علما کی حکومت مخالف تحریک آتش فشاں بننے کو۔۔انعام الحق

جہاں گئے تاریخ رقم کرآئے ،کے مصداق بننے والی عمران حکومت عجیب تر حکومت ثابت ہورہی ہے ،جس کو چلانے والے عقل و دانش اور   فہم وفراست سے کوسوں دور ہیں ۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں عمران حکومت کے خلاف روزِ  اوّل سے ہی صف آرا ء ہیں ۔یہاں تک کہ وزیراعظم بننے کے بعد اپوزیشن نے عمران خان کو پہلا خطاب بھی اسمبلی میں نہیں کرنے دیا ،اور عمران حکومت کے انتقامی رویہ نے PDM کی بنیاد خود ڈالی ،پھر مہنگائی اور مس مینجمنٹ کا ریکارڈ قائم کر کے PDM کو عوامی مقبولیت بھی  عمران حکومت نے خود بخشی ڈھائی سال کے دورانیہ میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے اس حکومت کے پاس نہ تو اہلیت ہے اور نہ کوئی حکمت عملی اور پالیسی بلکہ ہر روز یہ حکومت کسی نئے تنازع  کا شکار ہوکر ریاستی اداروں کے لئے ایک نئی مشکل کھڑی کرتی ہے۔

انہی تنازعات میں سے ایک بڑا تنازعہ وقف املاک ایکٹ بھی ہے ،ستمبر 2020کے اواخر میں عمران حکومت نے آنا ًفاناً اس ایکٹ کی منظوری دلوائی، جس کے مطابق تمام وقف ادارے چاہیے تعلیمی ہوں یا خیراتی ،وہ گورنمنٹ کے دائرہ اختیار میں ہوں گے۔ اس ایکٹ کے مطابق گورنمنٹ خیراتی اداروں میں ہر طرح کا تصرف اور کنٹرول کرنے کی مجاز ہے۔ ابتداء میں  اس ایکٹ کا اطلاق وفاقی دارالحکومت پر ہوگا جس کی فل اتھارٹی چیف کمشنر ہوگا اور اسکے ماتحت ایک نیا انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے گا،جس کے سربراہ کو منتظم اعلیٰ  کا نام دیا گیا ہے جو اتنا بااختیار ہوگا کہ اسکے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے کو وہ قید اور اڑھائی کروڑ تک جرمانے کی سزا دے سکتا ہے ۔جس کو ہائی کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کو چیلنج کرنے کا عدالتی فورم صرف اور صرف سپریم کورٹ ہوگی۔

اس ایکٹ کی متعدد شِقوں کو آئین پاکستان اور اسلامی احکامات کی صریح مخالفت قرار دیا جاچکا ہے، جس کو پورے ملک کے تمام مکاتبِ  فکر کے علما مسترد کر چکے ہیں۔ سینٹ سے بھی وقف املاک ایکٹ مسترد ہوا تھا ،پھر جوائنٹ سیشن سے سادہ اکثریت کے ساتھ عمران حکومت نے بیرونی دباؤ پر عجلت میں پاس کیا، یہ ایکٹ بھی فیٹف کی سوغات میں سے ہے۔

وقف املاک ایکٹ 2020 صدر کے دستخطوں کے بعد قانون کا حصہ بن چکا ہے۔ اس میں سب سے پہلے جماعت ِ اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد نے پارلیمنٹ کے فورم پر آواز اٹھائی اور ترامیم  پیش کیں۔ اسکے بعد راقم نے اس ایکٹ کا مسودہ حاصل کرکے اسکا مطالعہ کیا ،اور دو آرٹیکل بھی لکھے، جس پر اکابر علما  متوجہ ہوئے اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت فیوضھم نے شِق وار جائزہ لیکر ترامیم  صدر مملکت کو بھجوائیں ، لیکن صدر مملکت نے یہ کہہ کر معذرت کر لی ، کہ میں اس پر دستخط کرچکا ہوں ،میں نے خود ایوان صدر میں درخواست فائل کی جس کا ڈائری نمبر 242ہے ،اس درخواست کے ذریعے میں نے صدر مملکت کو تحریری طور پر تمام مسالک کے علما کے تحفظات سے آگاہ کیا اور علما سے مشاورت کی گزارش کی۔

وقف املاک ایکٹ پر اسلام آباد کے علما نے باقاعدہ طور پر ایک تحریک کا اعلان کردیا ہے جسکی سربراہی مولانا ظہور احمد علوی کررہے ہیں، اس تحریک کو باقاعدہ طور  پر تحریکِ  تحفظ مساجد ومدارس کا نام دیا گیا ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران علما کے اس پر درجن سے زائدرسمی اور غیررسمی اجلاس ہوچکے ہیں، جس میں بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث تینوں مسالک شامل ہیں۔ تحریک ِ تحفظ مساجد ومدارس کے سیکرٹری جنرل مفتی اقبال ہیں، جوکہ بریلوی مکتب فکر سے ہیں ،تین ماہ کے دوران تحریک تحفظ مساجد ومدارس کے ذمہ داران نے کچھ حکومتی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کی  ہیں اور تینوں مکاتب فکر کے مستند اکابر علما  کے وقف املاک ایکٹ پر تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔ اس حوالے  سے ہونے والی ملاقاتوں میں سے مدارس ریفارمز ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر جنرل رفیق طاہر اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سے ملاقاتوں کو اہم قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن کوئی خاص پیش رفت نہ ہونے پر تحریک تحفظ مساجد ومدارس نے 2020کے آخری دن یعنی آج  31دسمبر 2020کو اسلام آباد ہوٹل میں ملک گیر علما کی قیادت کا اہم اجلاس بلوایا ہے، جس میں پانچ سو کے قریب مدارس کے مہتممین اور چاروں وفاق  کی مرکزی قیادت شریک ہورہی ہے، جس میں قاری حنیف جالندھری ،مفتی منیب الرحمن ،پروفیسر ساجد میر سمیت اہم شخصیات شامل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی وقف املاک ایکٹ کیوجہ سے جنرل باجوہ کی ضمانت پرتنظیمات المدارس اور گورنمنٹ کے درمیان وزارت تعلیم کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کے حوالہ سے طے ہونے والا معاہدہ بھی تعطل کا شکار ہوچکاہے اور تنظیمات المدارس نے اس بل کی وجہ  سے رجسٹریشن کرانے سے انکار کردیا ہے اور یہ ایکٹ مذہبی طبقات  کو حکومت کے مقابل لاکھڑا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ شورش کے اس خطرناک دور میں وطن عزیز کی حفاظت فرمائے، آمین یارب العالمین!

Facebook Comments