تصوف کی حقیقت۔سائرہ ممتاز/قسط6

!تصوف پر جان میلکم کے الزامات
جان میلکم کا شمار ان مستشرقین میں ہوتا ہے جو ہندو ازم کو تصوف کا مآخذ قرار دیتے ہیں. ان کے متعلق پروفیسر آربری لکھتے ہیں “سر جان میلکم نے اپنی کتاب تاریخ فارس history of Persia میں  نے تصوف کے بنیادی اصولوں پر طویل بحث کی ہے جو طویل غلط فہمیوں کا پلندہ ہے. میلکم کی ریسرچ کا مآخذ کیپٹن گراہام کا وہ لیکچر ہے جو انہوں نے 1811 میں بمبئ کی ادبی سوسائٹی میں دیا. جہاں تک خود گراہام کی معلومات (مآخذ) کا تعلق ہے وہ ایسی کم مایہ اور کم پایہ ہیں کہ  ان کی طرف ذرہ بھر التفات نہیں کیا جا سکتا ہے” نیز میلکم نے خود صوفیاء کے سلاسل کی فہرست اور ان کے تمام اعداد و شمار دیے ہیں وہ بھی بہت بے تکے ہیں.تصوف پر ایرانی اثرات کے برعکس پروفیسر آربری کتاب مذکور میں یہ ثابت کر چکے ہیں ایران کے صوفی شعراء کے عارفانہ کلام کا یورپ پر گہرا اثر ہوا۔۔۔ وہ لکھتے ہیں
“ایران کا عارفانہ کلام کافی مدت سے جرمنی پر اثرانداز ہو رہا تھا اور جرمنی کے نامور شاعر گوئٹے اس سے بڑی حد تک متاثر ہوئے ہیں. فرانس میں وہاں کے مایہ ناز بزرگ سلوسٹر ڈے سیکی پر بھی تصوف کا بڑا اثر ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے 1819 میں شیخ فرید الدین عطار کے پند نامہ کا متن اور ترجمہ شائع کیا”
تھالک کے الزامات :
تھالک(tholcuck ) کے متعلق پروفیسر آربری لکھتے ہیں کہ :
” میلکم کی تاریخ فارس کے بعد یورپ میں تصوف کے متعلق سب سے بڑی تصنیف ایف آر ڈی تھالک کی صوفیمیس (sufimus )ہے جو عصر حاضر کی صحافت کے معیار کی رو سے ایک معمولی چیز ہے. تھالک اپنے قارئین پر اپنی عظیم ریسرچ اور لسانی قابلیت کا رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کام میں وہ ناکامی کا شکار ہو جاتے ہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنا نظریہ ثابت کرنے کے لیے ان کو جو مواد حاصل ہوا وہ بالکل ناکافی تھا. ان کے مواد کا زیادہ تر ذخیرہ ایران سے لیا گیا جو بہت ہی عامیانہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ان کتابوں کا مطالعہ تک نہیں کیا.
تھالک کو ان مشکلات کا سامنا ہوا جو ہر ریسرچ سکالر کو پیش آتی ہیں. ریسرچ کی شاہراہ کو چھوڑ کر وہ مختلف شکوک و شبہات کے چنگل میں پھنس گئے اور شروع میں یہ نظریہ قائم کیا کہ تصوف لفظ صوف(اون) سے مشتق ہے. اس کے بعد وہ کہتے ہیں پہلے میرا خیال تھا کہ تصوف کا مآخذ مجوسی فلسفی روحانیت ہے لیکن اس نظریہ کا ان کو کوئی ثبوت نہ مل سکا اور نہ ہی کسی نے اسے قبول کیا. اس لیے اسے ترک کر کے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ تصوف کی اصل عربستان کی عزلت نشینی ہے. اس کے بعد حلاج کے نظریہ توحید کے متعلق تھالک  یہ ثابت کرتے ہیں کہ انا الحق جیسا بظاہر غیر شرع کلمہ بھی پیغمبر اسلام کی تعلیمات سے ثابت ہوتا ہے. اس بارے میں انہوں نے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے.
” لی مع اللہ وقت لا یعنی نبی المرسل و ملک المقرب” (بعض اوقات مجھے حق تعالٰی کے ساتھ یہ تعلق ہوتا ہے جہاں نہ کسی نبی مرسل یا مقرب فرشتہ کی رسائی ہو سکتی ہے) آخر میں تھالک قطعی طور پر یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ تصوف پیغمبر اسلام کی اپنی روحانیت کی پیداوار ہے “
تھالک کی یہ قلابازیاں دیکھ کر پروفیسر آربری لکھتے ہیں کہ :
” مختلف مذاہب کے روحانی نظریات میں مشابہت ایسا جال ہے کہ اس میں سب پھنس جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ  اس  مشابہت کی بناء پر تصوف کی تاریخ مرتب کرنا بے کار ہے. ذاتی طور پر میرا یہ خیال ہے کہ فی الحال ان تمام قیاس آرائیوں کو ختم کر کے کم از کم ایک نسل تک ہم سب کو اس بات پر متفق ہوجانا چاہیے  کہ اگر تصوف کی تاریخ مرتب کرنا مطلوب ہے تو ہمیں تصوف سے متعلق اسلامی اور صرف اسلامی ذرائع اور وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا “
اس کتاب میں وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ :
” براؤن کی ریسرچ اور ان کی تصوف کے متعلق گہری نظر کا مقابلہ آج تک کوئی نہیں کر سکا. ان تمام تصانیف میں اسلامی تصوف کے ساتھ محبت اور گہری دلچسپی روح رواں کی طرح نظر آتی ہے. بالخصوص ان کی کتاب ” فارس کی ادبی تاریخ” ریسرچ کے میدان میں شاہکار ہے
اسی طرح لوئی ماسینیوں، مارگریٹ سمتھ، ولیم سٹوڈارڈ، ایچ سی ہاپولڈ، میکڈانلڈ سپسرٹرنگھم، اینی میری شیمیل، جیسے مستشرقین کے اعترافات تاریخ میں محفوظ ہیں۔۔
جاری ہے

Facebook Comments

سائرہ ممتاز
اشک افشانی اگر لکھنا ٹھہرے تو ہاں! میں لکھتی ہوں، درد کشید کرنا اگر فن ہے تو سیکھنا چاہتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply