ایک اور بچہ ، ایک اور وحشی مُلّاں/محمد وقاص رشید

سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ سلامتی کے دین میں رحیم و رحمان  خدا کی رحمت للعالمین ﷺ  پر اتری ابدی ہدایت کی کتاب پڑھتے ننھے بچے سفاک ملاں کے ہاتھوں ذہنی ، جسمانی اور روحانی تشدد کیوں برداشت کرتے ہیں۔ جو کہ بدترین صورت میں جنسی تشدد بھی بن جاتا ہے ؟

اس تشدد کا حاصل سوائے اسکے ہے کیا کہ متشدد ماحول میں اپنے بچپن کا حسن اور معصومیت کھو دینے والے بچے اتنے ہی سفاک بن کر کل آنے والی نسل کے بچوں سے انکا بچپن چھین کر اپنا ازالہ کرتے ہیں۔ نسل درنسل چلتی اس متشدد کہانی کو وہ ریاست کیا روکے گی جو خود اپنی رعایا پر مختلف طریقے کا جبر روا رکھے ہوئے ہے۔ جسکی قانون ساز اسمبلی کے ارب پتی اسمبلیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ” تھڑے بازی ” کرنے جاتے ہیں اور بس۔

ایک مضمون میں مدارس میں پانچ تشدد کے واقعات میں انسانیت سوز اور بھیانک ترین جرائم کا ذکر کر کے یہی  بنیادی سوال اٹھایا تھا کہ یہ جرائم تو کبھی کسی مفتوح قوم کے بچوں کے ساتھ بھی سفاک اور ظالم دشمن نہیں کیا کرتے۔

خدا کے آخری پیغمبر جنابِ رحمت للعالمین  ﷺ  خود یتیم پیدا ہوئے کہ والد محترم آپ کی ولادت سے کچھ قبل وفات پا گئے۔ اس یتیم ہستی نے عید والے دن ایک بچے کو روتے دیکھا جسکا باپ کسی غزوہِ میں شہید ہوا۔ وجہ پوچھی ۔ بچے نے کہا میرا باپ مر گیا، فرمایا  میں تیرا باپ۔ گھر لے گئے نہلوایا دھلایا، کپڑے دلائے ، کھانا کھلایا۔ یتیم کی کفالت کی ترغیب دی۔ خدا نے یتیموں سے اچھے برتاؤ کو اپنی کتاب میں ابدی امر کی حیثیت سے ثبت کر دیا۔ یہ تھی آخری نبیﷺ  کی وراثت۔ غضب خدا کا ان آیتوں اور سنتوں کا خراج کھانے والے خود کو انبیاء کا وارث کہنے والے  عین غریب یتیم شاگرد ڈھونڈتے ہیں جسمانی و جنسی تشدد کے لیے۔ سارا دن ” والیتٰما والمساکین” کی آیتیں جپنے والے منافق کہیں کے۔

ایک اور سسکتے بلکتے یتیم بچے کی ویڈیو دیکھی، بھوک سے نچڑی ہڈیوں پر سفاکیت اور بربریت کے نشان دیکھ کر دل خون کے آنسو رو دیا۔ ہچکیاں لیتے بچے نے بتایا کہ وہ یتیم ہے اور اس کے ساتھ اسکے ننھے مدقوق جسم پر پڑے نشان بلبلا رہے تھے کہ اس کس بے رحمی سے مارا اس بھیڑیے نے۔

بچے کے رشتہ دار نے بتایا کہ بے غیرت درندے نے اس بچے کی دو تین دن پہلے انگلی توڑ دی تھی۔ بے چارے کے ہاتھ پر پٹی ابھی موجود تھی۔ سینے میں انسانی دل رکھنے کی بجائے کسی وحشی درندے کا دل رکھنے والے لعنتی مُلّاں نے اس بندھی ہوئی پٹی کا بھی لحاظ نہیں کیا اور ادھر اسکا کزن اسکو واپس مدرسے چھوڑ کر گیا اور ادھر وہ پھر سے اس معصوم یتیم پر پل پڑا۔  اس یتیم کو پھر اتنا مارا کہ بے چارہ درد و اذیت سے نڈھال ہو گیا۔ آپ اندازہ کیجیے کہ سر تک پر ڈنڈے مارے۔ یہاں پوچھتا ہوں ایک بار پھر میں “ہر مدرسے میں نہیں ہوتا ” ۔ اور “سکولوں میں بھی ایسا ہوتا ہے “اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش” کہنے  والوں سے کہ کبھی کسی سکول کے استاد ،استانی نے کسی بچے کی انگلیاں توڑیں اور ان ٹوٹی ہوئی انگلیوں کے محض دو دن بعد بندھی ہوئی پٹی کے ساتھ سر پر ڈنڈے مارے۔۔سنا ؟ سر پر ڈنڈے۔

خدا کی قسم مدرسہ و سکول تو بڑی ارفع منزل ہے کہ وہاں بقول رحمت للعالمین ص “خدا کے باغ کے پھولوں ” یعنی بچوں نے پروان چڑھنا تھا۔ ان جیسوں کو مدرسہ و سکول تو کیا جانوروں کے باڑوں میں بھی کوئی گھسنے نہ دے۔ ریاست کی تعریف کے کسی آخری درجے  پر بھی براجمان کوئی انسانی ریاست اور سماج ہوتے تو اس کے مکروہ ہاتھ آہنی زنجیروں میں جکڑ لیتے۔

اسکے رشتہ دار نے بتایا کہ جب وہ شکایت کرنے کے لیے مدرسے گیا تو ہمیشہ کی طرح مدرسہ مہتمم نے الٹا اسے ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ اس نے کہا وہ تو الٹا مجھے مارنے لگے تھے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ بے شرمی ، ڈھٹائی اور بدمعاشی کی کیسی حد ہے خدا کی قسم۔

کاش کہ پاکستان میں کوئی انسانی حقوق کا ادارہ اس پر نوٹس لے۔ کاش کہ آئے روز جنسی و جسمانی تشدد کے ان روح فرسا واقعات پر خاص مدرسہ و سکول کے لیے کوئی قانون بنے کہ ان بچوں کو آنے والی نسلوں کے لیے درندہ صفت بننے سے بچایا جا سکے۔

ایک وہ نبی جن کے سامنے ایک بچے نے یتیمی کے آنسو بہائے تو دستِ مبارک سے پونچھ لیے۔ ایک یہ انکا نام بیچنے والے نام نہاد انبیاء کے وارث کہ جن کے سامنے انکے مکروہ ہاتھوں میں پکڑے پائیپوں ، ڈنڈوں اور چھڑیوں سے درد و اذیت کی اوج پر اپنی ننھی ننھی ہڈیاں اور جان بچانے کے لیے تڑپتے لرزتے بلبلاتے بچے اپنی یتیمی کے واسطے دیتے رہتے ہیں لیکن ظالموں کو رحم نہیں آتا۔ خدا کرے آ ہیں لگیں تمہیں ان یتیموں کی بے رحم درندو۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ :  یہ واقعہ مدرسہ حسینہ صراط المستقیم حسین اباد کنڈسرگانہ تحصیل کبیروالا ضلع خانیوال کا ہے۔ مدرس کا نام  مولوی اللہ رکھا ہے۔ قرآن مجید حفظ کرنے والے یتیم معصوم بچے کا نام محمد احمد ولد  محمد ظفر مرحوم ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply