ادب، اطاعت سے کہیں بڑھ کر ہے / عثمان انجم زوجان

میرے آقا روحی فداہ ﷺ کا ادب، رب کی اطاعت سے کہیں بڑھ کر ہے، خواہ وہ فرشتوں میں ہو، روحوں میں ہو یا پھر مومنوں ہو، میں اپنے اس دعویٰ کی ترجمانی قرآنی آیات مقدسہ سے کرتی ہوں:

1- فرشتوں کی دنیا میں ادب

ملائکہ کی دنیا میں میرے آقا   ﷺ کے ادب کی پوری داستان قرآن میں سورہ الحجر کی آیت 28 سے 35 تک بیان کی گئی ہے، جس کی ترجمانی اختصار کے ساتھ پیش کر رہی ہوں!

حضرت ابو البشر آدم علیہ الصلاۃ والسلام کا جب بت بنایا جا رہا تھا، تو سارے ملائکہ آپس میں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیا ہو  رہا ہے، اللہ احد الصمد نے فرمایا؛

فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ

اس میں، مَیں اپنا نور داخل کروں گا اور تمہیں حکم دوں گا اور تمہیں حکم دوں گا کہ اسے سجدہ کرو، اس لیے کہ یہ تمہارا سجدہ گاہ ہے، تو تم سب نے اسے سجدہ کرنا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے بت میں روح پھونکی تو آپ کھڑے ہو گئے، تھوڑا سا چلتے ہیں اور پھر رُکتے ہیں، رب کائنات سے استفسار کرتے ہیں کہ اے رب کائنات میں کوئی آہٹ محسوس کرتا ہوں پر دیکھ نہیں پاتا،

اللہ احد الصمد نے فرمایا:

وہ سرورِ کائنات ﷺ کا نور ہے، جو تیرے اندر ہے!

آپ نے عرض کی، اے رب کائنات میں بھی وہ نور دیکھنا چاہتا ہوں، تو اذن الٰہی سے وہ نور آپ کی انگلیوں میں ظاہر ہوا تو آپ نے فرط محبت سے انہیں بھون کر آنکھوں سے لگایا، اللہ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اے فرشتو! سرورِ کائنات ﷺ کے نور کو سجدہ کرو!

اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ اَبٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِيۡنَ

سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس!

اللہ احد الصمد نے دریافت کیا کہ ابلیس! تو نے سجدہ کیوں نہ کیا؟

کہنے لگا کہ میں بشر کی بندگی نہیں کرتا!

قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡهَا فَاِنَّكَ رَجِيۡمٌۙ‏

اللہ احد الصمد نے فرمایا اے معلون و مردود یہاں سے نکل جا اور قیامت تک واپس نہ آنا!

واضح رہے کہ اللہ احد الصمد علیم بذات الصدور ہے پر انسانیت کو درس دیا کہ میری اطاعت نہ ہو تو بھی میں قیامت تک انتظار کرتا رہوں گا پر حضور اقدس ﷺ کا ادب نہ ہو، ایک پل بھی انتظار نہیں کر سکتا، اس لیے کہ ادب کا مقام اطاعت سے کہیں بڑھ کر ہے!

2- روحوں کی دنیا میں ادب

قرآن میں تین اجتماعات کا تذکرہ موجود ہے، جس میں کچھ قول و قرار ہوئے اور ذمہ داریاں تفویض کی  گئیں، یہ اجتماع یکے بعد دیگرے کُل عالمین، کُل انبیاء اور پھر علما  و حکما سے ہوا، پہلے اجتماع کا ذکر سورۃ  الاعراف کی آیت 172، دوسرے اجتماع کا ذکر سورہ آل عمران آیت 81 اور تیسرے اجتماع کا ذکر سورہ الانعام آیت 89 میں میں موجود ہے!

اَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡ‌ ؕ قَالُوۡا بَلٰى‌ ۛۚ شَهِدۡنَا ‌ۛۚ

اللہ نے پہلے اجتماع میں کل عالمین سے فرمایا؛

کہ کیا میں تمہارا رب نہیں؟

سب ارواح خاموش رہیں ، اللہ نے دوبارہ ارشاد فرمایا؛

کہ کیا میں تمہارا رب نہیں؟

سب ارواح خاموش رہی، اللہ نے پھر سے ارشاد فرمایا؛

کہ کیا میں تمہارا رب نہیں؟

تو حضور اقدس ﷺ کی روح مقدسہ نے تمام ارواح کی رہبری فرمائی اور بیشک تو ہی ہمارا رب ہے کہنے کی تاکید وتلقین فرمائی!

وَاِذۡ اَخَذَ اللّٰهُ مِيۡثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَاۤ اٰتَيۡتُكُمۡ مِّنۡ كِتٰبٍ وَّحِكۡمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمۡ لَـتُؤۡمِنُنَّ بِهٖ وَلَـتَـنۡصُرُنَّهٗ ‌ؕ

جب یہ اجتماع برخاست ہوا اور کُل عالمین جانے لگا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی ارواح کو روک لیا اور کہا کہ اے انبیاء! میں تمہیں نبوت اور رسالت دوں گا اور تمہارے بعد خاتم الانبیاء ﷺ آئیں  گے جو تمہاری تصدیق کریں گے تو تم ضرور ان پر ایمان لے لانا اور ادب کرنا ہوگا۔ انبیاء کرام علیھم اجمعین کی ارواح نے کہا کہ ہم نبوت اور رسالت کے ہوتے ہوئے بھی ان ﷺ کا ادب کریں  گے۔

واضح رہے کہ ربوبیت کی بات ہوئی تو یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ میری اطاعت کرنا   جب رسالت کی بات ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ کا ادب کرنا ، اس لیے کہ ادب کا مقام اطاعت سے کہیں بڑھ کر ہے!

3-مومنوں کی دنیا میں ادب

سرورِ کائنات ﷺ جب اصحاب صفہ کو درس و تدریس دیا کرتے تھے تو اصحاب صفہ کے ہمراہ یہود و نصاری بھی شرکت کرتے تھے!

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَاسۡمَعُوۡا ‌ؕ وَلِلۡڪٰفِرِيۡنَ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ

جب اصحاب صفہ کو کسی بات کی سمجھ نہ آتی تو عرض کرتے؛

رَاعِنَا یعنی اے اللہ کے رسول رعایت کیجیے، یاد رہے کہ یہود و نصاری کی اصطلاح میں رَاعِنَا ادب کے منافی تھا، جب یہود و نصاری نے سنا تو وہ پھر اسی معنوں بھی کہنا شروع ہو گئے۔ حضرت سعد بن معاذ یہود و نصاریٰ  کی اصطلاح سے واقف تھے، جب انہوں نے سنا تو یہود و نصاریٰ  سے کہنے لگے:

تم پہ اللہ کا عذاب ہو، اگر دوبارہ کہا تو گردن کاٹ دوں گا!

یہود و نصاریٰ  کہنے لگے:

اے سعد! مومن بھی تو یہیں کہتے ہیں!

حضرت سعد حضور اقدس ﷺ کے پاس تشریف لا رہے تھے کہ قرآن کی سورہ البقرہ آیت 104 کا نزول ہُوا، جس میں اللہ نے مومنوں کو ارشاد فرمایا؛

اے ایمان والو! آپ آئندہ سرورِ کائنات ﷺ سے یہ کہنا،

انۡظُرۡنَا نہ کہ رَاعِنَا

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لیے کہ یہ یہود و نصاریٰ  کی اصطلاح میں ادب کے منافی تھا، واضح رہے کہ اللہ نے مومنوں  سے  84 بار خطاب فرمایا، مگر جو پہلا خطاب فرمایا تو یہ نہیں فرمایا کہ میری اطاعت کرنا بلکہ سرورِ کائنات ﷺ کا ادب کرنا، اس لیے کہ ادب کا مقام اطاعت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply