مملکت خدادا پاکستان اپنی منفرد تاریخ اور ثقافتی ورثے سے مالا مال ملک ہے، آج کل معاشی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے ان چیلنجز نے اس کے شہریوں کی خوشحالی میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ مہنگائی کی اونچی شرح، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اور گیس و بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ایک نہ ختم ہونے والا طوفان برپا کر دیا ہے، جس سے عام شہریوں کی قوت خرید بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عوام کی اکثریت خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے، مہنگائی کی وجہ سے عوام پر مالی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ان چیلنجوں کے تناظر میں نگران حکومت وزیر اعظم انورالحق کاکڑ کی قیادت میں عوام کو درپیش بوجھ کو کم کرنے اور توانائی کے شعبے میں حیران کن طور پر گردش کرنے والے قرضوں سے نمٹنے کے لیے قابل تحسین اقدامات کر رہی ہے۔
پاکستان کی معاشی پریشانیوں کی جڑیں 1994 کے ہنگامہ خیز سال میں تلاش کی جا سکتی ہیں جب انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے ساتھ معاہدے معاشی بدحالی اور وسیع پیمانے پر صارفین کی پریشانی کا باعث بنے تھے۔ ان عوام کش معاہدوں نے جو ڈالروں میں واپسی کے لیے معاہدے میں شامل کیے گئے تھے، ان معاہدوں کی وجہ سے قرضوں اور مالی دباؤ کا ایک نہ رکنے والا چکر شروع ہوا جو برسوں سے اب تک جاری ہے۔ ہم اس وقت بھاری قرضوں کا بوجھ سر پر اٹھائے موجودہ دور کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، اور توانائی کا شعبہ ڈھائی کھرب روپے کے گردشی قرضوں سے بھرا ہوا ہے جس سے ملکی معیشت کے استحکام کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
بجلی کے یونٹ مہنگے کرنے کے بعد اب گیس کی قیمتوں میں حالیہ 520 فیصد اضافے نے ان شہریوں پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے منفی اثرات سے دوچار ہیں۔ ملک میں روز بروز بے روزگاری بڑھ رہی ہے، معاشی بدحالی کو مزید بڑھایا جارہا ہے۔ ان چیلنجوں کے نتائج غریب عوام پر توانائی کے بے تحاشہ بلوں کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔
محدود مینڈیٹ کے باوجود نگراں حکومت، وزیر اعظم انور الحق کاکڑ کی قیادت میں ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے عزم کا ارادہ کر رہی ہے۔ بجلی کی چوری سے نمٹنے اور توانائی کے شعبے میں گردش کرنے والے قرضوں کو کم کرنے کی کوششیں معیشت کے استحکام کی جانب قابل ذکر اقدامات ہیں۔ ونڈ پاور پلانٹس کے ساتھ ٹیرف پر دوبارہ گفت و شنید کے لیے پانچ رکنی کمیٹی کا قیام، بیس ارب روپے کی ادائیگیاں روکنا، معیشت پر بوجھ ڈالنے والے سابقہ معاہدوں کو درست کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
وزیر اعظم انور الحق کاکڑ کی جانب سے وزارت توانائی کو گردش کرنے والے قرضوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور دیرپا حکمت عملی بنانے کی ہدایت ملک کے معاشی مستقبل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ بجلی کی قیمتوں کو کم کرنے اور بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ منصفانہ مذاکرات میں شامل ہونے کا عزم کاروبار کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینے اور صنعتی ترقی کو فروغ دینے کی لگن کو ظاہر کرتا ہے۔
29 جنوری کو ہونے والا اقتصادی کونسل کا اجلاس، جہاں نگراں حکومت نے پانچ سالہ منصوبہ پیش کیا ہے۔ 29 ارب روپے کی ممکنہ بچت کے ساتھ زیرو پیش رفت والے منصوبوں پر پابندی لگانے جیسے اقدامات کی تجویز، وسائل کی تقسیم اور مالی ذمہ داری کے لیے ایک عملی نقطہ نظر کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس وقت شدید معاشی چیلنجز کے پیش نظر پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ نگران حکومت کے اقدامات اگرچہ قابل ستائش ہیں لیکن ان چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کے لیے انقلابی اور حقیقت پسندانہ اقدامات کی تکمیل ہونی چاہیے۔ چونکہ پاکستانی قوم اقتصادی کونسل کے اجلاس کی منتظر ہے، یہ انتہائی اہم ہے کہ پالیسیاں سستی توانائی کے حصول، صنعتی ترقی کو فروغ دینے اور شہریوں کو درپیش معاشی مشکلات کے خاتمے کے وژن سے ہم آہنگ ہوں۔ یہ ایک ٹھوس کوشش، اختراعی حکمت عملی اور مستقل عزم کے ذریعے ہی پاکستان معاشی بہتری کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں