دوزخ۔۔۔۔خالد داؤد خان

لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے والے اُجلے صاف ستھرے ہم وطنوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جو کسی حد تک میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا چہرہ ہے ، یہ وہ ٹولہ ہے جو کچے پکے علم اور اپنی اپنی دانش کے زعم میں فقط ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے مصروفِ عمل ہے، یہ وہ مخلوق ہے جسے اپنے کل کی کوئی خاص فکر نہیں ہوتی، باپ کے پیسے سے اعلیٰ یونیورسٹیوں میں مستیاں چلتی ہیں ، خاندانی وقار کیلئے جج  یا فوجی افسر بننا ہے، کچھ نہیں تو سی ایس ایس تو ضرور پاس کرنا ہے۔ کچھ بھی نہ کر پائے تو باپ کا پیسہ تو ہے ہی، کوئی بزنس کر لینگے لہٰذا فکر نہ فاقہ ، عیش کر کاکا۔۔۔ایک وہ  ہیں  جو رات بھر کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے اور  ولایتی مشروبات  کے  گھونٹ پی پی کر نیم بے ہوشی کے عالم میں ٹاک شوز دیکھتے ہیں اور علی الصبح قابلِ اعتراض حالات میں بیانیوں کے چربے تراشتے ہیں، انکی پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ چاند ماریوں نے سوشل میڈیا کو پانی پت بنا رکھا ہے ، اودھم ہے، کہرام مچا ہوا ہے ۔  نمک کی پکار عرش سے ٹکرا چکی جبکہ آٹے کی فرش پر بھی کوئی جگہ نہیں۔

وہ پاکستانی جو جون کی گرمی میں اپنی چمڑی ادھیڑ لیتا ہے لیکن ایک خاندان کا کھانا پورا نہیں کر پاتا ۔جسکی اُجرت  اُجلی اُجلی کتابوں میں تو 15 ہزار ہے لیکن لیتا وہ اب بھی 6 ہزار ہی ہے، اسی میں اپنے خاندان کو کھانا کھلاتا ہے ۔ بجلی  گیس کے بل بھی اسی میں، دوائی کی تو خیر پتھروں کو ضرورت ہی نہیں پڑتی، رہی تعلیم کی بات تو جانور کے بچے کب سکول جاتے ہیں۔ ایسے پتھر اور ان جیسے کروڑوں جانور میرے ملک کی اکثریت ہیں ، ایسی اکثریت کیلئے کون نواز شریف اور کیسا عمران خان، کیسی جمہوریت اور کونسی آزادی، حقوق؟؟ یہ کس بلا کا نام ہے؟ کہاں کی آمریت اور کس کا نظام ِ مصطفیٰ؟ میرے اس پاکستانی کو کسی پانامہ سے کوئی غرض نہیں۔

اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آئی ایس آئی کا پاکستان کی سیاست میں کوئی عمل دخل ہے یا نہیں، جمہوریت رہے یا ماشل لاء لگ جائے، اسلامی نظام رائج ہو یا کسی کافر کی حکومت آئے اسکی بلاسے۔اسے کوئی سروکار نہیں کہ نوازشریف جیل جائے یا مزید لوٹتا رہے، یا دمِ مرگ اقتدار سے چمٹا رہے۔ اگر کوئی غرض ہے تو اسے اپنے پیٹ کے دوزخ سے غرض ہے کوئی فکر ہے تو صرف اور صرف اس دوزخ کی جو کم بخت بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔دن بھر چمڑی ادھڑ جاتی ہے لیکن روٹی پوری نہیں ہوتی۔ جوتیاں گھِس جاتی ہیں لیکن نوکری نہیں ملتی، عمریں بیت جاتی ہیں لیکن محلے کےدوکاندار کے اُدھار سے جان خلاصی نہیں ہوتی۔بجلی کا بل تب کھولتا ہے جب دل ہی دل میں کم از کم تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر اس پہ پھونک لیتا ہے ۔ ایسی صورت میں اعلیٰ   تعلیم تو محض ایک سراب ہے ، جو ملتی ہے وہ بھی ایسی دقیانوسی ، اتنی گھٹیا کہ نوکری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ ہے وہ پاکستانی جو اس ملک کی خاموش اکثریت ہے لیکن چیختی چلاتی، چنگھاڑتی، منہ کو آتی اقلیت کے سامنے اس کا دم گھٹ چکا ہے  اس میں بو لنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے ، اسے پیٹ کے دوزخ سے فرصت ہی نہیں کہ کسی پگلے کے بیانیے کی طرف دھیان دے سکے۔اگر خوش فہموں کا یہ خیال ہے کہ یہ اکثریتی پاکستانی کسی کے بیانیوں شیانیوں کیلئے میدانِ کارزار میں کود پڑیگا تو بھول ہے انکی۔  اس میں اتنی سکت چھوڑی ہی کب ہے آپ نے ۔۔ وہ آپ کیلئے اپنی دیہاڑی کیوں چھوڑے؟ کیوں وہ آپ  کے اقتدار کی ذاتی جنگ میں کُود کر اپنے بچوں کو بھوک سے مار دے۔ آپکے غیر ملکی بچوں کا مال بچانے کیلئے وہ اپنے بھوکے ننگے  خالص وطنی بچوں کا پیٹ کیوں کاٹے؟ دن بھر دھوپ میں جل کر پورے خاندان کیلئے آمریت میں بھی ایک ایک روٹی ہی کماتا تھا ، آج جمہوریت میں بھی ایک ہی کما کے لاتا ہے۔  وہ آپکی کرسی کیلئےہرگز نہیں اٹھے گا، ارے اس میں تو اتنی جان بھی نہیں کہ اپنے لئے ہی اُٹھ سکے۔ جب اس کی اپنی حکومت اسے چھپ چھپ کر  نادیدہ ٹیکسوں کے ذریعے ہر قدم پر لوٹتی ہے،  پوری دنیا میں پیٹرول سستا ہونے کے بعد بھی اس ناتواں کے کندھوں سے بوجھ نہ اُترا، اسکے گھر کے باہر واپڈا نے ایسا میٹر لگا دیا  کہ وہ تین سے چار گُنا اضافی وصولی کر رہا ہو، اور تو اور اسکے موبائل کارڈ تک کو آپکی جمہوریتوں اور آمریتوں نے نہ بخشا۔ اس وقت اپنے حق کیلئے نہ اُٹھ پا یا تو آپکے ڈھکوسلوں کیلئے کبھی نہیں اُٹھنے والا ۔

پہلے اسے اس قابل تو بنائیں کہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے دوزخ سے آگے بھی کچھ دیکھ پائے، کچھ سوچ پائے مگر آپ نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں، آپکے اپنے دوزخ کی آگ تو اس بھوکی ننگی عوام سے بھی ہزار گُنا بڑھ کر ہے۔ آپ تو ہمہ وقت اپنے ہی دوزخ کے چکر میں رہے۔ غربت کی چکیوں میں پِستا ہوا پاکستانی تو کبھی آپکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں جن قوموں کے دوزخ بھرے ہوتے ہیں وہ اپنی جمہوریتوں کی حفاظت بھی ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں، اپنے اُردگانوں کی خاطر ٹینکوں کے آگے بھی لیٹ جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو قذافیوں کو سنگسار بھی کر گزرتے ہیں لیکن معاف کیجئے گا حضور ، آپ وہ نہیں ہیں، آپ نے صرف اورصرف اپنے دوزخ کو جنت بنایا، قوم کے دوزخ  کودوزخ ہی رہنے دیا۔اب آپ ان سے کسی قسم کی طرفداری کی ذرہ برابر بھی کوئی امید نہ رکھیں، آپکو مایوسی ہوگی، اس عمر میں ایسا صدمہ شاید آپ برداشت نہ کر پائیں۔۔ بادشاہو، محنت کش اکثریتی پاکستانی آپ کی ٹوٹی ہوئی کرسی یا آپکے بچوں کے بکھرتے سیاسی مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں کر تا۔آپ تو انکے  روز مرہ مسائل و مصائب کی گنتی میں ہی نہیں آتے۔۔انکے پاس تو گھریلو مسائل سے نکل کر سیاست پر بات کرنے کا وقت تک نہیں ہے انکی تو ترجیحات ہی کچھ اور ہیں بالکل ویسے ہی جس طرح دورانِ اقتدار آپکی ترجیحات عوام کے بجائے کچھ اور ہوا کرتی تھیں۔ آپ ان کیلئے ایک” نان ایشو ” ہیں، ویسا ہی “نان ایشو” جو کبھی انکا دوزخ آپکے لئے ہوا کرتا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply