بیوی کے ساتھ زبردستی کرنا (Marital Rape)

بیوی کے ساتھ زبردستی کرنا (Marital Rape)
حافظ محمد زبیر
بیوی کے ساتھ زبردستی تعلق قائم کرنے کے بارے سوالات بہت تیزی سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، دونوں کی طرف سے۔ اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے فی الحال تین بڑے پہلو ہیں؛ مذہبی، نفسیاتی اور قانونی۔ مذہبی اعتبار سے بیوی اس بات کی پابند ہے کہ جب اس کا شوہر اسے اپنے بستر پر بلائے تو وہ انکار نہ کرے اور اگر وہ انکار کرے تو اس پر ساری رات فرشتوں کی لعنت رہتی ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ بات عورت کو سمجھ نہیں آ سکتی کیونکہ وہ مرد نہیں ہے اور مرد کی سائیکالوجی کو نہیں سمجھ سکتی، البتہ فرائیڈ اگر یہ بات کرتا تو اس پر ہزاروں نہ سہی تو سینکڑوں کتابیں ضرور لکھی جا چکی ہوتیں۔
پس اگر بیوی اپنے شوہر کو انکار کر دے تو شوہر اپنی بیوی سے زبردستی کر سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس بارے فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ بیوی کا یہ انکار کرنا “نشوز”یعنی سرکشی ہے اور نشوز کے بارے قرآن مجید نے یہ ہدایت دی ہے کہ پہلے اپنی بیوی کو وعظ کرے، اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو بستر علیحدہ کر لے، اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو اس پر سختی کرے۔ اگر تو اس کے باوجود بیوی انکار پر اصرار کرے تو وہ نان نفقے کی مستحق نہیں رہتی۔ لیکن یہاں یہ فرق ملحوظ رہے کہ فقہاء کے نزدیک اس انکار سے مراد بیوی کا بلاوجہ انکار کرنا ہے اور اگر انکار کی کوئی وجہ ہے جیسے بیوی بیمار ہے تو اس کا یہ حکم نہیں ہے۔
اس مسئلے کا دوسرا پہلو نفسیاتی ہے کہ عورت کی نفسیات یہ ہے کہ اس کے لیے یہ برداشت کرنا مشکل ہے کہ اس کے ساتھ زبردستی کوئی تعلق قائم کیا جائے۔ وہ یہ چاہتی ہے کہ جب وہ خود اپنے آپ کو مرد کے سپرد کرنے کے لیے دلی طور تیار ہو جائے تو اس وقت اس سے ایسا تعلق قائم کیا جائے، ورنہ تو اس کے لیے شدید ذہنی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، ان میں سے ایک اس فعل سے ہی نفرت کرنا یا خود خاوند سے نفرت کرنا بھی شامل ہے۔ اکثر بیویوں کے اپنے خاوندوں سے بھاگنے کی وجہ یہی ہے کہ ان سے ان کی رضامندی کے بغیر تعلق قائم کر لیا جاتا ہے جو ان کے ذہنی مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔
میرے خیال میں اعلیٰ اخلاق یہی ہیں کہ اگر خاوند کے ہاتھ لگانے پر بیوی اس کے ہاتھ کو جھڑک دے تو اس کو ہاتھ لگانے کا خیال بھی دل سے نکال دے۔ اور یہی رویہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے سے ہمیں ملتا ہے کہ جب آپ کے ہاتھ لگانے پر آپ کی ایک منکوحہ نے غلط فہمی میں اعوذ باللہ پڑھ دی تو طبیعت کی نفاست کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنی بات پر اس سے علیحدگی اختیار کر لی کہ شاید اسے میرا ہاتھ لگانا پسند نہیں آیا ۔لہٰذا اس لیے اس نے اعوذ باللہ پڑھی ہے جبکہ اس منکوحہ کو کسی اور زوجہ محترمہ نے یہ کہا تھا اور جان بوجھ کر کہا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزاج کو جانتی تھیں اور پسند نہیں کرتی تھیں کہ آپ کی زوجیت میں کسی اور خاتون کا اضافہ ہو۔
ہمارے ہاں عموما ًجو شادیاں ہوتی ہیں تو لڑکے اور لڑکی میں پہلے سے کوئی مانوسیت اور الفت نہیں ہوتی ۔لہٰذا ایسی صورت میں پہلے دن ہی ایسا تعلق قائم کرنا عموماً لڑکی کے لیے ایک ذہنی اذیت کا سبب بن جاتا ہے اور اس فعل سے نفرت ساری زندگی کے لیے اس کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے۔ آپ کی بیوی اگر پہلے دن آپ کو ہاتھ لگانے سے روکتی ہے تو میرے خیال میں یہ فطری چیز ہے، اسے وقت لینے دیں، دو تین دن میں بات چیت سے مانوسیت پیدا کریں اور پھر کوئی ایسا تعلق قائم کریں ورنہ آپ اسے ذہنی مریض بھی بنا سکتے ہیں، خاص طور اس تعلق کے حوالے سے۔ نکاح کے دو بول سے اگرچہ حقیقت تو تبدیل ہو گئی ہے کہ وہ آپ کی منکوحہ بن گئی ہے لیکن ایک پردہ دار خاتون کے لیے اسے ذہناً قبول کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے کہ کوئی اس کے پورے جسم کا مالک بن چکا ہے، اور وہ بھی چند لمحوں میں۔
اس مسئلے کا تیسرا پہلو قانونی ہے تو بعض ممالک میں بیوی کے ساتھ زبردستی کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے کہ جس کی سزا بھی ہے جیسا کہ امریکہ، برطانیہ، روس، جاپان اور ترکی وغیرہ میں یہ ایک جرم ہے کہ شوہر یا بیوی میں سے کوئی بھی اپنے پارٹنر کے ساتھ زبردستی تعلق قائم کرے اور اکثر یورپین ممالک میں یہ ایک جرم ہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اکثر مسلم اور مشرقی ممالک مثلاً انڈونیشیا، ملائیشیا، سعودی عرب، ایران، چین، انڈیا وغیرہ میں یہ جرم تصور نہیں ہوتا اور یہی بات درست ہے۔
ٹھیک ہے کہ بیوی لونڈی نہیں ہے، بیوی اور لونڈی میں یہی فرق ہوتا ہے کہ بیوی سے زبردستی نہیں کی جاتی لیکن ایسی صورت میں بیوی اگر اتنی ہی تنگ ہے تو اس کے پاس خلع کا آپشن تو موجود ہے۔ اب یہ کیا بات ہوئی کہ اس نے رہنا بھی اسی شوہر کے ساتھ ہے، اور شوہر سے نان نفقہ بھی پورا لینا ہے اور اس کے حق کی بات آئے تو اب بیوی کہے کہ میرے نفسیاتی مسائل ہیں، ذہنی ہم آہنگی کے بغیر میں اپنا آپ اس کے حوالے کیسے کر سکتی ہوں؟ تو بی بی پھر ایسے شوہر سے علیحدگی لے لو یا پھر کم از کم اس سے نان نفقے کا مطالبہ ہی بند کر دو کہ اسے تو اس پر لگایا ہوا ہے کہ وہ تمہارے مسائل سمجھے لیکن یہ کہ تم اس کے مسائل کو کنسڈر کرو تو یہ بات تمہیں سمجھ نہیں آتی اور اس کے اصرار پر وہ تمہیں جنسی حیوان لگنے لگتا ہے لیکن وہ تو نان نفقے کے مطالبے پر تمہیں اقتصادی حیوان نہیں کہہ رہا۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ مزاج کی نفاست اور اعلیٰ اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ شوہر اس معاملے میں بیوی کے ساتھ زبردستی نہ کرے بلکہ افہام وتفہیم سے اس مسئلے کو حل کرے، اور اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو اگر زیادہ تنگ ہے تو بیوی کا نان نفقہ بند کر دے۔ لیکن اگر شوہر ایسا کر لے تو یہ کوئی گناہ یا جرم نہیں ہے کہ جس کے لیے شوہر پر کوئی اخروی یا دنیاوی سزا لاگو ہو اور ایسی صورت میں اگر بیوی کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا ہوں تو اس کے لیے خلع کا رستہ کھلا ہے۔ اگر ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے اور شوہر سے واقعی میں کچھ فائدہ بھی حاصل نہیں ہو رہا تو پھر بہتر یہی ہے کہ شوہر کو صبر کی تلقین کرنے کی بجائے اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ واللہ اعلم بالصواب

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply