فرقہ واریت، عصبّیت اور نفرت/ڈاکٹر اظہر وحید

اسلام دینِ وحدت ہے۔ یہ واحد اور اَحد ذات کی طرف سے پیغامِ ہدایت و فوز و فلاح ہے ۔ کُل عالمین کے لیے! کیا اسلام میں رہتے ہوئے کسی فرقے کی گنجائش موجود ہے؟ کیا اسلام کا مزاج فرقہ واریت، عصبیت اور نفرت کو قبول کرتا ہے؟ دینِ اسلام کُل مذاہب ِ عالم کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے، اس بنیاد پر کہ   ”آپؐ فرما دیجئے! اے اہلِ کتاب! آؤ اُس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں مشترک ہے“ …… کیا اسی دین کے ماننے والے فرقوں میں اس قدر تقسیم ہو چکے ہیں کہ باہم مکالمہ نہیں کر سکتے؟ کیا ایک کلمہ، ایک نبیؐ، ایک قرآن اور ایک کعبے کو ماننے والے ایک دوسرے سے ایسے متنفر ہو گئے ہیں کہ ایک دوسرے کی اچھی باتوں کو سراہنے میں بخیل ہیں۔ وہ دین جو اپنے ماننے والوں کو یہ کہتا ہے کہ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اسے جہاں سے ملتی ہے، لے لیتا ہے …… جب ہم دوسری اقوام سے حکمت کے موتی لینے کے پابند ہیں، تو کیا ہم ایک دوسرے سے پُر حکمت باتیں نہیں سیکھ سکتے؟ یہ چند سوالات ہیں ۔  مبلغینِ اسلام کی خدمت میں!
فرقہ دراصل فرق سے ہے ۔  اصل اور کامل سے فرق جہاں رونما ہو گا، وہاں کوئی فرقہ نمودار ہو جائے گا۔ کیا کسی کے مسلمان ہونے کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ ایک اللہ کو مانتا ہے، محمد رسول اللہ کو اللہ کا آخری نبی مانتا ہے، قرآن کو اللہ کا کلام جانتا ہے۔  ایسا ناقابلِ تغیر و تبدل کلام جو تاحشر اہلِ جہان کے لیے پیغامِ ہدایت ہے۔ کیا ہم کسی کے قول پر اعتبار نہیں کر سکتے؟ کیا ہم رسولِ کریمؐ کی اس حدیث پر ایمان نہیں لا سکتے کہ   من قال لاالٰہ الا اللہ ققد دخل جنۃ …… جس نے کہہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، پس وہ داخل ہو گیا جنّت میں۔

جنّت اَمن اور سلامتی کا مقام ہے۔ جنّت کی طرف دعوت وینے والا اگر امن اور سلامتی فراہم نہیں کر رہا تو مقامِ غور ہے۔ جنت کی نشانی تو یہ ہے کہ وہاں ہر طرف سلام سلام کی صدائیں ہوں گی ۔ یعنی وہاں خلفشار، فساد، لڑائی جھگڑے کی کوئی بات نہ ہو گی۔ اہلِ جنّت ایک دوسرے کو طعن و تشنیع اور دشنام نہیں دیں گے۔ نفرت حسد اور بغض سے اُن کے سینے پاک ہوں گے۔ جبکہ اہلِ جہنم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ باہم مناقشت میں ہوں گے۔ جنت میں داخل ہونے کے خواہاں ابھی سے جنت میں رہنے کے آداب سیکھنے کی تیاری کیوں نہیں کرتے۔ جنت میں لے جانے کے لیے بیتاب مبلغین اِس دنیا کو اہلِ اسلام کے لیے جنت نظیر کیوں نہیں بناتے؟ ہاؤسنگ سکیم بنانے والے اپنے کلائنٹ کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے چند ایک ماڈل ہومز بنا کر دکھاتے ہیں، تا کہ دیکھنے والوں کی نظر میں ان کے ممکنہ مستقبل کے گھر کا نقشہ سامنے آ جائے۔ مستقبل بعید میں بھی ایک شاندار گھر تعمیر ہو رہا ہے، اہل اسلام کے لیے ، وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اِس میں آن شامل ہوں ۔ بہت اچھی بات ہے، بہت عمدہ فکر ہے …… پس! اب انہیں چاہیے کہ اپنے ہاں ایک جنّت نظیر وادی آباد کریں، جہاں معاشی خوشحالی اور معاشرتی بہبود و بہتری تو ہو گی ہی سہی، اس کے ساتھ ساتھ روحانی اور اخلاقی اقدار بھی روز افزوں بہتر سے بہترین کی طرف گامزن ہوں گی۔ جس طرح ایک مبلغ کو انفرادی طور پر سب سے پہلے خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے، اسی طرح اجتماعی نظام کی طرف دعوت دینے کے لیے بھی اپنے ہاں ایک خوبصورت نظام قائم کرنا اَزحد ضروری ہے۔ ہاں! پہلے اپنے ہاں!! غیر کو ماضی کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ہاں! اپنوں کو اپنے تابندہ ماضی کا حوالہ دے کر آمادہ عمل کیا جا سکتا ہے۔ غیر۔۔ زبانِ غیر میں بات کرتے ہیں۔ زبانِ غیر ۔۔ مادّی اور معاشی زبان ہے ۔۔ مادّی قوت کی زبان سب کو خاموش کرا دیتی ہے۔ قوت کی زبان اپنوں کے لیے نہیں، غیروں کے لیے ہوتی ہے۔

دینِ وحدت ۔۔ سوئے وحدت ہوتا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ جس میں ذرّہ برابر بھی کوئی خیر کی بات ہے، وہ ہمارے ہی دین کا اثاثہ ہے ۔  وہ ہمارا ہی کام کر رہا ہے۔  اسے سراہنا چاہیے۔ اس کی تعریف و توصیف سے اسے مزید خیر کی طرف رغبت دلانی چاہیے۔ جو خیر کی طرف رغبت نہیں دلاتے اُن کا شمار اُن نمازیوں میں ہو سکتا ہے، جن پر ویل کی وعید ہے …… جن کی تباہی پر قرآن گواہ ہے …… ان کی ایک نشانی یہ بتائی گئی کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے کی رغبت نہیں دلاتے۔ مسکین کو کھانا کھلانا ایک کارِ خیر ہے۔ اس کارِ خیر کی طرف رغبت دلانے میں جو بخل سے کام لیتا ہے، وہ اپنی عبادات کو برباد کرتا ہے۔ غیر کارِ خیر کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، نہ متوجہ کرتا ہے۔ یہ غفلت کی نشانیوں میں سے ہے۔ بیدار صفت اور بیدار مغز ہمہ حال کارِ خیر کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تبلیغ ہمہ حال ہوتی ہے ۔ اور زبانِ حال سے ہوتی ہے۔

دین کے مزاج میں وحدت ہے ۔ دوئی کے شرک میں مبتلا اَذہان و قلوب کو یہاں کافی دقّت کا سامنا ہوتا ہے۔ اُن کا فکر مستقیم نہیں رہتا ہے۔ ”میں“ اور ”تُو“ کی تقسیم میں مبتلا ظاہر پرست فرقہ پرستی کی ابتلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ ”ہمارے ہاں“ ایسا ہے لیکن ”ان کے ہاں“ ایسا نہیں ہے ۔ اس لیے وہ گمراہی میں ہیں اور ہم سرتاپا ہدایت پر! یہ اندازِ فکر ایک ”نادان دوست“ کا کردار ادا کرتا ہے۔ تحقیق کے نام پر تشکیک اور تردید کے رویے ہمیں الگ الگ کر رہے ہیں۔ جب ہم نے اسلام قبول کر لیا، تو اسلام میں سب کچھ ہی تسلیم کر لیا۔ اسلام میں سب مسلمانوں کو بھی تسلیم کر لیا ان کے رسوم و رواج، زبان، رنگ، نسل، بود و باش اور دینِ اسلام کے متعلق ان کی تفہیم (خواہ وہ مکمل نہ بھی ہو) سب کچھ قبول کر لینا چاہیے۔ اسلام تو تسلیم سے ہے ۔ اسلام کے نام پر ہمیں مسلمانوں کو بھی تسلیم کر لینا چاہیے۔ خدا کے بندو! خدا ایک ہے۔ تم بھی ایک ہو جاؤ!

فرقے ختم کرنے کا طریقہ یہ نہیں کہ دوسرے فرقوں پر کفر کا فتویٰ لگا کر انہیں دائرہِ اسلام سے خارج کر دیا جائے۔ بلکہ فرقے دور کرنے کا آسان اور فوری قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ اپنے فرقے کو ختم کر دیا جائے …… لیجئے! مبارک ہو! ایک فرقہ کم ہو گیا! فرقہ پرستی میں مبتلا شخص اپنے عیب اور دوسروں کی خوبی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنے عیب کا دفاع کرنے میں مصروف رہتا ہے اور دوسروں کے ہاں خوبی کے انکار کی روش پر قائم رہتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے حق فرمایا: ”فرقہ پرست، حق پرست نہیں ہو سکتا“۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ دین جو دینِ فطرت ہے، دینِ وحدت ہے، سکون، سلامتی اور سراسر خیر ہے۔ اِس دین میں ایک متعصّب و متنفّر رویے کی کس حد تک گنجائش ہے؟؟ یہ سوال ہے ، اُن مبلغین کی خدمت میں جو داعی اِلی الخیر بھی کہلاتے ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply