اکیسویں صدی میں سامراج کا کیا کردار ہے؟۔۔۔جبران عباسی

جب شہری ریاستوں کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں ، انسان کی پولیٹیکل سوچ ارتقا پذیر ہو کر سینٹ جیسے اداروں کے قیام تک پہنچ چکی تھی ، جمہوریہ اور یوٹوپیائی  فلسفہِ حکومت بحث و اختلاف کے قابل بنا دیے گئے تھے تو کس نے تصور کیا یہ شہری ریاستیں جو بظاہر انسانی ترقی کا ماڈل اور انسانی سوچ کی بہترین عکاسی ہیں ایک دن ’’چومسکی‘‘ کی’’ بدمعاش ریاستیں‘‘ بھی بنیں گی ۔

شہری ریاستوں کو استحکام یوں نصیب ہوا کہ انھوں نے حکومت کرنے کا ضابطہ اخلاق سیکھ لیا ، ریاست کو تشدد کی اجازت دی گئی ، ریاست کے وجود سے اخلاقی اختلاف ہمیشہ بغاوت تصور کیا جاتا ہے ۔

انٹرنیشنل ریلیشن کی ایک تھیوری ہے core and periphery جسے عالمی سیاست و سفارتکاری کے مقاصد اور ماڈل کو سمجھنے کیلئے اہم مانا جاتا ہے ۔ core سے مراد ترقی یافتہ وہ ریاستیں جنھیں عالمی سامراج بھی کہا جاتا ہے اور periphery سے مراد ترقی پذیر ریاستیں لی جاتیں ہیں ۔

اکیسویں صدی کی core ریاستیں سات تسلیم جاتیں ہیں ۔امریکہ یقیناً سر فہرست ہے ، بہترین سفارت کاری ، مستحکم ادارے اور سپر پاور کا ٹائٹل اس کی طاقت ہے ۔روس دوسرے نمبر پر ایک فوجی طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کا مالک ہے ۔

یورپ پندرھویں صدی کے بعد عالمی سیاست کا مرکز ہے ۔ برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور اٹلی کی ماضی کی سلطنتیں آج بھی core ریاستوں کا ایک peninsula (جزیرہ نما) بناتی ہیں جو کہ دراصل مسلم سلطنتوں کے زوال کا نتیجہ ہیں ۔جاپان کی ناقابلِ شکست انڈسٹری اور چین کی طویل مسلسل معاشی کامیابیاں اور منصوبے بھی اسے عالمی سامراج کا شراکت دار بنا دیتے ہیں ۔

core ریاستیں ہمیشہ سے تھیں ، یونان کی شہری ریاستیں ، رومن ایمپائر کے روم و قسطنطنیہ ، یورپ کے فیوڈل دور کی وسیع جاگیریں ، ہیپسبرگ ، برگنڈی ہر ایک صدیوں کی core نمائندہ ریاستیں تھیں ، اگرچہ اب اس کا کینوس وسیع اور واضح ہو چکا ہے ۔

یہ سات ریاستیں اپنی اقتصادی خوشحالی ، بہترین سفارتکاری اور مستحکم نظام حکومت کی بدولت عالمی سامراج کی تشکیل میں ویٹو جیسا کردار ادا کرتی ہیں ۔ عالمی سامراج کی خاص بات جو اسے ممتاز بناتی ہے وہ ہے اس کی پیچیدہ اور الجھی ہوئی  سیاست جو مفاد کے دائرے میں گھومتی ہے ۔

عالمی سامراج کی سیاست کو سمجھنابہت مشکل ہے کیونکہ وہ کسی خاص اصول کے پابند نہیں  ہوتے ، جذبات کے جھنجھٹ سے آزاد مفاد کے گرد گھومتی ہے جنھیں تبدیل ہوتے وقت نہیں  لگتا ۔ماضی میں core ریاستیں اپنی طاقت کا اظہار فوجی نقل و حمل سے کرتیں تھیں یا کالونیاں بنا کر ۔

آج کے دور میں وہ مختلف بین الاقوامی اقتصادی ادارے کھڑے کر رہے ہیں ، انٹرنیشنل مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے  ذریعے دولت کا انبار کما رہے ہیں ،periphery ریاستیں ہمیشہ دست نگر رہتی ہیں دوسرے لفظوں میں ان ممالک کو مزید امیر کرنے کیلئے مزدودوں کی طرح کام کرتی ہیں ۔

عالمی سیاست کے بڑے ایکٹر بہت جلد پینترا تبدیل کر لیتے ہیں ، پاکستان کیلئے افغان وار پہلے ایک مذہبی نظریہ بنا کر پیش کی گئی ، نائن الیون کے بعد وہی آئیڈیالوجی پاکستان کا پھندا بن گئی ۔عالمی سامراج غریب ریاستوں کے داخلی انتشار اور عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ترقی کیلئے کچھ محدود آپشن دیتے ہیں اور اپنے وسیع مفادات کے گرد تحفظ کا ایک جال پھیلا دیتی ہیں۔

دنیا کے چوک پوائنٹس ، اہم سٹریٹجی لوکیشن جیسا کہ مڈل ایسٹ میں امریکہ و روس کے اڈے اور ائیر بیس مڈل ایسٹ کی علاقائی  سیاست کے خودمختار نہ ہونے کا اظہار ہے ۔ خاص کر سپر پاور امریکہ سی ای اے کی خفیہ سازشوں اور مسلسل پیداوار کیلئے تیل پر چلتا ہے ۔
’’ امریکہ ہر ملک کا پڑوسی ہے ‘‘ محاورہ نسبتاً افسانوی مگر حقیقت پر مبنی ہے ۔

دنیا کا اب Geopolitical سٹرکچر geo economic کے گرد زیر تعمیر ہے ، ماضی میں معاشی مفادات کیلئے صرف ریجنل اتحاد تشکیل دیے جا سکتے تھے جیسا کہ یورپی یونین ، مگر اب جغرافیہ ایسے اقتصادی اتحادوں کے آڑ ے نہیں  آتا جیسا کہ BRICS جو کہ تین براعظموں کے تیزی سے ترقی یافتہ ہوتی معشیت کے نمائندہ ممالک کا ایک بہت وسیع معنی و اہمیت رکھنے والا اتحاد ہے ۔

سترھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک core ریاستوں نے ساری periphery خطوں کو اپنی کالونیاں بنا دیا ، ہندوستان ایسی قدیم تہذیبی ثقافتی اور مضبوط مرکزی حکومت جیسی سلطنت بھی برطانیہ کی periphery بننے سے محفوظ نہیں  رہ سکی ۔

اکیسویں صدی میں core اور periphery ریاستوں میں جو عمرانی معائدہ طے پایا ہے اس کے تحت periphery خطوں کو بہت سے معاشی فوائد کی ضمانت فراہم کی گئی ۔ اب neo-imperialism کے ذریعے قرضوں ، مالی امداد ، معاشی منصوبوں کی فراہمی periphery ممالک کو مجبور کر دیتی ہے وہ اپنی پالیسیوں میں core ممالک کی ترجیحات کو بھی مقدم رکھیں ۔

روف کلاسرا نے اپنی کتاب میں ایوب خان کے امریکہ کے ہاتھوں ٹریپ ہو جانے کا واقعہ بڑی دلچسپی اور حقائق پر مبنی لکھا ، کیسے شاہانہ پروٹوکول نے ایوب کو اخلاقی طور پر مجبور کیا کہ وہ سی ای اے کو پاکستان میں چند اسائنمنٹس کی اجازت دینے پر مجبور ہو گئے ۔

تاریخ ہمیں باور کراتی ہے طاقت کا مرکز کبھی ایتھنز و سپارٹا تھے ، کبھی روم کا شہر ، کبھی قسطنطنیہ ، کبھی بغداد ، کبھی قراقرم کا وہ شہر تاتاری خان اعظم دنیا کو مسخ کرنے کا فرمان دیتا ، یورپ و مڈل ایسٹ کی بازنطینی سلطنتوں اور اسلامی مملکتوں ، رومن ایمپائر ، یہ ساری مثالیں ایک سبق جو سکھاتی ہیں کہ تاریخ کا رخ متعین نہیں  ایسے ہی طاقت کا مرکز مستقل نہیں، طاقت اپنا جھکاؤ  بہترین کی طرف خود کرتی ہے ۔

ایک وہ وقت ہے سلیمان عالیشان تخت نشین ہوتا ہے ، ہیرلڈیم لکھتے ہیں کہ زارِ ماسکو ایک خط میں سلیمان عالیشان سے اس کے حلیفی کیمپ میں شامل ہونے کی درخواست کرتا ہے پس منظر استراخان نامی کوئی  تاتاری ریاست ہے تاکہ عثمانی سلطان کا حلیف ہونے کی وجہ سے ماسکو کی قومی سلامتی محفوظ رہ سکے ۔

اب دوسرا وقت ہے زارِ روس کی فوجیں درہ دانیال سے آگے بڑھ آئی  ہیں ، عثمانی فوجیں مسلسل شکست کھا رہی ہیں ، درہ دانیال بچا تو لیا جاتا ہے مگر اب اس کے ساحلی علاقوں پر زار کی فوج کا پرچم لہرا رہا ہے۔ آخری زار و عثمانی خلیفہ کا انجام دوسری طرف ۔

کولڈ وار کے بعد geo economic کی مادی پالیٹیکس ابھر رہی ہے ، semi periphery ریاستیں عالمی سامراج میں واشگاف دراڑیں ڈال رہی ہیں جیسا کہ ماضی قریب میں BRICS کی اقتصادی تنظیم کامیاب ہورہی ہے یورپی یونین کی طرح ۔ یہ زمانہ تغیر و تبدل کا ہے ، یقیناً سپر پاور میجر پاورز کو مراہات فراہم کر رہا ہے ۔

عالمی سیاست کے اس تغیر و تبدل سے کوئی  ملک اسی صورت فائدہ اٹھا سکتا ہے جب وہ اس سیاست کے صحیح رخ کو سمجھے اور اپنے مفادات کے گرد پالیسیوں کا یوں جال بنے کہ کسی حریف کو اسکا سرا نہ مل سکے ، آپ کی پالیسی سلجھتی گئی کمزور ہوتی گئی ۔

سفارت کاری کا متبادل کوئی  نہیں  ، پاکستان جیسے ممالک جہاں بہترین سفارت کاری سے محروم ہیں وہیں  کمزور پالیسی میکر اور معاشی و سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے وہ ہمیشہ periphery ممالک کی فہرست میں رہتے ہیں ۔ میرا سیاسی حاصل مطالعہ بس اتنا ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز صرف ان کے political institutions and moral principles کی پائیداری پر مبنی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : اس مضمون کے بیشتر اقتباس انٹرنیشنل ریلیشن کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر شاہد محمود کے الوداعی لیکچرز سے لیے گئے ہیں ۔ آپ کی سروس اب گورنمنٹ کالج نمبر دو سے فیڈرل کو منتقل ہو چکی ہے اور ہمارا ڈیپارٹمنٹ ایک بہترین انٹرنیشنل ریلشین کے ماہر پروفیسر سے محروم ہو رہا ہے ۔

Facebook Comments

جبران عباسی
میں ایبٹ آباد سے بطور کالم نگار ’’خاموش آواز ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ مختلف اخبارات کیلئے لکھتا ہوں۔ بی ایس انٹرنیشنل ریلیشن کے دوسرے سمسٹر میں ہوں۔ مذہب ، معاشرت اور سیاست پر اپنے سعی شعور و آگہی کو جانچنا اور پیش کرنا میرا منشورِ قلم ہے ۔ تنقید میرا قلمی ذوق ہے ، اعتقاد سے بڑھ کر منطقی استدلال میری قلمی میراث ہے ۔ انیس سال کا لڑکا محض شوق سے مجبور نہیں بلکہ لکھنا اس کا ایمان ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply