کیا مشرف غدار ہے؟۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کے مختصر تحریری فیصلے پر مجھے پہلے ہی کافی تحفظات تھے جن کا میں نے اپنے گزشتہ کالم میں برملا اظہار بھی کیا تھا۔ اب 169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ دیکھ کر میری اس رائے اور اس اختلاف کو تقویت ملی ہے۔ یہ فیصلہ 2-1 کی  مناسبت سے سنایا گیا ہے جس میں پرویز مشرف کو 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگانے کے جرم کی پاداش میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا ہے۔ جسٹس نذیر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ کسی بھی فیصلے میں قانون کے مطابق سزائے موت کا حکم سنایا جانا معمول کی بات ہے البتہ سزا پر اختلافات ہم وکلاء کے درمیان ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس فیصلے سے جڑے ایک پیراگراف نے مجھے چونکا دیا جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

پیرا گراف نمبر 66 کے یہ الفاظ کہ “اگر پرویز مشرف پھانسی کی سزا سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کی لاش کو گھسیٹ کر لایا جائے اور تین دن کیلئے ڈی چوک پر لٹکا دیا جائے” جیسے الفاظ نے مجھے انگشت بدنداں کر دیا۔

جی ہاں یہ تجویز میری یا آپ کی نہیں ہے۔ یہ تجویز اس تین رکنی بنچ کی خصوصی عدالت میں سے ایک جج کی تھی۔ ان الفاظ نے نہ صرف مجھے چونکایا بلکہ اس پورے فیصلے کو نہ صرف مشکوک کر دیا بلکہ فیصلے پر اٹھنے والے سوالات کو مزید تقویت دے دی اور فیصلے پر پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو یقین میں بھی بدل دیا۔ اس کا برملا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران بھی کیا۔ انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ مختصر فیصلہ آنے کے بعد ہمارے کچھ تحفظات تھے، بہت سے شکوک و شبہات تھے۔ اب تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہمارے شکوک و شبہات بالکل سچ ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاک فوج ایک ادارہ ہے، ایک گھر کی مانند ہے۔ ملک کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہم اپنے ادارے یعنی پاک فوج کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں اور ملک کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں۔

اس فیصلے میں دو ججز نے سزائے موت کی سزا کی حمایت کی جبکہ ایک جج جسٹس نذیر اکبر نے اس کی مخالفت کی اور اپنے اختلافی نوٹ میں پرویز مشرف کو بری کرنے کا کہا۔
مختصر فیصلہ جاری ہونے پر ہی ماہرین قانون نے اس فیصلے پر کافی اعتراضات اٹھائے کہ مقدمہ کی کارروائی کے دوران بہت سے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ اب تحریری فیصلہ پڑھ کر بادی النظری میں یہ فیصلہ مکمل طور پر متنازعہ بن چکا ہے۔ قانون کا ایک واضح اصول ہے کہ عدالتی فیصلے حقائق اور شواہد کو مدنظر رکھ کر دائرہ قانون میں رہتے ہوئے لکھے جاتے ہیں۔ بعض ماہرین تین دن تک لاش کو لٹکانے والی بات کو بھلے فیصلہ کا حصہ نہیں سمجھتے لیکن وہ کہتے ہیں کہ بہرحال وہ فیصلے کا ملحقہ حصہ ہے جسے اسی بنچ میں شامل ایک جج نے لکھا ہے۔ ماہرین قانون کی جانب سے اسے بہت زیادہ ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے آئین و قانون کی کسی بھی شق میں بڑے سے بڑے جرم کی سزا بھی ایسے نہیں دی جا سکتی۔ ماہرین قانون اور مذہبی علماء کی رائے میں اس طرح کی سزا نا صرف خلاف قانون ہے بلکہ خلاف شریعت بھی ہے۔ لہٰذا مزید طوالت میں جائے بغیر اس بحث کو یہیں پر سمیٹتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں گزشتہ تینوں ادوار میں حکمران جماعتوں نے اپنے پانچ پانچ سال مکمل کیے ہیں اور ملک جمہوریت کی جانب گامزن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں میں سیاسی بلوغت کا تاحال فقدان ہے۔ پارلیمنٹ میں حل ہونے والے مسائل کو بھی عدالت میں لے جاتے ہیں۔ حال ہی میں الیکشن کمیشن ممبران کے تقرر کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست اس کی واضح مثال ہے۔

اگر ہم ماضی  پر  نظر دوڑائیں تو جتنے بھی مارشل لاء لگے وہ ہمارے سیاسی سسٹم میں ناکامی کی بناء پر ہی لگے اور ہماری انھی جمہوری سیاسی جماعتوں نے ان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز کو ناصرف خوش آمدید کہا بلکہ اسمبلی میں ان کی توثیق بھی کی گئی۔ اکتوبر 1999 کے پرویز مشرف کے ٹیک اوور کی بھی ہماری اسمبلی نے توثیق کی اور کہا کہ یہ ٹیک اوور بالکل ٹھیک کیا گیا ہے۔ عوام نے بھی مٹھائیاں تقسیم کیں۔

برسبیل تذکرہ آپ احباب کے علم میں لاتا چلوں کہ گزشتہ جتنے بھی مارشل لاء لگائے گئے بدقسمتی سے ہمارے عدالتی نظام نے بھی انھیں پورا پورا تحفظ فراہم کیا۔ جی ہاں یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ بصد احترام بتاتا چلوں کہ مشرف کے ٹیک اوور کے بعد بھی انھی عدالتوں کے ججز بشمول جسٹس افتخار چوہدری نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے اکتوبر 1999 کے ٹیک اوور کے اقدام کی نا صرف توثیق کی بلکہ انھیں آئین میں ترمیم کا بھی پورا پورا اختیار دیا۔ غالب امکان ہے کہ اسی فیصلے کو  ذہن میں رکھتے ہوئے پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگائی۔ اب میں اس بحث میں نہیں جاتا کہ یہ ایمرجنسی قانونی تھی یا غیر قانونی۔ لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ میری اطلاعات کے مطابق تین نومبر 2007 کی اس ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد 7 نومبر 2007 کو قومی اسمبلی میں ہمارے عوامی نمائندوں نے متفقہ طور پر ایک قرارداد کے ذریعے اس ایمرجنسی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور اس اقدام کو درست قرار دیا۔ کیا آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم نہیں ہے۔ کیا پارلیمنٹ تمام اداروں سے بالاتر ادارہ نہیں ہے؟ چلیں ہم وقتی طور پر قومی اسمبلی کی اس قرارداد کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اب ہم اگر وقتی طور پر پرویز مشرف کو مجرم مان لیں تو کیا یہ جرم اکیلے پرویز مشرف سے ہی سرزد ہوا؟ کیا قانون اس بارے واضح نہیں ہے کہ کسی بھی غیر آئینی اقدام میں معاونت کرنے والے بھی برابر کے شریک جرم سمجھے جاتے ہیں۔ کیا خصوصی عدالت نے یہ دیکھا کہ اگر وہ پرویز مشرف کو مجرم ٹھہرا رہے ہیں تو اس کیساتھ شریک جرم کون کون ہیں؟ چند دن قبل جب وکلاء نے شریک جرم ٹھہرانے کیلئے مزید نام دئیے تو انھیں رد کیوں کر دیا گیا؟ پھانسی جیسی بڑی سزا دینے کی اتنی کیا جلدی تھی؟ کیا خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے تین ہفتے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے جاری ہونے والا فیصلہ نہیں پڑھا کہ سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران خصوصی عدالت ملزم کا 342 کا بیان لازمی طور پر لیا جائے؟ اسی کیس سے متعلقہ ایک اور کیس لاہور ہائی کورٹ میں ابھی زیرِ سماعت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری اطلاعات کے مطابق 2013 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے افراتفری کے عالم میں اپنی کابینہ سے مشاورت کے بغیر یہ کیس فارورڈ کیا۔ کیا اس وقت یہ نہیں دیکھا گیا کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی پرویز مشرف کیساتھ شدید چپقلش تھی۔ کیا کیس بناتے وقت مفادات کا ٹکراؤ نہیں تھا؟ کیا یہ ایک اہم محرک نہیں ہے؟ حضور والا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جس قدر اسے سمجھا جا رہا ہے۔ بادی النظری میں اس کیس کے اندر بہت سے ایسے قانونی و آئینی محرکات ہیں جن کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا گیا۔ دراصل اس فیصلے میں بہت سی قانونی موشگافیاں ہیں جن کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ بہرحال اس فیصلے کیخلاف ریویو یا سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے دوران یہ سارے عوامل زیرِ بحث آئیں گے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply