ولایت آئے ہوئے کچھ دن ہو چکے ہیں۔ نیا شہر ہے، نئے لوگ۔ میں اکثر شام کو چہل قدمی کرنے نکل جاتا ہوں۔ ان لوگوں کے رویے، انداز دیکھتا ہوں اور لاشعوری طور اپنے وطن، اپنے لوگوں سے موازنہ کرتا رہتا ہوں۔
کل شام چہل قدمی کے لیے نکلا تو دیکھا ایک مرغابی سڑک پہ آئی ہوئی ہے، ساتھ اس کے کچھ بچے ہیں۔ وہ مرغابی اپنے بچوں کے ساتھ سڑک کے بالکل ایک کونے پہ چل رہی تھی لیکن سڑک کے دونوں طرف گاڑیاں رک گئی ہوئی تھیں۔
میں حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ باقی ساری سڑک خالی پڑی ہوئی ہے۔ گاڑیاں بہت آسانی سے گزر سکتی ہیں۔ مرغابی کو کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ نہیں لیکن دونوں طرف کی گاڑیاں اپنی اپنی جگہ ٹھہر گئی ہیں ، ٹریفک رک گئی ہے۔
میرے دیکھتے دیکھتے سامنے والے گھر سے ایک انگریز خاتون نکلی، اس کے ہاتھ میں بریڈ کا پیکٹ تھا۔ اس نے مرغابی کے پاس جا کر بریڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور ساتھ والے فٹ پاتھ پہ گرانے شروع کر دیے۔ مرغابی کے بچے اٹھے اور فٹ پاتھ پہ جا کر وہ بریڈ کے ٹکڑے کھانے شروع کر دیے۔ سڑک خالی ہو گئی، گاڑیاں چلنے لگیں اور ٹریفک پہلے کی طرح رواں ہو گئی۔
میں پاس کھڑا دیکھ رہا تھا۔ ان کے اچھے رویے نے اپنے برے رویوں کے زخم ہرے کر دیے تھے۔ میں سوچ رہا تھا ہم سے کہاں غلطی ہو گئی؟ ہماری تعلیم اور تربیت میں کہاں کمی رہ گئی؟ ہماری قوم کیسے اخلاقی پستیوں میں گر گئی۔
ہمارے پرکھوں نے کہاں غلطی کر دی کہ ہماری ترجیحات ہی بدل گئیں، ہمارے معاشرے کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔
میں سوچ رہا تھا ہمیں اخلاقیات کے اس مقام تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟ ابھی تو یہ حالات ہیں کہ ہم جانور تو کیا، انسانوں کو بھی ان کے حقوق دینے پہ تیار نہیں۔
ایسا نہیں کہ ہم لوگ برے ہیں یا ہم لوگ خراب ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں تربیت ہی نہیں دی گئی اچھا بننے کی، مہذب انداز میں رہنے کی، ڈھنگ سے زندگی گزارنے کی۔ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کہ ہمیں اپنے اردگرد بسنے والوں کے حقوق کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ سڑک پہ جاتے ہوئے دوسروں کو بھی رستہ دینا ہے۔ گھر بناتے وقت صرف اپنا آرام نہیں دیکھنا، اپنے پڑوسیوں کے آرام، ان کی حدود کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ہمیں دوسروں کی زندگی آسان کرنے کا سبق سکھایا ہی نہیں گیا۔
یقیناً پاکستان میں بھی بہت اچھے، بہت مہذب لوگ موجود ہیں لیکن اجتماعی رویے کے مسائل سے انکار بھی تو ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روز وطن عزیز میں کوئی نیا سانحہ، کوئی نیا ظلم رقم ہوتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں، کڑھتے ہیں اور بے بسی سے ہاتھ ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ انھی سوچوں میں گھرا چہل قدمی کر کے واپس آیا، موبائل اٹھا کر سکرولنگ کی تو سامنے ہی اونٹ کا واقعہ آ گیا۔
کہ کیسے اک اونٹ کسی وڈیرے کے کھیتوں میں گھس گیا اور اس وڈیرے نے اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی۔ زندہ اونٹ کی ٹانگ کاٹ کر اپنا سر فخر سے اونچا کر دیا۔ روتے ہوئے، کرب سے چیختے ہوئے اونٹ کی ویڈیو سامنے تھی اور آنکھوں کے سامنے مرغابی کو سڑک پہ دیکھ کر رکی ہوئی گاڑیوں کی قطار بھی آ رہی تھی ، اور اس مرغابی کے بچوں کو گھر سے لا کر بریڈ کھلاتی انگریز خاتون بھی۔
سکرول کرتے ہوئے تھوڑا نیچے گیا تو اونٹ والی بات پہ کسی نے اپنا اک واقعہ بھی لکھا ہوا تھا کہ کیسے ان کا قربانی کا بکرا کسی کے گھر میں گھس گیا تو وہاں لوگوں نے اس بکرے کو ڈنڈے مار مار کر اس کے جسم پہ نیل ڈال دیے۔
یہ واقعات تو تکلیف دہ ہیں ہی، لیکن دوسری اقوام کو مہذب انداز میں رہتے ہوئے دیکھ کر ان واقعات کی تکلیف مزید کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ ہم لوگ کیوں اور کیسے اتنے بد اخلاق، اتنے غیر مہذب ہوتے چلے گئے۔
معلوم نہیں ہمارا تعلیمی نظام کب حقیقی انداز میں تعلیم دینا شروع کرے گا، معلوم نہیں کتنی نسلیں لگیں گی ہمیں مہذب ہونے میں، دوسروں کے حقوق کے متعلق سوچنے میں۔
اور کچھ نہیں تو اپنے گریبان میں ہی جھانک لیجیے، کیا آپ سڑک پہ چلتے ہوئے دوسروں کے حقوق ان کے آرام کا خیال رکھتے ہیں؟ گھر بناتے ہوئے پڑوسیوں کے حقوق، ان کی حدود کی فکر کرتے ہیں؟
دکان چلاتے ہوئے اپنی حدود سے زیادہ جگہ پہ قبضہ تو نہیں کر لیتے؟ کام کرتے ہوئے بددیانتی تو نہیں کر جاتے؟
ہم استاد ہیں تو کیا بچوں کو اچھی تعلیم دے رہے ہیں، ڈاکٹر ہیں تو کیا مریضوں کا اچھا علاج کر رہے ہیں؟
اپنے گریبان میں جھانکیے، اور کچھ نہیں تو اپنے آپ کو تو ٹھیک کر لیجیے۔ آپ مہذب بن جائیے، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والے بن جائیے۔ اپنا کام دیانت داری سے کرنے والے بن جائیے۔ دوسروں کو آسانیاں دینے والے بن جائیے۔
کہ اس معاشرے میں کم از کم اک مہذب فرد کا اضافہ تو ہو !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں