“امرود کی مہک” سے انتخاب/ترجمہ: اجمل کمال

” فیدل کاسترو ” سے میری قریبی اور دِلی دوستی کا آغاز ادب کے حوالے سے ہوا۔۔۔ 1960 کی دہائی میں ،” پرینسا لاطینا ” میں ملازمت کے دنوں میں ، میں اسے سرسری طور پر جاننے لگا تھا ، لیکن مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ ہمارے درمیان کچھ زیادہ چیزیں مشترک ہیں۔
بعد میں جب میں ایک مشہور ادیب اور وہ دنیا کا معروف ترین سیاست دان بن چکا تھا ، ہماری کئی بار ملاقات ہوئی ، مگر تب بھی ، باہمی احترام اور خیر سگالی کے باوجود ، میں نے محسوس نہیں کیا کہ اس تعلق میں سیاسی ہم آہنگی سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔

6 برس پہلے ایک روز صبح منہ  اندھیرے اس نے مجھ سے اجازت چاہی ، کیونکہ اسے گھر جاکر بہت سا مطالعہ کرنا تھا۔۔ اس نے کہا کہ اگر چہ یہ کام اسے لازماً کرنا پڑتا ہے لیکن وہ بیزار کن اور تھکا دینے والا کام لگتا ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ اس لازمی مطالعے کی تھکن دور کرنے کے لیے وہ کوئی ایسی چیز پڑھا کرے جو  ذرا ہلکی پھلکی ہو ،مگر اچھا ادب ہو۔۔۔ میں نے مثال کے طور پر چند کتابوں کے نام لیے ، اور یہ جان کر حیران ہوا کہ نہ صرف اس نے یہ تمام کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ اس پر اچھی نگاہ تھی۔

اس رات مجھ پر اس بات کا انکشاف ہوا جس سے چند ہی لوگ واقف ہیں ، کہ فیدل کاسترو بے حد پُر جوش پڑھنے والا ہے ، کہ اسے ہر زمانے کے اچھے ادب سے محبت ہے ، اور یہ کہ وہ اس کا نہایت سنجیدہ ذوق رکھتا ہے۔۔۔۔ دشوار ترین حالات میں بھی ، فرصت کے لمحات میں پڑھنے کے لئے اس کے پاس ایک نہ ایک عمدہ کتاب ضرور رہتی ہے۔

اس شب رخصت ہوتے ہوئے میں نے اسے پڑھنے کے لئے ایک کتاب دی۔۔ اگلے روز 12 بجے میں اس سے دوبارہ ملا تو وہ اسے پڑھ چکا تھا۔۔۔
وہ اس قدر محتاط اور باریک بیں قاری ہے کہ وہ نہایت غیر متوقع مقامات پر تضادات اور واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی کر دیتا ہے۔

میری کتاب ” ایک غرقاب شدہ جہاز کے ملاح کی داستان ” پڑھنے کے بعد وہ صرف یہ بتانے کے لیے میرے ہوٹل آیا کہ میں نے کشتی کی رفتار کا حساب لگانے میں غلطی کی ہے ، اور اس کے پہنچنے کا وقت ہر گز وہ نہیں ہوسکتا جو میں نے بیان کیا ہے۔۔ اسکی بات درست تھی۔۔۔ اس لئے” ایک پیش گفتہ موت کی روداد ” کو شائع کرانے سے پہلے میں مسودہ اس کے پاس لے گیا، اور اس نے شکاری رائفل کی خصوصیات کے بارے میں ایک غلطی کی نشان دہی کی۔

لگتا ہے اسے ادب کی دنیا سے محبت ہے ، یہاں اس کا جی لگتا ہے ، اور اسے اپنی بے شمار تحریر شدہ تقریروں کے ادبی اسلوب پر محنت کرنے میں لطف آتا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک موقعے پر اس نے ، حسرت کے سے انداز میں ، مجھے بتایا :
” اپنے اگلے جنم میں میں ایک ادیب بننا چاہتا ہوں۔۔

Facebook Comments