سگمنڈ فرائیڈ: بابائے نفسیات کےنظریات کاتعارف(3)-عدیل ایزد

شعور(Conscious)
شعور کیا ہے؟جب ہم اپنے خیالات سے ایک خاص وقت میں با خبر ہوتے ہیں تو یہ شعور کے زمرے میں آتا ہےیا یوں کہیے شعور وہ ہےجو زمانہ حال میں ہمارے ذہین اور یاداشت کا حصہ ہے،ہم اسے  سمجھ سکتے اور اسے محسوس کر سکتے ہیں کہ ہمارے سامنے کیا ہے؟ کیاہو رہا ہے؟ اس طرح ہر وہ بات جس کا ہمیں ادراک ہےاور جن سے متعلق ہمارا ذہین با آسانی فیصلہ کر سکتا ہے یا سمجھ سکتا ہے، یا پھر وہ تمام اشیا ء،باتیں،احساسات و جذ بات جن سے فرد بخوبی واقف ہے،شعور کے زمرے میں آتا ہےمثلاً اگر کوئی آپ کا نام پوچھے تو آپ فورناً بتا دیں گے۔اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ کسی کاوش اور کوشش کے چیزوں کی موجودگی کا احساس شعور کہلاتا ہے۔بقول فرائیڈ:
اب، “شعور” (Conscious) کو اس تصور کا نام دیتے ہیں جو ہمارے شعور میں موجود ہے اور جس سے ہم آگاہ ہیں، اور اصطلاح “شعور” (Conscious) صرف اسی مفہوم کے لیے استعمال ہوگی۔

قبل شعوریا تحت الشعور (Pre Conscious):
یہ شعور کا کنارہ ہے ،جہاں سے خیالات موقع محل ،تھوڑی سی کوشش اورکاوش سے شعورمیں در آتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وقتی طور پر آپ کچھ نہ کچھ بھول جاتے ہیں مثلاً کو ئی نام،کوئی چیز وغیرہ۔پھر تھوڑا پریشا ن ہو کر اپنی یاداشت کہ ٹٹولتے ہیں،کچھ لمحے بعد آپ سکون کا سانس لیتے ہیں کیوں کہ وہ یاد دوبارہ آپ کی یاد کا حصہ بن جاتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہاں تھی؟

بمطابق فرائیڈ یہ تحت الشعورمیں تھی:
شعور کی ایک مختلف قسم کی شعوری آگاہی جس میں وہ معلومات شامل ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہم فی الحال نہیں سوچ رہے ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم چاہیں تو انہیں دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں، ایسی یادوں کو قبل شعوریا تحت الشعور کہتے ہیں۔

لاشعور (Un Conscious)
نفسیات کے میدان میں لاشعور کوبطور اصطلاح اس طرح پیش کرنا کہ تمام نظریات کی نہ صرف بنیاد ثابت ہوئی بلکہ تمام نظریات اس کے گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں ،بلا شبہ فرائیڈ کا بہت بڑا کار نامہ ہے ۔حالانکہ فرائیڈ نہ تو لاشعور کا خالق ہے اور نہ ہی اس نے اس اصطلاح کو وضع کیا ہے۔خود فرائیڈکو بھی اس کا ادراک تھاچونکہ تحلیل نفسی کی ایک محفل میں اس نے خود ہی اعتراف کیا ہےکہ اس سے قبل کئی فلسفیوں اور شاعروں نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔فرائیڈسے قبل افلاطون، لائبنز، شوپن ہار اور نٹشے وغیرہ جیسے مفکرین کی فکر میں لاشعور کے متعلق واضح اشارے ملتے ہیں ۔تاہم فرائیڈ کی خوبی یہ ہے کہ اس نے بطور خاص اس کو اصطلاح اپناکر سائنٹیفک انداز میں تحقیق کی اوراس پر اپنی فکر کی بنیاد رکھی اوراسےوسیع تر مفہوم میں بیان کیا اس لیے جیسے ہی نفسیاتی اصطلاح لا شعور کا ذکر آتا ہے،سب سے پہلے فرائیڈ کا نام ہمارے ذہین میں آ جاتا ہے۔یہ صحیح بھی ہے کہ جومخصوص اور وسیع معانی و مفہوم لا شعور کو فرائیڈ نے عطا کیے ہیں اس سےپہلے اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ کچھ باتیں، کچھ یادیں،کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو کہ ایک دفعہ ذہین سےمحو ہو جائیں تو لاکھ کوشش اور جتن کے باوجودسطح شعور پرنہیں آ پاتیں۔عالم نفسیات کے نزدیک یہ انسان کے ذہین کے ایک حصے میں اس طرح جا گزیں ہوتی ہیں جیسے آپ پرانی اور غیر مفید چیزیں کاٹھ کباڑمیں پھینک دیتے ہیں ،اسے انہوں نے لا شعور کا نام دیا ہے۔ شروع میں جب فرائید ہسٹریا کے مریضوں کے علاج میں مشغول تھا ،طویل تجربات اور مشاہدات کے بعد اس نے اخذ کیاکہ اگر مریض اپنا نافی الضمیر بیان کر دے تو وہ اپنی ہسٹریائی مرض میں افاقہ محسوس کرتا ہےاور وقتی طور اس کی مرض کی علامات جاتی رہتی ہیں۔فرائیڈ کےلیے یہ انکشاف یقیناً حیران کن تھا اس لیے اس نے انسانی ذہین کی عمیق ترین تہوں کوپلٹنا شروع کر دیا۔ اس کی اس بات میں کئی گنا دلچسپی بڑھ گئی کہ کس طرح مریض ماضی کے حالات و واقعات بیان کرنے کے بعد قدرے سکون محسوس کرتا ہے۔اس واقعہ سے ایک اور نقطہ بھی اس کے ہاتھ میں آیا کہ ماضی وہ واقعات جو مریض بیان کرتا ہے ان میں کچھ تو اس کے بچپن کے فراموش (FORGOTTEN)کردہ ہیں جبکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں کسی مجبوری یا پابندی کے سبب دبا دیا گیا ہےجو کسی بھی فرد کی ذہینی زندگی میں بہت اہمیت کے حامل اور اس کی شخصیت کی نشو نما میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یہ خیالات فرائیڈ کے نزدیک لاشعور میں موجود رہتے ہیں۔ابتدائی تحقیقات سے فرائیڈکے دل و دماغ میں لاشعور کی موجودگی کا عقیدہ راسخ ہوتا گیاحتی کہ ۱۹۰۵ تک ا س نے اپنی ابتدائی تحقیقات و مشاہدات کو جب ایک نظریہ کی صورت میں پیش کیاتو اس کی بنیاد لاشعور پر استوار تھی۔
فرائیڈکے نزدیک لاشعور میں ایسے خیالات ہوتے ہیں جو آسانی سے شعور میں نہیں آسکتے اور نہ ہی شعوری طور پر لایا جا سکتا ہے بلکہ ان کو شعور میں لانے کے لیے ایک خاص طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسےاس نے’’ تحلیل نفسی‘‘ کا نام دیا ہے ۔ذہن میں ایک واسطہ ایجنسی کار فرما رہتا ہے اور اسی کی اجازت سے کوئی خیال ذہن کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں پہنچ سکتا ہے۔ اس واسطہ کو احتساب کا نام دیا جاسکتا ہے جولا شعور اور قبل شعور کے درمیان ہوتا ہے۔شعور اور قبل شعور کے درمیان بھی یہ احتساب موجود ہوتا ہے لیکن یہ بہت ہی کمزور ہوتا ہے ۔

اڈ (Id):
فرائیڈ کے نظریات کے مطابق ذہن کا مطالعہ ایک اور زاویہ نگاہ سے بھی کیا جاسکتا ہے ۔ جس کے لیے اس نے مخصوص اصطلاحات استعمال کی ہیں جن پر اس کی تمام فکر کا دارومدرا ہے ۔وہ ذہن کا مطالعہ شعور،قبل شعوراورلاشعورکو، اڈ،ایگو اورسپر ایگو کے ساتھ ملا کربھی کرتاہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ فرائیڈ کے ہاں لاشعور سے زیادہ اڈ کو بہت اہمیت دی جانے لگی ڈاکٹر نعیم احمد اس ضمن میں لکھتے ہیں :۔
فرائیڈ کی ابتدائی تحقیقات کے تیس سالہ دور (۱۸۹۰۔۱۹۲۰ء )میں لاشعور کا تصور مرکزی اہمیت کا حامل نظر آتا ہے ۔لیکن۱۹۲۰ء کے بعد اس کی پختہ فکر کا آغاز ہوا تو لاشعور کے مفروضے کی اہمیت بتدریج کم ہوتی گئی اور اس جگہ شخصیت کی حرکی تشریح مرکزی حیثیت اختیا رکرتی گئی ۔نفسیاتی زندگی کی تشریح و توضیح کے لیے فرائیڈ پہلے لاشعور ،تحت الشعور اور شعور کے تصورات استعمال کرتا تھا لیکن بعد ازاں ان کی جگہ اڈ، ایگو اور سپر ایگو کی سہ گونہ تقسیم نے لے لی اور لاشعور کو نفسی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو قرار دیا گیا ۔
یہ ذہن کی حرکی  (Dynamic)حالت ہے ۔اس ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ لاشعور مجموعہ ہوتا ہے ایسے ہیجانات اور خواہشات کا جس کا تعلق انسان کی زندگی کے ابتدائی دور سے ہوتا ہے اور یہ احساسی ہیجانات ،خواہشات لاشعور میں مسلسل جمع ہوتی رہتی ہیں اور ان کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ کوئی راستہ پا کر باہر نکلیں تا کہ تسکین حاصل کر سکیں ۔فرائیڈ نے اسی ذہنی قوت کو ’’اڈ‘‘ کا نام دیا ہے۔بقول فرائیڈ:
اس نفسی آلے کا علم ہمیں انسانوں کی انفرادی نشو نما کے مطالعے سے ہوا ہے۔اس کے ا ّولیں عامل کوہم ذہنی قلمرو کے قدیم ترین حصے یا Id کا نام دیتے ہیں۔اس میں ہر وہ چیز شامل ہےجو ہمیں وراثت میں ملتی ہےہماری پیدائش کےوقت موجود ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کریہ ہماری ساخت( constitution)میں جا گزیں ہوتی ہے۔گرد و پیش کی خارجی دنیا کے اثرسےاڈ کے ایک خاص حصے کی نشو نما ہوتی ہے۔اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جبلتیں (Instincstions) جن کی اصل ہمارےنظام جسمانی میں ہوتی ہے ان کا ا ّولیں اظہاراڈ میں ایسی صورتوں میں ہوتا ہےجن سے ہم واقف نہیں ہوتے۔
بنیادی طور پر اڈ، لا شعورکی نمائندہ ہے تاہم لا شعور اور اڈ کو ایک دوسرے کی متبادل یا مترادف نہیں کہا جا سکتا۔مندرجہ بالا اقتباس میں فرائیڈ نے اڈ کا تعلق جبلت کے ساتھ جوڑا ہےاور وہ کہتا ہے کہ اڈ دراصل جبلی آرزؤوں کا ہی سر چشمہ ہے،یہاں (اڈ میں) آرزوئیں جنم لیتی ہیں اور وہ فطری طور پر وہ فوری تسکین بھی چاہتی ہیں۔نا آسودگی کی صورت میں فرد کےاندرغم،دکھ اور تکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے،جو انسان کو پسند نہیں ہے ۔اڈ کے وظائف کو درج ذیل نکات سے سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے مثلاً :
• اڈ انسانی شخصیت کا عمیق ترین ،مبہم اور سرا سر لاشعوری حصہ ہے ۔جس تک شعور کی رسائی ممکن نہیں ۔
• اڈ تمام نفسی اور طبی میلانات ،جنسی و جبلی رجحانات اور حیاتیائی توانائی کا منبع و مصدر ہے ۔
• اڈ لا شعوری ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی بھی ہوتی ہے۔
• اس لیےا ڈ کی سرکش قوتیں کسی اخلاقی ضابطے ،مذہبی اصول اور سماجی و سیاسی قوانیں کو سرے سے نہیں مانتیں ۔
• اڈمیں ہر خواہش کا صرف ایک ہی مقصد یعنی غم سے بچنا اوراصو ِل لذت (Pleasure Principle) کا حصول ہے ۔
• اڈ فرد کی بیرونی دنیا سے کٹی ہوئی ہوتی ہے اور زمان و مکان کو اس میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔
• زمانے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ اس کے اندر کوئی تغیر و تبدل ہوتا ہے ۔
• وراثت میں منتقل ہونے والے رحجانات اڈ میں ہی ذہنی نوعیت حاصل کرتے ہیں۔
• یہ حیوانی اور حیاتی توانائی کا ایسامنبع ہے جو عضویہ کو آمادۂ عمل کرتاہے ۔

فرائیڈ اڈ کو ایک ایسی خفیہ نفسی حقیقت سمجھتا ہے جو تما م تر موضوعی ہے۔ اسے خارجی دنیا کا علم نہیں ۔یہ توانائی کا ایک ایسا سمندر ہے جو ہر دم رواں دواں رہتا ہے ۔آزاد تونائی ہونے کی وجہ سے یہ اپنی تسکین کے اہداف بدلتی رہتی ہے ۔اسے اگر اپنی تسکین کے لیے خارجی دنیا کے اسباب نہ بھی میسر آئیں تو یہ خود واہموں ،خوابوں ،تمثیلوں اور شبہیوں کی دنیا ایجاد کر لیتی ہے۔ اس کا مقصد غم و الم سے آنکھیں چرانا اور حصول لذت ہے ۔شخصیت کی نشوو نما میں اس کو ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کی نوعیت تمام عمر نہیں بدلتی فرائیڈ شخصیت کے اس حصے کو غیر واضع اور مبہم تسلیم کرتا ہے اور اس تک رسائی نا ممکن سمجھتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ ہم جو کچھ اس کے بارے میں جانتے ہیں اس کا منبع خواب اور عصبانیت کے مریضوں پر کیے گئے مشاہدات ہیں ۔ اڈ کی سرکش اور اندھی قوتوں کے تحت لوگ عجیب و غریب کارنامے سر انجام دیتے ہیں ۔مثلاً کسی بھاری پتھر کو اٹھا کر دور پھینک دینا ،آگ لگی عمارت میں گھس کر کسی کی جان بچانا ،مجرمانہ حملوں اور عصمت دری کے واقعات میں بھی اڈ کی قوت کار فرما نظرآتی ہے۔اس طرح دنیا کے حقائق سے منہ موڈ کر خوابوں اور خیالوں میں تیس مار خان بنے پھرنا بھی اڈ کی قوتوں کے زیر اثر ہو گا۔الغرض اڈ ہی وہ ایک اکائی ہے جس پر کسی بھی فرد کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اور یہ ایک ایسی طاقتور اکائی ہےجس کے ِزیر اثر انسان خود کو مجبور اور بے بس پاتا ہےاور کبھی کبھی ایسی حرکتیں کر بیٹھتا جس کی وہ خود سے توقع نہیں کر سکتا ۔

ایگو (Ego):
شخصیت کی ساخت کا دوسرا بڑا ستون ایگو ہے ۔فرد کی ذہنی زندگی یوں تو اڈ کے زیر اثر مجبور، بے بس اور محکوم ہےاس لیے اڈ کے ِزیر اثرفردکٹھ پتلی کی طرح ناچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرد ہمیشہ مسرت کا متلاشی اور درد سے کنارہ کش رہنے کا متمنی رہا ہے۔ فرد کی انفرادی اہمیت اپنی جگہ مگر اڈ کی بے لگام جبلی خواہشات کا بے مہابا اظہارفائدے کی بجائے الٹا نقصان دہ ثابت ہوتا ہےچونکہ وہ ایک معاشرے کا ایک فرد بھی ہےاور جبلتوں کا اس طرح کھلم کھلا اظہار معاشرے کے وجود کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔اس لیے بچے کی زندگی کے ابتدائی ایام میں اسی ’’اڈ‘‘کا ایک حصہ خارجی دنیا سے متعلق ہو کر باقی تمام حصے سے متمیز ہوجاتا ہے۔یہ فرد کے جسم نامی (Orgenism)اور خارجی دنیا میں تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اسے فرائیڈ نے انا’’ایگو‘‘ کا نام دیا ۔بقول فرائیڈ:
ہمارے دماغ اس بیرونی سطح سےجو اصلاًایک کارٹیکس جمی Corticalتہہ تھی جو ہیجات Stimuliکو قبول کرنے والے اعضاءاور حد سے بڑھے ہوئے ہیجات سے حفاظت کرنے والےآلات سے آراستہ تھی،ایک خصوصی تنظیم پیدا ہوئی جو آگے چل اڈ اور خارجی دنیا کے درمیان واسطے کا کام دیتی ہے۔ہماری ذہنی زندگی کے اس حصے کوانا (Ego)کا نام دیا گیا ہے۔
اڈ کی اندھی، بہری سر کش اور نفسی قوتیں اگر چہ حرکت و عمل کا سرچشمہ ہیں پھر بھی ان سے یہ توقع کرنا بے سود ہے کہ یہ عضویہ کو کسی طرح کا تحفظ فراہم کرسکیں گی۔چونکہ اڈ خارجی ماحول سےبالکل انجان ہےجبکہ علم و بصیرت سےبھی یہ بالکل عاری ہوتی ہے اس لیے ممکن ہےکہ وہ اپنے اضطراری فعل سے اپناہدف حاصل کرتے ہوئےعضویہ کو ہی خطرے میں ڈال دےیا پھر اسے ہلاک کر دے۔اس کے برعکس انا (ایگو) ہی ہے جس کو ارادی عمل و حرکت پر اختیار حاصل ہوتا ہے اور تحفظ ذات کا کام بھی اسی کے سپرد ہوتا ہے۔اس لیے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ انا ہی ہے جو ایک طرف عضویہ کہ خطرات سے بچاتی ہے اور دوسری طرف اڈ کی تسکین کے لیےمناسب راہ ہموار کرتی ہے۔بقول فرائیڈ:
ایسا کوئی مقصد جیسے اپنے آپ کو زندہ رکھنا یافکر مندی کے ذریعےخطرات سے اپنی حفاظت کرنا’’اڈ‘‘ سے منسوب نہیں کیا جا سکتایہ ’’انا ‘‘ (ایگو) کا کام ہےاور ’’انا‘‘ (ایگو) ہی کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ خارجی دنیا کوپیش نظر رکھ کر اپنی تسکین کے لیےزیادہ سے زیادہ سازگار اور کم سے کم خطرناک طریقے دریافت کرے۔
جہاں تک خارجی واقعات کا تعلق ہے انا اپنا وظیفہ اس طرح انجام دیتی ہے کہ خارجی ہیجانات کا شعور حاصل کرتی ہےاور ان سے متعلق تجربات کو حافظے میں محفوظ رکھتی ہے۔حد سے بڑھے ہوئے ہیجا نات سےفرار اختیارکرتی ہے اور معتدل ہیجانات سےنمٹنے کے لیےاپنے آپ کو ان کا عادی بنا لیتی ہے۔اس سے بھی بڑھ کراپنے عمل کے ذریعے،اپنے فائدے کے لیےخارجی دنیا میں مناسب تبدیلیاں پیدا کرنا سیکھ لیتی ہے ۔جہاں تک اڈ سے متعلق اندرونی واقعات کا تعلق ہےوہ اپنا کام اس طرح سر انجام دیتی ہے کہ جبلی تقاضوں کہ بارےاس بات کا فیصلہ کر کے کہ ان کی تسکین کی اجازت دی جائے یا نہیں ان پر بھی قابو حاصل کر لیتی ہےاور کبھی ان کی تسکین کوایسے واقعات اور حالات کے لیے ملتوی کر دیتی ہے جب تک خارجی دنیا کے حالات ساز گار نہ ہوں یا پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان تحریکات کو بالکل دبا دیا جاتا ہے ۔اس عمل سے تناؤ اور تشویش جنم لیتی ہے۔اس تنا ؤ کا بڑھ جانا عموماًناخوشی کا احساس پیدا کرتا ہےاور تناؤ کا کم ہونا خوشی کے احساس کا سبب بنتا ہے۔اس دوران انا کا یہی کردار رہتا ہےکہ وہ اس متعلق جستجو کرتی ہے کہ وہ اڈ کی مانگوں کو جہاں تک ممکن ہو سکے پورا کر کے خوشی سے ہم کنار کرے اور الم یا ناخوشی سے بچائے۔ مجموعی طور پر انا(ایگو)نفسیاتی اعمال کا ایک ایسا نظام ہے جو اڈ کی بےقابو قوتوں کوعقل و دانش سے اپنے قابو میں رکھنااور ان کوماحول کے حقائق سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

سپر ایگو (Super Ego):
’’سپر ایگو‘‘ شخصیت کے بنیادی ڈھانچےکا تیسرا اورسب سےاہم ستون ہے۔جس طرح اڈ کا ایک حصہ کٹ کر دبی ہوئی خواہشات بن جاتا ہے ۔اسی طرح نشونما کے دوران میں ایگو کا حصہ باقی کل سے علیحدہ ہو جاتا ہے ۔ فرائیڈ اسے’’ سپر ایگو‘‘ یا ’’ضمیر‘‘ کا نام دیتا ہے ۔اس کا تعلق ’’ایگو‘‘ سے زیادہ’’ اڈ ‘‘سے ہوتا ہے ۔اس کا کام یہ ہے کہ یہ ایگو اور اڈ کے تعلقات کی نگرانی کرتا ہے اور ایگو کو ان خطرات سے آگاہ کرتا ہے جو دبے ہوئے ہیجانات کے باعث اڈ سے متواتر باہر نکلنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔احتساب جس کا ذکر اوپر ہوا ہے دراصل یہی سپر ایگو ہے ۔ایگو ،سپر ایگو کے اشارے پر عمل کرتا ہے ۔ فرائیڈ کے نزدیک یہ سلسلہ دو تین برس کی عمر میں بچے کے ذہن میں عمل شروع کر دیتا ہے۔ بچے کی ابتدائی زندگی کے پہلے پانچ سالوں میں اس کے والدین کا جو اثر ہوتا ہے اسی سے سپر ایگو بنتا ہے۔بقول فرائیڈ:
بچپن کا طویل عر صہ جب انسانی بچہ اپنے والدین پر انحصار رکھتا ہے اور اپنے پیچھے ایک تہ نشیں اثر Preceptableچھوڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے انا کے اندرایک خاص قوت عاملہ تشکیل پاتی ہے جس کے اندر والدین کا اثرطویل عرصے تک قائم رہتا ہے اس قوت کہ ’’فوق الانا‘‘ (super ego) کا نام دیا گیا ہے۔
سپر ایگو ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے توسط سے ہم خوداپنی ذات اور دوسرے لوگوں کے اعمال پر نکتہ چینی، احتساب یا اخلاقی حکم لگاتے ہیں۔اسے ہم شخصیت کا اخلاقی نظام یا عدالتی شعبہ بھی کہ سکتے ہیں۔اس لحاظ سےاسےشخصیت کے لیے ایک اخلاقی ضابطے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔بچہ اپنے والدین کےطرز عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ طے کرتا ہے کہ وہ کن باتوں کواچھا اور کن کو برا سمجھے،کیا خیراور کیا شر ہے،حلال و حرام اور جائز ونا جائز کیا ہوتاہے؟ بچہ ایک عرصے تک والدین کی نظر سےاخلاقی نظام مثلاًگناہ و ثواب ،اچھائی و برائی،خیر و شر کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین سے حاصل کردہ مشاہدات اس کی اپنی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔اس طرح ’’سپر ایگو‘‘ ایک ایسے اصول کی حیثیت سے تشکیل پذیر ہوتا ہے جو زندگی کے معاملات میں از خود فیصلے کرتا ہے۔اس کے بعد والدین کی رہنمائی کا سلسلہ تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔تاہم پھر بھی بچہ وہی کام کرتا جسے اس کے والدین ہمیشہ پسند کرتے آئے ہیں کیونکہ اس نے والدین کے احکامات کو پہلے ہی داخلی طور پر اپنا رکھا تھا۔اس کے علاوہ بچے کا سپر ایگو اصول ِ حقیقت کے تحت خارجی دنیا سےاپنے طور پر بھی بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ فرائیڈ’’سپر ایگو‘‘کو دو مزیدذیلی نظاموں ’’ایگو آئیڈیل‘‘ (Ego ideal) اور ضمیر (Conscience) میں تقسیم کرتا ہے۔بچپن میں والدین جب بچے کےکسی کام کی تعریف کرتے یا سراہتے ہیں تو وہ کام اس کے لیے آئیڈیل بن جاتا ہے۔بچہ اپنی آنے والی زندگی میں بھی اس کا اہتمام کرے گا۔اس کے برعکس ضمیر بچے کا وہ تصور ہےجو وہ اپنے والدین سے سیکھتا ہے۔دراصل ایگو آئیڈیل اور ضمیر ایک ہی سکے کا دو رخ ہیں۔
سپر ایگو کی تشکیل میں سزا وجزا کا اہم کردار ہے ۔یہ سزا اور جزا دو طرح کی ہو سکتی۔ایک جسمانی جس میں بچہ اگر کوئی غلطی کرے تو اسے مارا،پیٹا جائے جبکہ اس سے خوش ہونے پر اسے انعام سے نوازا جائے یہ طبعی سزاو جزا ہو گی ۔زبانی تعریف یا نارضگی نفسیاتی جزا اور سزا کے زمرے میں آئے گی۔طبعی اور نفسیاتی دونوں سزائیں سپر ایگو کے دائرہ کار میں آ ئیں گی۔بچپن میں یہ جزاو سزا والدین سے وابستہ رہتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ جزا و سزاکا فریضہ والدین کے ہاتھوں سے نکل کر’’سپر ایگو‘‘ کی دسترس میں پہنچ جاتا ہے۔’’سپر ایگو‘‘نہ صرف حقیقی افعال کی سزا یا جزا دیتا ہےبلکہ اچھے برے خیالات کوبھی احتساب کے عمل سے گزارتا ہے۔’’سپر ایگو ‘‘کے نزدیک برائی کا خیال بھی اتنا برا ہے جتنا کہ برا کام ہے۔ سپر ایگو معاشرے کے رسم ورواج اور اقدار و روایات کا پاسدار ہوتا ہےاور ان کی منتقلی کا فریضہ والدین سر انجام دیتے ہیں۔سپر ایگو کی تشکیل میں والدین کے علاوہ نسلی و خاندانی روایات ،استاد،نگران،پولیس،مقبول و معروف اشخاص وغیرہ شامل ہیں،بقول فرائیڈ:
والدین کے بچے پر اثر سے مراد صرف والدین کی شخصیتوں کا ہی اثر نہیں بلکہ اس میں وہ تمام نسلی اور خاندانی روایات بھی شامل ہیں جو والدین کے ذریعے بچے تک پہنچی ہیں،نیز قریب ترین سماجی ماحول کے مطالبات بھی اس میں شامل ہیں جن کی نمائندگی والدین کرتے ہیں۔اسی طرح کسی شخص کا فوقالانا (super ego) نشونما کے دوران اپنے والدین کے بعد ان کے جانشینوں اور قائم مقاموں کے اثرات بھی قبول کرتا ہےمثلاًاساتذہ،پبلک زندگی،مقبول اورپسندیدہ شخصیتیں یا بلند سماجی نصب العین۔
’’سپر ایگو‘‘ کا اصل کام ،وظیفہ یا کردار یہ ہے کہ وہ فرد کو ’’اڈ‘‘ کی وحشت زدہ تنہائی سے باہر نکالےاور اسے معاشرے میں ایک مہذب اور شائستہ انسانوں کی طرح زندگی گزارنےکے گر سکھا ئے۔اس کا بیک وقت ایک طرف اڈ سے رابطہ رہتا ہے تو دوسری طرف’’ایگو‘‘سے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ’’اڈ‘‘اور ’’ایگو‘‘کے درمیان کسی بھی تصادم،لڑائی جھگڑےاور کشمکش کی صورت میں یہ مصالحانہ کردار ادا کرتا ہے۔ مختصراً یہ کہ’’اڈ‘‘ حیاتی اور نفسی توانائی کا مبع و مصدر ہےتو ’’ ایگو‘‘خارجی سماجی حالات کو معروضی انداز میں سمجھنےکا ایک کلیہ ہے جبکہ ’’سپر ایگو‘‘ سماجی و معاشرتی طور طریقوں کو سیکھنے اور رنگ ڈھنگ میں ڈھلنے کا نام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply