آدھا منظر۔مہوش طالب

شام کے دھندلکے سائے گہرے ہونے کوتھے، وہ دونوں تھکے ماندے لو ٹ رہے تھے، تھکن اور بیزاری دونوں کے چہرے سے عیاں تھی۔ وہ دونوں کلاس فیلو رہ چکے تھے اور اتفاق سے میڈیا رپورٹنگ کے مشترکہ شوق نے دونوں کو پھر سے ملوادیا،ایک سال کے عرصے میں دونوں کی بے تکلفی غیرمعمولی حد تک بڑھ چکی تھی۔اور اسی غیر سنجیدہ رویے کے باعث ان کی نوکری خطرے میں پڑ  چکی تھی، باس نے انہیں وارننگ جاری کردی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اب دونوں کسی ایسے منظر کی تلاش میں تھے جسے تگڑی، تیکھی خبر، بنا کر ڈائریکٹر کے سامنے پیش کرکے  نوکری بحال رکھی جاسکے۔دراصل وہ دونوں ایک غیر معروف چینل کے لئے کام کرتے تھے۔

وہ دونوں تیز تیز قدم چلارہے تھے، مبادا کسی شناسا سے سامنا نہ ہوجائے، اسی خطرے کے پیش نظر، نوجوان لڑکی سر سے پیر تک سیاہ عبایامیں چھپی تھی، جبکہ پچاس کے پیٹے میں داخل ہوتا مرد، کندھے پر رکھے رومال سے اپنا آدھا چہرہ چھپایے ہوئے تھا، منزل پر پہنچ کر آدمی نے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے تسّلی کی اور پھر دونوں اطمینان سے لکڑی کا داخلی دروازہ پار کرگئے۔

آج و ہ دونوں ایک نئی اُمید لئے نکلے تھے، اسی لئے کافی پر عزم بھی تھے، انہوں نے شہری علاقوں کی بجائے پسماندہ علاقوں کی گلیاں چھاننے کو ترجیح دی۔ 

یہ ایک بارونق علاقہ بلکہ بازار تھا، رنگا رنگ لوگوں اور اشیاء سے بھرا،گول گپوں اور دہی بھلوں سے پیٹ بھرنے کے بعد وہ دونوں اصل مقصد کی جانب بڑھے،مہنگائی، جیب تراشی، خواتین سے بدتمیزی، ٹریفک حادثات وغیرہ، تو ُپرانے موضوعات تھے، لہذا وہ ان سب سے “ہٹ  کر” کی تلاش میں تھے، 

“یار کیا مصیبت ہے، دوپہر ختم ہونے کو ہے آج بھی، مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا ” نجیب مایوس ہونے لگا،

“تو کیا ہوا، دن تو ختم نہیں ہوا نا، حوصلہ رکھو، دراصل تمہیں بھوک لگی ہے، اس لئے ہمت جوا ب دے رہی ہے، چلو کچھ کھانے کا بندوبست کرتے ہیں” ایمن نے مقامی ہوٹل جس کی بیشانی پر ‘دیسی چسکا’کا بوسیدہ بورڈ آویزہ تھا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، 

کچھ لمحوں بعد ہی وہ ریسٹورنٹ کے اندر بیٹھے بریانی اور کوکاکولا کاآرڈر دے رہے تھے۔

“دیکھ سوہنی، گھبرا نہ، میں ہوں تیرے ساتھ۔ ”  نوجوان لڑکی مسلسل ناخن  کُتر رہی تھی، اس کے بیٹھنے کا انداز بھی اضطرابی تھا

“اچھا اب بتا کیا کھائے گی” وہ اس کی فرمائش پوچھ رہا تھا،

“بول بھی میری رانی ” لڑکی کے خاموش رہنے پر وہ اسے اُکسانے لگا

“جو بھی تیرا دل کرے، میں اتنی مشکل اور سب سے چھپ چھپاکے یہاں کھانے نہیں آئی ، وہ تو سوکھا سڑا مجھے وہاں بھی مل جاتا ہے، میں تیرے ساتھ وقت گزارنے آئی ہوں۔۔

تو بتا مجھے، تیرے پاس میرے لئے وقت کیوں نہیں ہوتا، وہ تیری سوتیلی زیادہ اہم ہے تیرے لئے؟ بول۔۔۔ ” لڑکی کا نقاب ڈھیلا ہوچکا تھا او روہ ایک سانس میں شکوہ کرتی چلی گئی۔

“نہ نہ، ایسی بات نہ کر،تجھ سے زیادہ مجھے کوئی عزیز نہیں”  کہتے ہوتے آدمی نے اس کے ہاتھ تھام لئے، اس دوران لڑکی کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئی تھیں.

۔۔۔۔۔۔۔

بریانی کی دھواں اڑاتی پلیٹیں ان دونوں کے سامنے تھیں، نجیب لبوں سے زبان تر کرتے ہوئے کھانے سے پورا انصاف کرنے لگا، جبکہ ایمن کی مرکزِ نگاہ سامنے کا منظر تھا، ایمن کے دماغ میں کوندا لپکا اور اس نے اپنا آئی فون کیمرہ اس منظر پر فوکس کردیا، کردار اور مرکزی خیال اس کے سامنے تھے ، کہانی بنانا اب ایمن اور نجیب کا کام تھا،

‘فوڈ پوائنٹ، بے حیائی کا اڈہ۔۔” ڈاکومنٹری کا موضوع وہ سوچ چکی تھی، 

“کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہیں؟ آدھی پلیٹ ختم کرچکنے کے بعد اسے ایمن کاخیال آیا، جواباً اس نے اس کی توجہ کونے مگر سامنے کے ٹیبل کی جانب کرائی، جہاں وہ آدمی ا س لڑکی کو سینے سے لگائے بہلا رہا تھا۔

ایمن اور نجیب نے معنی خیز نظروں کا تبادلہ کیا اور اس پوز کی بھی تصویریں لینے لگے۔

واپسی پر دونوں کافی مطمئن ہوکر ہوٹل سے باہر نکل گئے۔

باہر کی فضا حبس زدہ ہونے لگی تھی
۔۔۔۔۔۔
“چل میری دھی رانی، اب اُٹھ جا، بڑا ویلا گزر گیا، تیری ماں پریشان ہوگی، اور تیرا سوتیلا باپ اس کو طعنے دے دے کر اس کا جینا حرام کردے گا، ساتھ میں تجھے بھی مارے گا۔۔ آجا میرا سوہنا پتر”
“ابا! تو پریشان نہ ہو، میں اماں سے دوبارہ بات کروں گی کہ وہ مجھے تیرے ساتھ رہنے دے,” وہ اپنے باپ کے ساتھ ساتھ خود کو بھی تسلی دے رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور دیکھتے ہی دیکھتے کالے بادل اپنا رستہ بناتے زارو قطار برسنے لگے.

Facebook Comments

Mahwish talib
ماہ وش طالب نے پانچ سال قبل ماہانہ پرچے سے لکھنے کا آغاز کیا ، اب وہ مختلف اخباروں، رسائل اور ڈیجیٹل پورٹلز کے لیے لکھ رہی ہیں ، محترمہ ماہ وش یو ای ٹی لاہور سے اپلائیڈ کیمسٹری میں ایم فل کرچکی ہیں۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply