شاہ صاحب نے ہاتھ دیکھ کر فرمایا تھا “تم زندگی بھر خوب سفر کرو گے”۔ افضل بھائی کی ہونڈا سٹی میں سفر کرتے ہوئے عقدہ کھلاکہ یہ سفر نہیں suffer تھا جس کی پیشنگوئی شاہ صاحب بیس برس قبل فرما چکے تھے۔
گہرے نیلے رنگ کی یہ گاڑی بمعہ چابی جب ہمیں تھمائی گئی تو محسوس ہوا جیسے نیلام گھر سے انعام سمیت واپسی ہو رہی ہے۔ افضلبھائی کی ایک گاڑی وقتی طور پر ہمارے یہاں مستعمل تھی۔ ۱۹۷۳ ماڈل ٹویوٹا کرینہ مجھے ایک بزرگ خاتون کی داستان یاد دلاتی رہتیجس کا کلائمیکس آنٹی کے دانت نہ ہونے کے باوجود ان کے چونسے چوسنے کے شوق پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ کرینہ بی بی بوجہ عمررسیدگی، صرف کراچی شہر کے اندر اپنے سواروں کر اینٹرٹین کرنے پر قادر تھیں۔ کراچی تا راولپنڈی کوئی ۱۴۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ بنتاہے۔ کرینہ کے بارے میں یقین ہے کہ زبان دی جائے تو برملا کہہ اٹھتی “پانچ بندے اور اتنی لمبی سروس؟ ہم سے نہ ہوپائے گا”۔
سو ہم نے افضل بھائی کو کرینہ واپس کر کے ہونڈا سٹی لے لی۔ آگے چل کر جو ہوا اس سے قطع نظر، افضل بھائی کے ایثار اورمحبت کا ثبوت یہی ہے کہ انہوں نے سوچے سمجھے بغیر سٹی کی چابی ہمیں تھما دی۔ ملتان سے ذرا پہلے جو ہوا اس کے بعد شیطاننے وسوسہ ڈالا کہ شاید افضل بھائی خود ہی ۱۹۷۳ ماڈل گاڑی کی واپسی چاہ رہے تھے لیکن ہم نے اعوذ باللہ پڑھ کر سر جھٹک دیا۔
رات کے اڑھائی بجے میں، عظیم (کزن)، اہلیہ، خالہ اور بچے سفر پر گامزن ہوئے۔ کراچی سے سکھر تک موٹروے نامی کوئی شےنہیں۔ سڑک پر ٹرکوں کا راج ہے۔ نفیس ڈرائیونگ کرنے والا میرا کزن عظیم ٹرک کے پیچھے جا کر ایک بار ڈپر لائٹ مارتا جیسے کہہ رہاہو “انکل پلیز راستہ دے دیجیے”۔ ٹرک والا اپنی دھن میں مگن چلتا رہتا۔ جیسے جواباً کہہ رہا ہو “میرے فلاں پہ ٹھنڈ”۔
کراچی سے حیدر آباد تو صبر کر لیا اس کے بعد ڈرائیونگ سیٹ میں نے سنبھال لی۔ اب میں ہارن پر ایک ہاتھ ڈپر لائٹ پر دوسرا ہاتھرکھے چوہا بم بن کر رہ جاتا۔ اور پھر بھی نہ ہٹتا تو غلط اوور ٹیک تو تھا ہی۔ ایک آدھ بار ہارڈ بریک کا موقع آیا جس پر گاڑی کے پہیےاپنے ساتھ ہونے والے استحصال کی کہانی چررررررررر کی آواز میں نکالتے۔ اس پر مجھے پہیوں پر ترس آتا اور میں اگلی بار ان کیآزمائش سے باز رہنے کا عظم کر لیتا۔ دس پندرہ کلومیٹر بعد پھر کوئی ٹرک والا مجھے اپنی یہ قسم توڑنے پر مجبور کر دیتا۔
شکارپور کے قریب پہنچ کر سب کو بھوک ستانے لگی۔ ٹٹل پھٹل ڈھابہ دیکھ کر بیٹھ گئے۔ صبح ساڑھے چھ بجے ایسی جگہ مرغ کڑاہیمل جانا غنیمت تھا۔ ہوٹل میں فیملی کے لیے الگ جگہ تھی جس میں ایک کھڑکی تاڑو ماڑو برادران ملت کی دلجوئی واسطے کھلی رکھی گئیتھی۔ صبح صبح الٹا اخبار رکھے بہانے بہانے سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کئی بار مونچھڑ حضرات سے نظریں ملتی رہیں۔ ایکلمحے ایسا محسوس ہوا جیسے ہم لونڈے ہی قرأۃ العین ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
مرغ کڑاہی آنے سے ذرا پہلے دو مقامی بزرگ مرد، ایک بزرگ خاتون اور ایک نوجوان لڑکی ہمارے باجو والی ٹیبل پر براجمانہوگئے۔ لڑکی دباؤ میں لگ رہی تھی۔ دو بار آنکھ لڑنے کے بعد میں نے سن گلاسز پہن لیے۔ اس کے بعد چونکہ میں تکنیکی طور پرنظروں کا پردہ کر چکا تھا لہذا اس گناہ سے محفوظ رہا۔ اب موصوفہ کی انکھیاں ہمارے چشمے سے ٹکرا کر واپس چلی جاتیں۔ الحمد للّٰہ۔نظروں کا پردہ کیسے کیا جاتا ہے یہ راز ہم پا چکے تھے۔ جو ہم نہ جان سکے وہ یہ تھا کہ ساتھ بیٹھیں بیگم یہ تمام صورتحال دیکھتے ہوئےمحفوظ ہو رہی تھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس وقت دہی لانے کا انکار کرنے پر بیگم وہ واقعہ زبان پر لاتی ہیں۔
حیدرآباد سے سکھر تک کا راستہ نواز شریف سے پہلے کے ادوار کی یاد دلاتا ہے۔ سکھر کے بعد موٹروے شروع ہوتا ہے۔ سکھر تکناہنجار ٹرک ڈرائیورز کی غنڈہ گردی دیکھ کر موٹروے ایک نعمت لگنے لگتی ہے۔ خیال آتا ہے کہ وہ شخص بھی الگ ہی تذلیل کا حقدار ہے جو موٹروے پر پہنچ کر بھی ایک بار نواز شریف کو دعا نہ دے۔
سکھر سے موٹروے پر سفر شروع ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے فشار خون واپس عمومی سطح پر آگیا۔ دیگر موٹر ویز کی نسبت یہ موٹروے دو سے تین لینز کا ہے۔ تاہم ٹریفک چونکہ اتنی زیادہ نہیں لہذا کہیں بھی رش محسوس نہ ہوا۔ موٹروے پر لمٹ ۱۲۰ کلومیٹر فیگھنٹہ ہے۔ کیمرہ کوئی نہیں۔ امارات ہوتا اور گاڑی میری اپنی ہوتی تو دو سو پر رکھ کر جہاز اڑانے کی پریکٹس کرتا۔ تاہم یہ پاکستان تھااور ہماری تشریف کے نیچے افضل بھائی کی گاڑی تھی۔ افضل بھائی شاید ہماری بد عادات سے واقف تھے لہذا گاڑی کی سیٹنگ کچھایسی کروائی ہوئی تھی کہ ۱۲۱ کلومیٹر فی گھنٹہ پر پہنچ کر فرط جذبات سے لرزنا شروع ہوجاتی۔ اس پر افضل بھائی کا قول زریں یاد آتا“سر میں نے کبھی ۱۲۰ سے اوپر چلائی نہیں”۔ سر جی، اس سے اوپر یہ طشتری اڑتی بھی نہیں۔
ہمارے رات اڑھائی بجے نکلنے کا ایک مقصد میری اگلی شام ۵ بجے ایک دفتری آن لائن میٹنگ بھی تھی۔ اس میٹنگ میں باچیز نےایک عدد پریزینٹیشن دینی تھی۔ اب تک ہم وقت پر تھے۔ یعنی جس رفتار سے سفر جاری تھا امید تھی کہ ۴ بجے ملتان شہزاد بھائیکے گھر پہنچ جائیں گے جہاں آرام سے کانفرنس کال ہوجائے گی۔ اسی کانفڈنس میں ہم نے اعظم پور پر بیت الخلاء کی نیت سےگاڑی روکنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اس روز کا بدترین فیصلہ ثابت ہوا۔
اعظم پور میں گرمی جانی سنز والے جوبن پر تھی۔ میں نے بیت الخلاء کے بالکل سامنے گاڑی روکی، انجن بند کیا اور چابی نکال کرجیب میں رکھ لی۔ سب نے باتھ روم یاترا کی۔ میں نے اور عظیم نے ایک ایک سوٹا بھی مارا۔ سب فارغ ہو کر واپس گاڑی میںبیٹھ گئے۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے باہر کی ہوا بند تھی۔ گاڑی کا اگنیشن گھمایا تو گاڑی سٹارٹ ہونے سے انکاری۔ اب ہماری ہوابند۔ پھر چابی گھمائی۔ گاڑی پھر انکاری۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پسینے میں شرابور سبھی افراد کو دعائیہ کلمات میںمصروف پایا۔ شاید ایک میں ہی تھا جو زیر لب مغلظات بکنے میں لگا پڑا تھا۔ ممکن ہے باقی سب بھی یہی کر رہے ہوں بہرحالحسن ظن رکھنا چاہیے۔
قریب بیس منٹ گاڑی کی منت کرنے کے بعد افضل بھائی کو کال ملائی۔ افضل بھائی غالباً چل ماحول میں اے سی لگائے بیٹھےتھے۔ نہایت اطمینان سے ہماری غیر مطمئن باتیں سن کر کہنے لگے “سر ایسا کریں بیس پچیس منٹ کے لیے چھوڑ دیں پھر سٹارٹکریں گے تو ہوجائے گی۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔ آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے”۔ ویسے تو اس گرمی میں بیس پچیس سیکنڈ کھڑا ہونابھی ایک مسئلہ تھا لیکن افضل بھائی کے لہجے میں جو پر اعتمادی تھی اس نے ہمیں مطمئن کر ڈالا۔ ہم نے ایک سالہ میکائیل بنمعاذ کا پیمپر چھوڑ کر سب اتارا اور باہر کھڑے ہوگئے۔
کسی طرح پچیس منٹ گزار کر ایک بار پھر اگنیشن میں چابی گھمائی لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ افضل بھائی کو دوبارہ فون کیا“افضل بھائی گاڑی کی صورتحال اب بھی وہی ہے، کیا اب ہم گھبرا سکتے ہیں؟”۔ ہماری آواز میں عیاں درد سن کر شاید افضلبھائی بھی گھبرا اٹھے۔ اب انہیں ٹربل شوٹنگ سوجھی۔ پہلا مشورہ جو دیا وہ یہ تھا کہ گاڑی کی بیٹری کے دائیں ٹرمینل میں چابی پھنساکر گاڑی سٹارٹ کریں۔ پوچھا سر چابی پکڑے رکھنی ہے یا چھوڑ کر سٹارٹ کرنی ہے۔ بولے نہیں سر ٹرمینل پکڑے رہے تو آپ جلجائیں گے۔ یہ جواب سن کر آدھے تو ہم ویسے ہی جل گئے۔ خیر مرتے کیا نہ کرتے یہ کام بھی کر دیکھا۔ نتیجہ صفر۔
“افضل بھائی، نہیں بنا کام۔ اب کیا کریں؟ موٹروے پولیس کو کال کر لیں؟”۔ بولے “سر آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ ایسا کریںبیٹری کے ٹرمینلز پر پانی ڈالیں”۔ پوچھا “افضل بھائی پانی دونوں ٹرمینلز پر ڈالا اور ٹرمینل مل گئے تو کوئی شارٹ وغیرہ نہ ہوجائے”۔جواب آیا “آپ نے گھبرانا نہیں ہے”۔ اس وقت ہمیں سمجھ آئی کہ خان صاحب فلسفۂ گھبرانا نہیں ہے سے ریاست کس طرح چلارہے ہوں گے۔ خیر ہم نے یہ کام بھی کر دیکھا۔ گاڑی پھر سٹارٹ ہونے سے انکاری۔ اب کی بار افضل بھائی کو کال کرنے سےہم گھبرا رہے تھے۔
افضل بھائی کو اگلی کال کرنے سے پہلے ہم نے موٹروے پولیس کو کال کی۔ انہوں نے گاڑی نمبر اور مقام وغیرہ پتہ کر کے خوشخبریسنائی کہ بیس پچیس منٹ تک امداد پہنچ جائے گی۔ یا خدا! مزید بیس پچیس منٹ! دوسری جانب میری میٹنگ کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔
افضل بھائی کو پچھلی کالز کرنے کے بعد ہمیں یہ اندازہ تو ہوچکا تھا کہ ان کے پاس فون پر گاڑی ٹھیک کروانے کے مجرب نہ سہیدلچسپ طریقے ضرور دستیاب ہیں۔ ہم نے وقت گزاری کے لیے ایک بار پھر افضل بھائی کو فون لگایا۔ “افضل بھائی، گاڑی اببھی بند ہے”۔ کہنے لگے “اب آپ گھبرا سکتے ہیں”۔ دل کو قدرے سکون ہوا۔ ایسا لگا کہ شاید اب گاڑی کسی نہ کسی طرح سٹارٹہو ہی جائے گی۔ خیر افضل بھائی نے اب کی بار ایک نیا طریقہ آزمانے کا سوچا۔ کہنے لگے گاڑی کو گئیر میں ڈال کر سٹارٹ کریں۔میں نے ۷ برس آٹومیٹک گاڑی چلائی ہے۔ یہ حل سن کر ہنسی آئی لیکن پھر سوچا ہو سکتا ہے افضل بھائی کی گاڑی میں ایک آدھرگ زیادہ ہو، شاید سٹارٹ ہوجائے۔ فون پر ہی کوشش کی لیکن غالباً ہونڈا کی رگیں پوری تھیں۔ اب افضل بھائی کہنے لگے “سرگاڑی کو گئیر میں ڈال کر آگے پیچھے پش کریں”۔ میں ایسا کر تو لیتا مگر ڈر تھا کہ آس پاس موجود لوگ ہمیں “ڈانسنگ کار” مجاہدین نہسمجھ بیٹھیں۔ یہ حرکت کرنے سے ہم نے انکار کر دیا۔
مجھے خوف تھا کہ اب افضل بھائی سے پوچھا تو شاید کہہ دیں کہ گاڑی کے سائلینسر یا کسی اور مقام پر انگشت ڈال کر دھکا دے کردیکھیں۔ یہ حل میری برداشت سے باہر تھا لہذا فون پر خدا حافظ کہہ کر موٹروے امداد کے منتظر ہوگئے۔ اتنے میں ایک اور ہونڈاسٹی آتی دکھائی دی۔
افضل بھائی سے گاڑی لیتے ہوئے انہوں نے کوئی تین درجن مختلف سپیئر پارٹس کے بارے میں بتایا کہ یہاں یہاں پڑی ہیں۔ جسچیز کی اس وقت یاد نہ آئی وہ تھی جمپر وائر جس کے ذریعے بیٹری دوسری گاڑی کی بیٹری سے چارج ہو سکتی تھی۔ اتفاق سے آنےوالی سٹی میں جمپر وائر موجود تھی۔ جہنمی گرمی میں اس فرشتہ صفت انسان سے درخواست کی کہ بھیا بیٹری شاید ڈرین ہے مدد کردو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحبِ سفید سٹی ایک فرشتہ تھے تاہم چونکہ پاکستانی فرشتہ تھے لہذا بھنڈ مارنا یقینی تھا۔ کہنے لگا“بھائی ابھی گاڑی بند کی ہے ایسا کریں آپ دھکا لگا کر یہاں لے آئیے میں جمپر دے دیتا ہوں”۔ مجبور تھے لہذا دھکا لگانا پڑا۔ ویسےبھی پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے ناکہ کنواں پیاسے کے پاس۔ دھکا لگا کر قریب لے کر گئے۔ جمپر وائر لگائی، گاڑی سٹارٹ کی اورہوگئی۔
فبأی آلاء ربکما تکذبان؟
ٹک شاپ پر بیٹھی فیملی کو ہاتھ ہلایا جو بھاگم بھاگ گاڑی تک پہنچے۔ سب گاڑی میں بیٹھے اور ملتان کی طرف چل پڑے۔ الحمد للّٰہ۔ ثمالحمد للّٰہ۔ افضل بھائی کو فون کیا اور مژدہ سنایا۔ کہنے لگے “سر آپ ویسے ہی گھبرا رہے تھے”۔ اس دن اندازہ ہوا کہ افضل بھائیاللہ کے فضل سے تھادل بنا ہی ٹھنڈے بندے ہیں۔
موٹروے پولیس کو کال کر کے بتانا چاہا کہ سر چالیس منٹ تک آپ کی مدد تو نہ ملی البتہ غیب سے امداد آن پہنچی۔ ایک بار دس منٹ بعد کال کٹ گئی۔ دوسری بار آدھے گھنٹے تک ہولڈ پر رہنے کے بعد میں نے خود کاٹ دی۔ راستے میں موٹروے ملتان ایگزٹ سے ذرا پہلے رک کر آفس کی کانفرنس کال اٹینڈ کی جو چالیس منٹ جاری رہی۔ اس دوران گاڑیسوچ آف کرنے کی جسارت نہیں ہو سکی۔ میٹنگ ختم کر کے ملتان پہنچ گئے جہاں شہزاد بھائی ہمارے منتظر تھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں