ہالی ووڈ اور کراچی/شکور پٹھان

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چوتھی جماعت میں تھا۔ میرے بگڑنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا بلکہ یوں کہیے کہ مجھے بگاڑنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور اس میں سب سے بڑا ہاتھ میرے چھوٹے چچا کا تھا۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے ۔ میرے چچا اور میری عمر کے فرق کا اندازہ یوں لگائیے کہ میں جس اسکول میں کچی پہلی میں پڑھتا تھا ، چچا اس کی نویں جماعت میں تھے اور جب میں چوتھی جماعت میں آیا تو چچا کالج کے دوسرے یا تیسرے سال میں تھے۔ اتفاق دیکھئے کہ چھ سات سال بعد میں بھی اسی کالج میں داخل ہوا جس میں چچا پڑھ چکے تھے، گویا میری پہلی اور آخری درسگاہیں وہی تھیں جہاں چچا نے تعلیم حاصل کی۔ ہمارے درمیان رشتہ بے شک چچا بھتیجے کا تھا لیکن تعلق بھائیوں سے بھی بڑھ کر دوستوں جیسا تھا۔

کراچی جو کچھ میں نے دیکھا شاید اس کا اسی (۸۰) فیصد مجھے چچا نے دکھایا۔ میرے کالج کے آخری دوسالوں میں وہ مزید پڑھنے کے لئے امریکہ چلے گئے۔ میں نے پڑھائی ختم کی اور بحرین آگیا اور ایک ڈیڑھ سال بعد وہ بھی بحرین آگئے لیکن یہاں سے ہماری راہیں جدا ہوگئیں ۔ میں سعودی عرب چلاگیا، وہ پاکستان واپس چلے گئے۔ سعودیہ سے میں دوبئی چلا آیا، وہ بیماری کی حالت میں امریکہ چلے گئے اور وہیں سے اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ انہیں اکیلے میں یاد کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں لیکن جب ہم سب مل کر انہیں یاد کرتے ہیں تو قہقہے پھوٹ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ایسی ہی باغ و بہار شخصیت تھے اور ان کی یادیں ایسی ہی دلفریب ہیں۔

چچا کی یاد میں کچھ زیادہ ہی آگے چلا گیا۔عرض یہ کررہا تھا کہ چوتھی جماعت تک خاصا بگڑ چکا تھا یعنی تقریباً چھ سات فلمیں دیکھ چکا تھا اور یہ ساری فلمیں چچا کے ساتھ دیکھی تھیں ( سوائے فلم “ سہیلی” کے جو ابّا مجھے اور باجی کو دکھانے لے گئے تھے)۔ یہ اور بات ہے کہ اس زمانے میں ( زیادہ تر) فلمیں ایسی ہی نونہال اور معصوم سی ہوتی تھیں کہ بچے ، ماں باپ اور بزرگوں کے ساتھ دیکھ سکتے تھے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ “ بھائی بھائی “، “ میرا کیا قصور” “ ماں کے آنسو” اور “ ہمراہی” جیسی فلمیں دیکھ کر کوئی کتنا کچھ بگڑ سکتا ہے۔
تو ہوا یوں کہ ایک دن ہم “ لیرک “ سینما پر ٹکٹ کی لمبی قطار میں کھڑے تھے۔ فلم تھی The Guns of Navarone. جس کے لئے سنتے تھے کہ لوگ باگ صبح سے آکر قطار بنا کر کھڑے ہوتے تھے۔ ہم ٹکٹ گھر کی کھڑکی سے کچھ ہی دور تھے کہ میرے دماغ میں اچانک ایک کیڑا کلبلایا۔ میں پکا اردو میڈیم تھا اور چوتھی جماعت میں ایک ایسے اسکول میں ڈالا گیا تھا جس نے اللہ جانے کیوں اپنے نام کے ساتھ انگلش میڈیم لکھا ہوا تھا۔ اس اسکول کے انگلش میڈیم کا یہ حال تھا کہ چوتھی جماعت میں “ واٹ از دس ؟” “ دس از اے کیٹ” وٹ از دس؟”، “دس از اے ریٹ” قسم کی انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔ چچا مجھے یہ فلم تفریحی سے زیادہ تعلیمی مقاصد کے لئے دکھانا چاہتے تھے کہ مجھے انگریزی بول چال سے کچھ واقفیت ہوجائے گی۔ چچا خود بہرحال اس فلم کی شہرت کے باعث یہ فلم دیکھنا چاہتے تھے۔

میں نے چچا کو مطلع کیا کہ میں یہ فلم ہرگز نہیں دیکھوں گا  کہ یہ میرے بالکل پلے نہیں پڑے گی۔ چچا نے مجھے سینما ہال کے سامنے کی قطاریں دکھا کر قائل کرنے کی کوشش کی کہ دیکھو کتنی زبردست فلم ہے۔ لیکن میں اپنے موقف سے ہٹنے پر بالکل تیار نہیں تھا۔

ایک بات بتاتا چلوں کہ چچا بے شک میرے دوست تھے لیکن وقت ضرورت میری گو شمالی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے تھے اور موقع محل کا لحاظ کئے بغیر میری طبیعت صاف کردیا کرتے تھے۔ لیکن آج میں کچھ زیادہ ہی باغیانہ انداز اختیار کئے ہوئے تھا یا وہ آس پاس کے مجمعے کی وجہ سےخاموش تھے۔ میں اپنے فیصلے پر اٹل تھا اور بوقت ضرورت یعنی بصورت پٹائی وہیں پسر جانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ چچا نے شاید پہلی ( اور آخری ) بار پسپائی اختیار کی اور قطار سے باہر نکل آئے۔

ہم شہر کے مضافات میں رہتے تھے اور شہر آنا ہمارے لئے ایک بڑا واقعہ ہوتا تھا۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ جس مقصد کے لیے شہر آئے تھے اس کے بغیر واپس چلے جائیں۔چچا نے گھڑی دیکھی اور میرا ہاتھ ( بلکہ کان) پکڑا اور مجھے تقریباً دوڑاتے ہوئے بندر روڈ پر سینماؤں کی قطار کے سامنے سے گذارتے ہوئے لے چلے۔ ناز، نشاط، گوڈین وغیرہ پر کوئی ڈھنگ کی فلمیں نہیں لگی تھیں۔ “ ریوالی “ سنیما پر البتہ بہت رش تھا۔ یہاں فلم “ ماں کے آنسو” چل رہی تھی جو ان دنوں بہت “ ہٹ “ جارہی تھی۔ میں نے واضح انداز میں اپنا ووٹ اس فلم کے حق میں دے دیا۔ البتہ چچا کے لئے یہ فلم ہضم کرنا بہت مشکل تھا جو “ گنز آف نیوارون” دیکھنے کی نیت کرکے گھر سے چلے تھے۔

روتی بسورتی “ ماں کے آنسو” اور “ اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا، دنیا کی ٹھوکروں میں پھرتے ہیں بے سہارا “ جیسا فقیروں اور یتیموں والے گانے سن کر میں بہت مطمئن گھر واپس لوٹ رہا تھا۔ چچا کا موڈ البتہ گھر آنے کے بعد بھی بہتر نہ ہوا۔

اور ٹھیک چھ سال بعد پہلی جنوری کی شام اسی لیرک سنیما میں مجھے اور میری انگریزی میڈیم کزنز کو چچا نے فلم “ گنز آف نیوارون” دکھائی اور “ پاک آئس کریم “ میں آئسکریم کھلا کر میری سالگرہ منائی۔ اور میں نے یہ فلم بڑی ہنسی خوشی اور شوق سے دیکھی اور یہ قطعا” بھول گیا کہ کبھی اسی فلم کو نہ دیکھنے کے لئے میں نے اسی سنیما کے سامنے فٹ پاتھ پر پیر رگڑے تھے۔

“ گنز آف نیوارون” کو ہنسی خوشی اور شوق سے دیکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک میں اچھی خاصی تعداد میں انگریزی فلمیں دیکھ چکا تھا اور شاید کالج میں آگیا تھا اور کچھ نہ کچھ فلم پلے پڑ ہی جاتی تھی۔ لیرک کے ہی پڑوس میں “بمبینو” سنیما تھا جہاں میں نے چچا ہی کے ساتھ پہلی بار انگریزی فلم “ بوئنگ بوئنگ” دیکھی تھی۔ اب یہ ایسی فلم تو نہیں تھی جسے بچے دیکھیں، لیکن اب میں بچہ رہا بھی کہاں تھا۔
“ بوئنگ بوئنگ” ابتدا تھی انگریزی فلموں سے دوستی کی۔ اب انگریزی فلموں کا ایک الگ ہی مزہ تھا۔ اردو فلمیں بھی دیکھتے تھے لیکن ان دنوں انگریزی کی بڑی شاہکار فلمیں آیا کرتی تھیں جن کی شہرت اور مقبولیت اردو فلموں سے کم ہرگز نہ ہوتی۔ البتہ انگریزی فلموں کے شائقین کا ایک مخصوص حلقہ ضرور تھا اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ انگریزی زبان سے واقفیت تھی۔ انگریزی سنیماؤں کا ماحول بھی قدرے مختلف تھا ۔ چچا ایک آڈٹ کمپنی میں کام کرتے تھے اور انہیں بے شمار سینماؤں کے فری پاس ملا کرتے تھے اور ہم بچوں کے عیش تھے۔ زیادہ تر میں اور چچا ساتھ فلمیں دیکھتے تھے۔ اردو فلموں کے لئے خاندان کے اردو میڈیم بچے ( زیادہ تر ہمارے گھر والے) اور انگریزی فلم کے لیے ہمارے وہ کزنز جو سینٹ جوزف اور سینٹ پیٹرکس میں پڑھتے تھے، انہیں لے جایا جاتا۔

طبقاتی فرق سنیماؤں میں بھی تھا۔انگریزی سنیماؤں کا معیار عام طور پر اردو سینما سے بہتر ہوتا۔ صفائی اور نظم و ضبط بھی بہتر ہوتے۔ یہاں تک کہ سینماؤں کی کینٹین میں خورد ونوش کی اشیاء بھی مختلف ہوتیں۔ انگریزی سینماؤں میں سینڈوچز، کافی وغیرہ ملتے اور بہت سے سینماؤں کی کینٹین اپنے مخصوص آئٹمز کے لئے مشہور تھیں۔ ان کی تفصیلات ہمارے دوست راجو جمیل کے مضمون “ Cinemas of Karachi” میں بڑے دلچسپ انداز میں پیش کی گئی ہیں۔
زیادہ تر انگریزی فلمیں لیرک، بمبینو، گوڈین، ریکس، ریو، کیپیٹل ، پیلس اور پیراڈائز میں لگتیں۔ پھر ایک بہت معیاری سنیما کیپری شروع ہوا جہاں فلمیں بھی بہت زبردست لگتیں۔ کیپری میں Mackenna’s Gold, The Professionals, It’s a mad mad mad mad world, The Black Beard’s Ghost
The Burglars
اور دوسری کئی فلمیں بڑی مقبول ہوئیں۔

پھر کیپری سے بھی بڑھ کر جدید ترین سازوسامان کے ساتھ پرنس سینما آیا۔ لیکن پرانے سینماؤں کا ایک مخصوص ماحول تھا۔ اس کے علاوہ کچھ سینما مختلف قسم کی فلموں کے لئے مخصوص تھے۔ ہالی ووڈ کی فلموں کی تخصیص عموماً رومانوی، کامیڈی، تاریخی، جنگی، مہماتی، ڈراؤنی Romantic, Comedy, Musical, Action, Spy, . Historical, War, Adventure, Western (Cowboy), Horror and Biblical Stories پر مبنی ہوتی ہیں۔ کچھ سینما اپنے جدید سازوسامان کی بدولت کچھ فلمیں خاص انداز میں دکھاتے۔ جیسے لیرک سینما ، گنزآف نیوارون اور کیپری سینما Where the eagles dareجیسی فلموں میں ایک خاص موقعے پر اچانک ساؤنڈ بڑھا کر تماشائیوں کو چونکا دیتے۔ بمبینو سینما میں The Lawrence of Arabia, The Fall of the Roman Empire, Genghis Khan جیسی فلمیں لگتیں ۔ بمبینو میں ہی ایلزیبتھ ٹیلر کی “ قلوپطرہ کئی ہفتے “ رش” لیتی رہی۔ بمبینو پاکستان کا پہلا سینما تھا جہاں ۷۰ ایم ایم کی اسکرین لگی اور اسٹیریوفونک ساؤنڈ سسٹم متعارف ہوا۔ ۔ ریکس سینما میں سسپنس اور ڈراؤنی فلمیں، کیپیٹل میں بن حر اور ٹین کمانڈمنٹ جیسی دھارمک فلمیں فلمیں پیش کی جاتیں۔ پیلس سینما بہت ماڈرن نہیں تھا لیکن زیادہ تر کلاسیکل فلمیں دکھاتا تھا۔ یہاں My Fair Lady, Dr.Zhivago, Angelic جیسی فلمیں لگا کرتیں۔ Rioسینما کا ہال شاید کراچی ( اور پاکستان) کا سب سے بڑا ہال تھا۔ یہاں گیارہ سو نشستوں کا انتظام تھا اور یہاں کی اپنی مخصوص فلمیں تھیں۔ ComeSeptember اور The Long Duel یہاں کئی ہفتے چلیں۔ Capitol میں بائبل پر مبنی کہانیوں والی فلمیں، ہرکولیس، سیمسن David and Goliath قسم کی فلمیں پیش کی جاتیں۔

اور پھر یہ ہوا کہ “ہالی ووڈ “ ہمارے محلے میں آگیا۔ یہ بہادر آباد میں تعمیر شدہ پہلا سینما تھا۔ ہمارے لئے ایک تو سفر کی آسانی ہوگئی کہ اب بس، رکشہ یا ٹیکسی کے کرائے سے بچ گئے۔ اب چچا کے بغیر اکیلے بھی جاسکتے تھے ساتھ خاندان کے بچوں کو بھی لے جاتے اور The Thief of Baghdad, Seventh Voyage of Sindbadقسم کی فلمیں انہیں بھی دکھا لاتے۔ ایک اور مزے کی چیز یہ ہوئی کہ چونکہ مضافات میں تھا چنانچہ یہاں رش بالکل نہیں ہوتا تھا۔ ہفتے کے ایک دو دنوں کے بعد ہال بالکل خالی ہوتا۔ مالکان نے اس کا حل یہ نکالا کہ شو کے دوران ہی اگلی فلم کے رعایتی پاس مفت بانٹتے۔ ان پاسز کی بدولت مجھے To Sir With Love, From here to eternity, Guess who is coming to dinner, Gone with the wind اورMutiny on the Bounty جیسی کلاسیک فلمیں تقریباً مفت دیکھنے ملیں۔

اور جب ہالی ووڈ کی فلموں کا شہرہ تھا وہاں کے اداکار بھی یہاں “ہاؤس ہولڈ” نام بن گئے (ہاؤس ہولڈ کے مناسب اردو ترجمے کے لئے معذرت)۔ جس طرح سنتوش، درپن، حبیب، کمال، محمدعلی، وحید مراد ، ندیم، صبیحہ ، شمیم آرا، نئیر سلطانہ، زیبا، دیبا، شبنم وغیرہ مشہور تھیں اسی طرح، راک ہڈسن، گریگوری پیک، مارلن برانڈ و، برٹ لنکاسٹر، رچرڈ برٹن ، انتھوںی کوئن، کرسٹوفر لی، چارلٹن ہیسٹن، عمر شریف، جیری لوئیس، سین کونری ، ڈین مارٹن وغیرہ یہاں مقبول تھے۔ ایلزبتھ ٹیلر، صوفیہ لورین، آڈری ہپبرن، برشی باردو، کلاڈیا کارڈینل، جینا لولو بریجیڈا اور جولی کرسٹی وغیرہ کا ذکر بالکل اپنے اداکاروں کی طرح ہوتا۔ ریڈیو سے روزانہ ڈیڑھ بجے انگریزی موسیقی کا پروگرام ایڈورڈ کیرپئیڈ پیش کرتے اور انگریزی دان حضرات فرمائشی گیت اسی طرح سنتے جس طرح ہم اردو پنجابی گانے سنتے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ Come September کی ٹائٹل دھن کئی ہفتے تک چارٹ پر اوّل نمبر پر رہی۔ اس کے علاوہ Bridge on the river Kwai کے مارچ کی دھن، ایلوس پریسلے، کلف رچرڈ ، اینجلبرٹ ، میری ہوپکِنزاور لولو وغیرہ کے گیت کراچی کی فضاؤں میں گونجا کرتے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میں اصلی اور نسلی اردو میڈیم ہوں اور پاکستانی فلمیں میری اولین پسند ہوتی تھیں لیکن پچھلے ہفتے ایک مضمون ایک انگریزی فلم The night of the generalsکے حوالے سے لکھا تو یاد آیا کہ کبھی شہر کا یہ بھی ماحول تھا اور ہماری بہت سی سہانی یادوں میں ایک حصہ ہالی ووڈ کی ان فلموں کا بھی تھا۔ میرا جی تو چاہ رہا تھا کہ ہالی ووڈ کے اپنے پسندیدہ اداکاروں کا ذکر کروں۔ اور یہ بھی تعداد میں کوئی کم نہیں تھے لیکن کیا کروں کہ یہ تمہید ہی اتنی طویل ہوگئی۔ ویسے بھی یہ ایک فضول سا مضمون ہے۔ ملک کو اس وقت کئی اور گمبھیر مسائل درپیش ہیں اور آپ کی توجہ بجا طور پر ان مسائل پر ہے۔ ایسے میں یہ ایک بے مقصد مضمون کون پڑھے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ نے اجازت دی تو اگلے ہفتے ہالی ووڈ کے ان ستاروں کا ذکر پیش کروں گا جو کبھی آپ کے بھی پسندیدہ رہے ہونگے۔ اور زندگی رہی تو ایک عرضداشت اس موضوع پر بھی پیش کروں گا کہ میں یہ بے معنی، بے مقصد ، مضامین کیوں لکھتا ہوں۔
خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں۔ اللہ نگہبان۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply