کپل شرما، عامرخان اور کتابیں/رانا خالد

کپل شرما گیارہ برس سے کامیڈی شو کر رہے ہیں۔ کچھ دن ہوئے عامر خان پہلی بار ان کے شو میں تشریف لائے۔ کپل کا شو گو کہ تسلسل کے باعث اب خاصی یکسانیت کا شکار ہے اور ان کی کامیڈی بھی اب سطحی نوعیت کی رہ گئی ہے بالخصوص نیٹ فلیکس کے آنے کے بعد تو اس میں +18 پلس کانٹینٹ بھی شامل ہو گیا ہے۔ خیر، ذکر تھا عامر خان کا۔ عامر اپنے کام کے ایک مخصوص انداز کے باعث تو معروف ہیں ہی، ان کی شخصیت بھی خاصی منفرد ہے، یہی انفرادیت انہیں اپنے معاصر اسٹارز سے ممتاز بھی بناتی ہے۔ جیسے کپل کے شو پر بھی ان کی شخصیت طاری رہی۔ کپل شرما ان کے سامنے دبا دبا سا رہا۔ تقریباً آدھا شو نہایت سنجیدہ گفتگو پر مبنی رہا۔ اسی سنجیدہ گفتگو میں سے ان کی ایک بات  خاصی وائرل رہی، کئی پیجز اور پروفائلز پہ شیئر ہوئی۔ کپل نے ان سے پوچھا، “آپ نہ کسی ٹی وی پروگرام میں جاتے ہیں، نہ ایوارڈ شو میں جاتے ہیں، نہ تقریبات میں جاتے ہیں تو آخر آپ جاتے کہاں ہیں؟” اس پر عامر نے کہا، “میں کہیں نہیں جاتا، گھر پر ہی رہتا ہوں اور کتابیں پڑھتا ہوں۔ مجھے کتابیں پڑھنا پسند ہے۔”

اندازہ کیجیے۔ دنیا کی ایک بڑی فلم انڈسٹری کے ایک بڑے اسٹار کی مصروفیت کا ایک بڑا حصہ کہاں گزرتا ہے؟ کتاب پڑھنے میں، کپل کے شو میں ہی عام خان نے کہا آپکی سب سے قیمتی چیز آپکا وقت ہے اور وقت کو ضائع کرنے کی بجائے کتاب کو دو۔

صاحبو! کتابیں خاموش استاد ہیں، اگر مکمل انسان بننا ہے تو اچھے مصنفین کی تصانیف پڑھنی ہوں گی۔

پاکستان میں کتاب پڑھنے کی زبوں حالی یہ ہے کہ کتابوں کے حوالے سے ایک تجزیہ کے مطابق پاکستان میں لوگ سالانہ صرف چھ پیسے ایک کتاب کیلئے خرچ کرتے ہیں جبکہ اس سے زیادہ ردی میں بیچ کر  کما لیتے ہیں، ہمیں خود کتاب پڑھنے کی عادت نہیں ہے اور نہ  ہماری نئی نسل میں یہ عادت پنپ سکی ہے ۔ اگر ہم اپنا وقت کتاب کو دیں تو بچے ہمیں نقل کریں گے۔

بس میں سفر کے دوران دیکھا کہ ایک عورت کتاب پڑھ رہی تھی، سامنے بیٹھا اس کا چھوٹا بچہ بھی کتاب پڑھ رہا تھا، تبھی میرے بازو میں کھڑے ایک شریف آدمی نے عورت سے پوچھا؛ “آپ نے اسمارٹ فون کی جگہ اپنے بچے کے ہاتھ میں کتاب کیسے دے دی؟ جبکہ آج کل بچوں کو ہر وقت اسمارٹ فون کی عادت ہوتی ہے۔ اس خاتون نے جواب دیا؛ “بچے ہماری کہاں سنتے ہیں، وہ تو ہمیں نقل کرتے ہیں۔

کتابیں پڑھنا، لفظوں سے معنی تلاش کرنا اور جذبات کیلئے لفظ کھوجنا ایک ایسا مشغلہ ہے جو آپ میں تخلیقی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اگر کوئی اپنے شعور کو بڑھانا چاہتا ہے تو کتابیں پڑھے، بھیڑ میں بھی تنہائی محسوس ہوتی ہو اور آپ ایسی خوفناک تنہائی کو شکست دینا چاہتے ہیں تو کتابیں پڑھیں۔ کتاب پڑھنا، سفر کرنا میوزک سننا اور رقص کرنا دماغی صحت کیلئے بہت ضروری ہے۔

پاہلو کہتے ہیں مرنا ایک عمل ہے اور اسکا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب آپ سفر نہیں کرتے اور کتابیں پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں، پڑھنے سے آپ ایسا خیال ڈھونڈتے ہیں جو آپکی زندگی کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ جن قوموں نے اپنا سرمایہ اور وقت لائبریریوں کو دیا وہ قومیں آج ترقی کی معراج کو پہنچ چکی ہیں۔ راولپنڈی میں صرف دو بڑی لائبریریاں ہیں ایک کنٹونمنٹ دوسری لیاقت باغ میں۔۔ دونوں خستہ حال ہیں اور کبھی لائیبریری پلیٹ فارم سے تعلیمی پروگرام کا انعقاد دیکھنے میں نہیں آیا۔ جبکہ ‏ڈنمارک میں ہر دوسری گلی میں لائبریری ہے سویڈین میں بس لائبریری بھی ہے اور بچوں کے لیے سارا سال یہ لائبریریاں پروگرام کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنوری ۲۰۲۲ کا مجھے واقعہ یاد آ گیا، میں کراچی سے اسلام آباد ائیر سیرین پہ سفرکر رہا تھا تو میری ساتھ والی سیٹ پہ دو ڈنمارک کے شہری بیٹھے تھے پوری ائیرلائین میں سارے پاکستانی اپنے اپنے موبائلز میں مصروف تھے کوئی سیلفی لے رہاتھا کوئی گیم کھیل رہا تھا تو کوئی فلم ڈرامہ دیکھ رہا تھا لیکن وہ دونوں ڈنمارک کے شہری کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں نے بھی موبائل نکالا اور سیلفی لے ڈالی ،وہ دونوں ہنسنا شروع ہوگئے اور انگریزی میں مجھے کہا
“Mr you people are not using mobile rather mobile is using you”
“آپ موبائل فون استعمال نہیں کررہے بلکہ موبائل فون آپ کو استعمال کررہاہے” بات کر کے  وہ دوبارہ کتاب میں مصروف ہو گئے اور میں موبائل میں۔ آج کل کے مصروف دور میں کتاب پڑھنے کا وقت کس کے پاس ہوتا ہے بھئی؟ یہ فضول ترین آرگیومنٹ آپ کو صرف ہمارے ہاں ہی سننے کو ملے گا اور ایسے لوگوں سے سننے کو ملے گا جن کے معمولات میں “نوکری” کے سوا شاید ہی کوئی تخلیقی سرگرمی شامل ہو۔ آپ کو آئندہ کتاب کے لیے وقت نہ مل رہا ہو تو خود کو یہ سمجھا کر ہی قائل کر لیں کہ بھائی، تو عامر خان یا سویڈن لوگوں سے زیادہ مصروف شخص تو نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply