• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چنڑے(دنیا کے جھمیلوں سے دور ایک الگ دنیا کی کہانی) -علی ہلال/قسط5

چنڑے(دنیا کے جھمیلوں سے دور ایک الگ دنیا کی کہانی) -علی ہلال/قسط5

قاری صاحبان کی مارپیٹ اور آنے والی گرمیوں کی ممکنہ شدت کی فرضی کہانیوں کے خوف سے متاثر ہوکر میں جلد ازجلد فیصل آباد کے اس دارالعلوم سے کہیں دور نکل جانے کے لئے پرتولنے لگا ۔
میرے ہمسفر کی مجھے بونیر لیجاکر اپنے ایک استاذ کے ہاں بٹھانے کی خواہش تھی مگر میں نے اسے لاہور جانے کا اٹل فیصلہ سنا دیا ۔ تیس تیس روپے کی دوٹکٹیں لیکر ہم فیصل آباد سے بذریعہ بس لاہور پہنچ گئے ۔

دوران سفر میں نے اسے اپنے مستقبل کے عزائم کے بارے بتایا کہ میں لاہورمیں جلد ازجلد حفظ قرآن مکمل کرکے درس نظامی پڑھنا چاہتا ہوں جس کے لئے میں کراچی کا انتخاب کرچکا ہوں ۔ میرے مبذرانہ خیالات سن کر پہلے تووہ کچھ طنزیہ سی مسکراہٹ ہنسے ، تیور کو عجیب وغریب حرکت دی اور بھنوئیں چڑھا کر بغیر لفظوں سمجھا دیا کہ دال خوا مسور نہ بھی ہو تب بھی منہ کوئی اچھا سا ہونا چاہئے ۔۔ اس کے بعد اس نے مجھے کتابوں کی پیچید گیوں اورفنی باریکیوں کے ایسے ایسے خوفناک اورسنسنی خیز قصے سنانے شروع کردئے جنہیں سن کر میں کچھ دیر کیلئے سکتے میں آگیا ۔
یہ پہلا حربہ تھا جس کےکامیاب اثرات دیکھ کر اس نے میرے متاثر ہونے کے نہلے پر علم الصرف کی ایک گردان کا دہلا مارتے ہوئے ایک ہی سانس میں صرف صغیر سنا ڈالی ۔۔
ضرب یضرب ضربا فھو ضارب وضرب یضرب ضربا فذک مضروب۔۔۔۔الخ

کون ظالم ہوگا صرف صغیر سن کر جس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا نہ رہ جائے  ۔ کہنے کو صرف صغیر مگر بے حد طویل وکبیر گردان سنتے ہی میرے حوصلے ڈوبنے لگے  ۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں ایک گندے اوربدبودار قسم کے پانی کے جوہڑ میں ڈوب رہا ہوں  ۔ میرے دل ، دماغ اور جسم میں خوف اور مایوسی کی ہزاروں چیونٹیاں رینگنے لگیں ۔ سردی کے باوجود میرے مساموں سے پسینہ بہنے کی نمی محسوس ہونے لگی ۔

میرے پاس اس گردان کے جواب میں اپنے عزائم کے دفاع کے لئے منطقی مواد نہیں تھا لہذا اس خوف کے تاثر کو زائل کرنے واسطے میں نے دوبارہ حفظ اورتجوید کا موضوع چھیڑ دیا تاکہ ماحول میں پھیلی ہوئی بدمزگی کا تاثر ختم ہو۔۔

اس رویہ سے مجھے مایوسی تو نہیں ہوئی مگر مجھے یہ سبق مل گیا کہ مایوس انسان سے مشورہ لینے اور الگ منزل کے مسافر کو ہمسفر بنانے سے بہتر ہے کہ انسان بغیر مشورے کے تنہا سفر کا انتخاب کرے ۔
میرا یقین پختہ ہوگیا کہ میرا ساتھی اس راستے پر مزید چلنے کا ارادہ ترک کرچکا ہے لہذا اس سے کسی قسم کا مشورہ لینا یا اسے اپنے عزائم سے متعلق آگاہ کرنا بے سود ہے  ۔
لاہور پہنچ کر مجھے میرے ایک رشتہ دار کے حوالے کرکے وہ میری ذمہ داری سے بری الذمہ ہوگیا ۔

دوسرے ہی روز میرا یہ رشتہ دار مجھے ایک مدرسے لے گیا جو پرانے لاہور کے مشہور علاقے رنگ محل چوک کے قریب تنگ وتاریک گلیوں میں واقع ہے ۔۔ چاروں طرف سے چارمنزلہ عمارت کے نیچے واقع ایک مسجد اور دوکمروں پرمشتمل اس مدرسے میں داخل ہوکرہرسمت بیٹھی ہوئی سینکڑوں خواتین کے جھمگٹے دیکھ کر مجھے حیرت کا پہلا دھچکا لگا ۔۔۔ مدرسہ اورخواتین ؟۔ خیر میرے اس سہولت کار نے بتایا کہ مہتمم صاحب اللہ کے ایک برگزیدہ پیر ہیں ۔ وہ تعویذ دیتے ہیں تو انسانوں  کو شفا ملتی ہے، چونکہ خواتین دم درود اور گنڈہ تعویذ پر یقین زیادہ رکھتی ہیں لہذا ان کی یہاں موجودگی اس وجہ سے ہے ۔

مہتمم صاحب بے حد سنجیدہ ،بارعب ،بردبار اور انتہائی پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔۔۔

ان کی ابتدائی گفتگو اوربعد میں وہاں پڑھنے کے دوران اندازہ ہوگیا کہ بلاشبہ وہ ایک انتہائی نیک ، پارسا اور بے حد محتاط انسان ہیں ۔ انہوں نے مجھے ایک مختصر جائزے کے بعد درسگاہ میں بٹھادیا  ۔ مدرسے میں پشتو بولنے والا صرف ایک طالب علم تھا جو بدقسمتی سے پشتو کے بجائے ٹھیٹھ پنجابی بولتا تھا  ۔ میری کمزوری یہ تھی کہ پنجابی کبھی سنی ہی نہ تھی ۔  نہ قاری صاحب کی بات پلے پڑرہی ۔نہ کسی ہم درس سے بات کرسکتا ہوں ۔۔ میری تلاوت سن کرقاری صاحب نے مجھے آدھا آدھا پارہ منزل سنا نے کے ساتھ نیا سبق دینے کا فیصلہ سنادیا ۔

عمومی طورپر قاری صاحبان ایسا کرتے نہیں وہ اپنے پیش رو قاری کی پڑھائی کو قبول نہیں کرتے اور جب تک دوبارہ سے پرانا نہ پڑھائے وہ مطمئن نہیں ہوتے ۔

قاری صاحب میری پڑھائی سے تو مطمئن ہوگئے مگر زبان سے ناواقفیت سے تنگ آکر انہوں نے مجھے اسی مدرسے کے مشاہرے پر پڑھانے والے ایک دوسرے قاری صاحب کی کلاس میں منتقل کروا دیا  ۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے قاری صاحب کی کلاس چھوڑ کر سردگودھا سے تعلق رکھنے والے نئے قاری صاحب نے میرا اچھا استقبال کیا اور بڑی اچھی نصیحتیں کرکے میرا حوصلہ بڑھادیا۔ تاہم انہوں نے فیصلہ سنادیا کہ وہ انہیں شروع سے ہی پڑھائیں گے ۔۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا کے مقصداق میں نے بسم اللہ کرکے سبق شروع کردیا ۔

لاہور کے حفظ کے مدارس میں اس زمانے میں مار پیٹ کا ماحول عروج پر تھا ۔۔ قاری صاحبان کے ہاں مارپیٹ کے عجیب وغریب طریقے رائج تھے ۔۔ان مروجہ طریقوں میں ’’لمبا پانا‘‘ ایک بڑی خطر ناک اصطلاح تھی ۔  ملزم کو فرش پر لٹا کر دوطالب علم اس کی ٹانگیں پکڑ تے جبکہ ایک اس کا سر گھٹنا یا دونوں ہاتھ رکھ کر زمین سے دبا کر قابو کرلیتا جس کے بعد قاری صاحب بانس کی ایک موٹی لاٹھی اس کی پیٹھ پر برسا کر اللہ کے کلام میں غلطی کے مرتکب اس گناہ گار کی تواضع کرکے ثواب دارین حاصل کرتا ۔

میں جس مدرسے میں تھا وہاں مارپیٹ پر سخت پابندی تھی ۔ متہمم صاحب نے تمام اساتذہ کو ہدایت دی تھی کہ کوئی قاری کسی بچے کو ڈنڈے سے نہیں مارے گا ۔مہتمم صاحب کو ہم بڑے قاری صاحب بولتے تھے جبکہ ان کے بھائیوں کو تایا جی اورچچا جی کہہ کر پکارتے تھے ۔۔ بڑے قاری صاحب کی اہلیہ ایک خدا ترس اور طالب پرور خاتون تھیں ۔۔چترال کے ایک پڑھے لکھے اوردولت مند گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کے دل میں خوف خدا اور مسافر طلبہ سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ گرمی ہو یا سردی وہ صبح شام طلبہ کی خبرگیری کرتیں ۔ تیسری منزل پرواقع اپنی رہائش گاہ سے پردے کی اوٹ سے دیکھ دیکھ کر طالبعلموں کی نگرانی کرتیں اور بیمار طلبہ کو گھر سے پرہیز کا کھانا بھجوانا نہ بھولتیں ۔ خود بڑے قاری صاحب جتنے سخت مزاج دکھتے تھے اس سے کہیں زیادہ وہ نرم اورشیرین مزاج تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply