ماضی، حال، مستقبل

عملی زندگی کی بنیاد فلسفے کی موشگافیوں پہ نہیں رکھی جا سکتی۔ اس کی بنیاد متحرک لمحے، متحرک عمل اور متحرک سوچ ہوا کرتی ہے۔ فلسفے میں تو یہ بھی بحث رہی ہے کہ حرکت تو ہوتی ہی نہیں۔ جو چیز جس لمحے میں جہاں ہوتی ہے، وہیں ساکت ہوتی ہے۔ لمحہ بذات خود اپنے مقام پر ایک ساکت اکائی ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ زمین کا تحّرک عمومی زندگی میں دن رات پیدا کرکے ہمیں حرکت کا یقین دلاتا ہے۔
یہ تو بہت بار کہا گیا ہے کہ ساکت و ثابت کچھ بھی نہیں۔ بقول اقبال کے “ثبات ایک تغّیر کو ہے زمانے میں”، اگر فلسفے کی موشگافی پہ جایا جائے تو کہنا پڑے گا کہ تغیر ہی اگر ثابت ہے یعنی ہمیشہ کے لیے ہے تو ساکت ہے۔ثبات ثابت سے ماخوذ ہے اور ثابت کا تعلق ثبوت سے ہے۔ ثبوت مستند گواہی کو کہا جاتا ہے۔ مابعد الطبیعیات میں ثبوت درکار نہیں ہوتا، معتبر کے منہ سے ادا ہونے والے ہر لفظ پر ایمان لانا ثابت سند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس تجربی علوم یعنی سائینس میں معلوم پیمانوں پر پورا اترنے والے اعمال کو مصدقہ مانا جاتا ہے باوجود اس کے کہ موجودہ پیمانے، لازم نہیں کہ برقرار رہیں۔ سائنیس اور فلسفہ دونوں میں ہی تبدیلی کا امکان ہوتا ہے۔ یوں عملی زندگی تصور (فلسفہ) اور تجربہ (سائینس) کے باہم ہونے یا مدغم ہونے سے طے پاتی ہے۔
زندگی تو کدّو یا پتّھر کی بھی ہوتی ہے، لیکن عملی زندگی جاندار یا متحرک شے کی ہوتی ہے، جیسے انسان، جانور یا مشین۔ انسانوں کے اجتماع کو معاشرہ کہا جائے گا، جانوروں کے اکٹھ کو غول یا ریوڑ، اور مشینوں کے یک جا ہونے کو کارخانہ۔ یہ سبھی متحرک اشیاء انفرادی یا اجتماعی طور پہ تخلیق کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ تاہم ان کی تخلیقی صلاحیت تحرک کے علاوہ دیگر عناصر پہ بھی مبنی ہوتی ہے، البتہ ان کے وجود کا ماضی ہی ان کے مستقبل کا گواہ ہوتا ہے۔ اگر انسان نے ماضی میں جنم نہ لیا ہوتا تو آج وہ ترقی کی اس سطح تک نہ پہنچا ہوتا اور اگر جانوروں کی طرح چوپایہ رہتا تو دنیا میں کب سے جانوروں کا راج ہو جاتا کیونکہ انسان ان کی خوراک بن چکا ہوتا۔ اسی طرح اگر انسان پہلی تخلیق لیور اور دوسر بڑی تخلیق پہیہ نہ بنا پاتا تو آج مریخ تک جانے کی باتیں نہ ہو سکتیں۔ جانور چونکہ تحرک میں سست ہیں، چوپایہ سے دوپایہ نہیں بن پائے، اس لیے معدوم ہوتے چلے گئے باقی معدوم ہوتے جا رہے ہیں، وہی بچ رہے ہیں جنہیں انسانوں نے اپنی اغراض کے لیے پالنے کی ریت ڈال لی۔
جس مقام پر انسانوں کا ایک وسیع تر معاشرہ قابض و ساکن ہو، ظاہر ہے اس مقام کو ملک کہا جاتا ہے۔ ملک کا ماضی، حال اور مستقبل اس معاشرے کے من حیث المجموع عمل اور معاشرے کی رہنمائی کرے والے ارباب اختیار کی کارکردگی پر ہوتا ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ معاشرہ اور ارباب اختیار ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا عکس ہوا کرتے ہیں۔ اگر ارباب اختیار نااہل ہونگے تو مجموعی طور پر معاشرہ بھی نا اہلی کی تصویر بن جائے گا اور اگر معاشرہ اپنے طور پر پیش روی کی جراءت کر لے گا تو ارباب اختیار بھی وہی ہونگے جو جری ہونگے۔
معاشروں کے اجتماع یعنی اقوام کے لیے ماضی دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ ماضی جسے بدبخت اقوام اوڑھنا بچھونا بنا لیتی ہیں، اس نوع کا ماضی ایسی اقوام کو پدرم سلطان بود کے ورد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ یہ عادت ماضی کے مضبوط ہاتھوں میں کھینچ کے رکھی گئی لگام بن جایا کرتی ہے، جو تحرک کو روکے رکھتی ہے۔ ماضی کی دوسری صنف وہ ہوتی ہے جو افتخار کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی دلاتی رہتی ہے کہ اگر افتخار کو برقرار رکھنے کی روش نہ اپنائی اور ترقی کی راہ پہ چلنے سے گریز کے مرتکب ہو گئے تو میں تمہارا نہیں اور تمہارا میرے ساتھ نہ تعلق ہے نہ ربط ۔ ماضی کے بارے میں ماضی کے تحرک کی بقاء کا احساس ہی قوموں کے حال کو تابندہ کرتا ہے۔
حال ایک ایسے استاد کی مانند ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ان کے لیے ڈنڈا ہوتا ہے جو مستقبل کے بارے میں یا تو سوچتے نہیں یا اس سوچ کو موخر کرنے پر تلے ہوتے ہیں یا پھر سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ تاہم استاد اگر ان پر یہ ڈنڈا برسائے بھی تب بھی بیکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ان کے لیے جو مستقبل کے بارے میں ہمہ تن گوش ہوتے ہیں اور حال کو بھی مستقبل کا تردد کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں، حال کے استاد کے منہ میں ڈھیلی ڈھالی زبان ہی ہوتی ہے، پھر بھی وہ استاد کے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کو اپنے پہ پڑنے سے روکنے کی خاطر جستجو اور عمل بیہم کا دامن نہں چھوڑتے۔ حال کل ماضی بن جائے گا اور مستقبل حال، اگر ماضی بہتر ہوگا تو حال بھی بہتر ہوگا اور اگر حال بہتر ہوا تو مستقبل مخدوش ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔
ہمارا ماضی کیا تھا؟ ہمارا حال کیا ہے؟ کیا ہمارا مستقبل مخدوش نہیں ہے؟ ہمارا ماضی سیاسی آویزشوں اور عسکری ناکندہ تراشیوں سے عبارت ہے، ماضی میں ہم اغیار کے یار بن گئے، غلطیوں پہ غلطیاں کرتے چلے گئے۔ حال میں ہم سنبھلنے کی خواہش تو کرنے لگے ہیں لیکن لڑکھڑاتے قدموں پہ اعتبار کرنے کا یارا نہیں ہے۔ حال ہمارا اندھیرے اجالے کا ملغوبہ ہے، ہم روشنی کی خواہش بھی رکھتے ہیں اور اندھیرا چھا جانے کا خوف بھی پالے ہوئے ہیں۔ اگر ہمیں مستقبل کو تابندہ بنانا ہے تو ہمیں اندھیروں کو رواج دینے والوں کی نفی کرنی ہوگی اور روشنی کی لکیروں کو اپنے ہی ہاتھوں میں تھام کر باہم کرنا ہوگا، رہبر یا رہبروں کی توقع کے بغیر۔ جب روشنی کا یقین ہو جائے گا تو روشنی کے امین رہنما خود بخود قدم آگے بڑھانے لگیں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply