیکن عمران خان جیسے تیسے اس آس پر ٹالتا رہتا۔
کہ یا میں انفرادی حالات بدل دوں  گا یا جدو جہد سے نظام بدل کر پاکستان کا معاشرہ بدل دوں گا۔ وہ پارٹی کا کام اور اپنی دوکان داری میں توازن کے لئے دن رات ایک کر دیتا ۔ایک دن وہ شام کو گھر پہنچا تو اسکے گھبرائے ہوئے بیٹے نے کہا ابا کل سے یا تو میں فجر کے بعد ہی تیار ہوکر گھر سے پیدل کالج جاؤں گا یا پھر موٹر سائیکل کے ساتھ آج ویگن کی چھت پر سے میرا ایک دوست گر کر مر گیا ہے۔ عمران خان یہ سن کر پریشان ہو گیا۔رات بھر بھی وہ صحیح سو نہ سکا ۔آنکھ لگتی تو ویگن سے گرتا بیٹا نظر آتا۔یا تھکاوٹ سے ہانپتا دو گھنٹے پیدل چل کر گرتا پڑتا گھر پہنچتا بیٹا سلمان خان نظر آتا۔۔ اسی طرح پتہ نہیں کب آنکھ لگ گئی۔۔ صبح اُٹھتے ہی اس نے بڑے بیٹے کو کہا ہم اکھٹے جائیں گے تمہارے بھائی کو اسکول چھوڑ کر میں تمہیں کالج چھوڑوں گا۔ جب وہ تینوں باپ بیٹے موٹر سائیکل پر بیٹھے تو عمران خان کی حالتِ غیر تھی ۔
ایک تو کچھ نہ کرسکنے کی ندامت دوسری قانون شکنی کی خجالت وہ اسی شرمندگی کی کیفیت میں آہستہ آہستہ موٹر سائیکل لے کر مین سڑک پر آگیا جہاں آس پاس اس طرح کے سینکڑوں شہری پورا پورا ٹبر (خاندان) موٹر سائیکلوں پر بٹھائے اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھے ،وہ بھی ہجوم میں شامل ہوگیا ؟کہیں کہیں ٹریفک پولیس اہلکار آسان شکار لوگوں کو ذلیل خوار کرکے پیسے بٹور رہے تھے ۔جنہیں دیکھ کر عمران خان کو جھر جھری سی آجاتی ۔آگے ایک جگہ کچھ وی آئی پی رہائش گاہیں تھی، وہاں اکثر پولیس والے لوگوں کو روک کر تلاشی لے رہے ہوتے کاغذات چیک کر رہے ہوتے ۔عموماًعمران خان وہاں سے خیر خیریت سے گزر جاتا کبھی رکتا تو کاغذات پورے ہونے پر آرام سے فارغ ہو کر چلا جاتا ۔لیکن آج وہ پولیس کو دیکھ کر گھبرا گیا ۔۔
کہ اس قانون شکنی کا کیا جواب دوں گا۔
اسی گھبراہٹ میں پولیس کے اشارے کے جواب میں اس نے موٹر سائیکل کچے میں اتار کر بھگا دی اسے اپنے پیچھے پولیس کی گاڑی کے ہوٹر کا شور سنائی دیا وہ پریشانی میں رکنے کی بجائے موٹر سائیکل بھگانے لگا آخری آواز اس نے گولیوں کی اور اپنے بچوں کی چیخوں کی آواز  سنی پھر اسے لگا پشت سے اسکے جسم میں آگ داخل ہوئی ہے۔پولیس گاڑی جب سڑک پر گری تین لاشوں پر پہنچی تو عمران خان کی جیب سے گرے موبائل پر رنگ ٹون بج رہی تھی۔۔
تبدیلی آ نہیں رہی، آ گئی ہے ۔۔
تھوڑی دور قاسم خان اور سلمان کی لاشیں پڑی تھیں ۔۔

(اہل وطن یہ ایک حقیقی کہانی ہے ۔۔ جو اس ملک کی سڑکوں پر کروڑوں جوان بچوں کے ساتھ ذلیل ہوتے عمران،آصف اور نوازوں کے ماتھوں پر لکھی ہوئی ہے۔ اس میں آپ اپنی اپنی پسند اور نفرت کے مطابق نام ڈال کر پڑھ لیں یہ پلمبر آصف اور اسکا بیٹا بلاول بھی ہوسکتا ہے ۔ یہ رنگ ساز نواز اور اسکے بیٹے حسن اور حسین بھی ہوسکتے ہیں ۔یہ کہانی تب تک ہر محنت کش پاکستانی کے ماتھے پر لکھی جاتی رہے گی، جب تک ہم مذہب، رنگ، نسل جغرافیے،مسلک ،زبانوں  ودیگر ایسی پہچانوں میں بٹے یہ نہ سمجھ سکے کہ بنیادی قبیلےدو ہی ہیں۔

ایک استحصال کرنے والے اور دوسرے کروانے والے یعنی جمہور اور جمہور باز
طارق عزیز نے کیا خوب کہا تھا
مڈھ قدیم تو دینا اندر دو قبیلے آئے نیں
اک جنہاں نے زہر نے  پیتے اک جنہاں پیائے نیں

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply